انقلاب اسلامی ایران کے بعد کی ہر سطح پر ترقیاں فخرالدین | ||
انقلاب ایران(انقلاب اسلامی سے مشہور1978ء(1357ہ-ش( روحانیوں،بازاریوں،سیاسی مخالف پارٹیوں،طالبعلموں اور عام لوگوں کی مشارکت سے وقوع پذیر ہواـ انقلاب اسلامی نے ملک کے بادشاہی نظام کو ختم کیا اور جمہوری اسلامی کو بروئے کار آنے میں،روح اللہ خمینی(رہ) کی رہبری میں میدان فراہم کیا۔اسلامی شخصیات اور تفکرات نے اس انقلاب میں اہم کردار ادا کردیا اور امام خمینی(رہ) نے اس کو انقلاب اسلامی کا نام دیا۔ "جمہوری اسلامی"کا نظام مذہبی حکومت کے ڈھانچے میں،پچھلے نظام کا جایگزین ہوا۔امام خمینی (رہ) قم کے فیضیہ اسکول میں فقہ اور فلسفہ پڑھاتے تھے۔انہوںنے 1962 ء (1341ھ0ش) ہی سے اپنی تنقیدی تقریروں کا آغاز کیا۔ وہ اہم موضوعات پر جو لوگوں کو غصہ دلاتے تھے ،تقریریں کرتے تھے۔ان کی شاہ سے مخالفت کی اصل وجہ ،ایران میں امریکا کا نفوذ تھا۔ وہ ،محمدرضا پہلوی ایران کے بادشاہ کو اسرائیل کا مددگار،قانون اساسی پر پابند نہ ہونے،دولتمندوں کی حمایت کرنے،قومی تہذیب کی نابودی،فساد اور فحشاء کو پھیلانے،ملک کے قیمتی وسائل کو بر باد کرنے،کھیثی باڑی اور زراعت کی نابودی الغرض ملک کی غرب سے وابستگی جیسی اہم وجوہات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ہر کوئی تحریک اور انقلاب کی طرح،انقلاب ایران کو بھی بہت دستاورد ہیں جو بعض ان دستاوردوں کا اشارہ کیا جاتا ہے: 1979 ء(1357 ھ-ش) میں جب انقلاب اسلامی کے سربراہوں نے،ایران کی بھاگ دوڑ کو ہاتھـ میں لیا،ایران کی معاشی حالت کمیوں اور کاستیوں کا شکار تھی۔ من جملہ: قومی آمدنی کی تقسیم میں کھلم کھلا نابرابری،شہر اور گاؤں کی ترقی میںزمین و آسمان کا خلا، ،اجنبی قوّتون پر انحصار اور ایک فقرے میں اقتصاد،صنعت،اور زراعت کے سٹریکچر کی تباہی۔انقلاب کی جڑ ابھی مستحکم نہیں ہو پائی تھی کہ آٹھـ سالہ جنگ ،نئے نظام کو مٹانے کی نیت سے وقوع پذیر ہوئی۔اس جنگ میں بظاہر ایران ،عراق کی فوج سے لڑرہا تھا لیکن اس کے پیچھے امریکا،انگلینڈ،فرانس،جرمنی،اور بہت سےدولتمند اور طاقتور یورپی اور عربی ممالک کی حمایت چھپی ہوئی تھی۔ جنگ ایسے حالات میں چھڑی جب فوج کا نظام درہم برہم ہوا پڑا تھا اور فوج مکمّل طور پر وجود میں نہیں آئی تھی اور دشمن کا سامنے کرنے کے لئے ابھی کافی طاقت نہیں رکھتی تھی۔جنگ کے رو نما ہونے سے ،قومی وسائل کو ،معاشی ور سماجی ترقی کی بجائے،ملک کے دفاع میں صرف کیا گیا ۔ان سب مشکلات کے با وجود ،ایران کی اقتصادی ترقی کی امید،خاص کرکے انقلاب کی پہلی دہائی میں زیادہ منصفانہ نظر نہیں آتی ہے۔ بہرحال تمامتر سیاست اور رجحانات کی طرف توجہ دی گئی اور اگلی دہائیوں میں نئی مصوبہ بندیوں کی پالیسی نے سیاست پر مثبت اثرات مرتّب کیے ۔ پہلوی نظام ،چالیسویں خورشیدی دہائی میں،اپنی نادرست اسٹرٹجی سے جس کو اصلاحات ارضی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا،ایران کی معاشی مرض کا باعث بنا۔اس بیماری کی نشانیوں کو ،اقتصاد کے مختلف میدانوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھاـ صنعت کے میدان میں پہلوی نظام کی حمایتی صنایع کی قومی صنایع سے بیگانگی کے با وجود ،ملک کی یورپ سے اقتصادی وابستگی بڑھ گئی۔1357 ھ-ش تک تیس فی صد ،ملک کی آبادی دولتمند گھرانے تھے اور نوّے فی صد ملک کی آمدنی ان کی جیبوں میں جاتی تھی اور باقی ستر فی صد آبادی صرف دس فی صد آمدنی سے گزارا کرتی تھی ۔ پہلوی نظام کی غلط منصوبہ بندیوں سے ،کھیتی باڑی اور زراعت ختم ہو گئی اور ملکی وسائل اور امکانات کو بیشتر واردات پر خرچ کیا جاتا تھا ـ لیکن انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد با وجود اسکے کہ انقلاب کو شروع کے سالوں ہی سےمشکلات کا سامنا کرنا پڑا،لیکن کھیتی باڑی اور زراعت پر خاطرخواہ توجّہ دی گئی-اس طرح آج ملک کی نوے فی صد سے زیادہ محصولات،ملک کے اندر ہی حاصل کی جاتی ہیں اور اب انقلاب کے تینتیس سال بعد ،فخر سے کہا جا سکتا ہے کہ یورپی ذرائع ابلاغ کے تمام منفی پروپیکنڈوں کے با وجود،اسلامی جمہوریہ ایران نے عظیم ترقی کی ہے اور عالمی اقتصادی بحران کے باوجود اب ایران کی معاشی حالت ،پہلے سے زیادہ مستحکم ہو گئی ہے۔ایران کے خلاف شدید پابندیوں کے با وجود ،اب ایران نے جو اقتصادی میدان میں ترقّی کی ہے اور عالمی منڈیوں میں جس قدر اس کو مقبولیت حاصل ہوگئی ہے تیس بتیس سال پہلے کی حالت کا موازنہ اس کے ساتھـ نہیں کیا جا سکتا ہے۔دیہاتوں میں محرومیت کو مٹانا بھی،انقلاب اسلامی کا سماجی میداں میں ایک اہم قدم ہے۔انقلاب اسلامی سے پہلے ،دیہات،ملک کی محروم جگہوں میں شمار کیے جاتے تھے اور اکثر سہولتوں کو بے بہرہ تھےاور دیہاتی لوگ ،بہت مشقت اورسختی سے زندگی گزار کرتے تھے لیکن انقلاب کی پیروزی کے بعد ،سب مادی اور معنوی سہولتوں سے ،دیہاتوں کی آبادامنی میں لگایا گیا تا کہ شہر اور دیہات کی رفاہی سہولتیں ،ایک ہی کی سطح پر پہنچ جائیں۔انقلاب کی پیروزی کے بعد مقام زن کو بھی اہمیت بخشی گئی جس کا پیروزی سے پہلے کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ایران کی سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ 1906ء( 1285ھ-ش) میں عام لوگوں کی مشارکت ،ملک کے ساری اور جاری امور میں مقبول ہوئی۔افسوس کی بات ہے کہ ملک کے پہلے قانون اساسی کی تدوین میں ،عورتوں کے سیاسی حقوق نظر انداز کیے گئے اور معاشرے کے اس طبقہ کو حقیر اور قتل و غارت کرنے والوں میں شمار کیا جاتا تھا ۔ پہلوی اول کی حکومت کے دوران عورت ابھی بھی انسانی حقوق سے محروم رہ گئی تھی اور اس کو سیاسی امور میں مشارکت کی اجازت نہیں تھی۔ چالیسویں شمسی دہائی میں عورتوں کو رائے دینے کی اجازت باعث بنی کہ صرف اونچے طبقے کی بعص عورتوں کو سیاسی ذمہ داریاں مل جائیں اور حکومت نے یہی کم تعداد عورتوں کی مشارکت سے ،عوام فریبانہ پروپیکنڈے اور حقوق عورت اور مرد کی برابری کا غلط فائدہ اٹھایا ۔لیکن عورتوں کو رائے دینے کا اصلی ہدف ،جو عام عورتوں کی مشارکت کا زمینہ فراہم کرنا ہے کبھی بھی پورا نہیں ہوا ۔ لیکن انقلاب اسلامی کی پیروزی کے بعد عورتوں کی مشارکت کے متعلق ،جمہوری اسلامی کے قانون اساسی میں واضح موقف نمایان ہوا۔اس قانون میں،لفظ اور معنی میں کوئی اختلاف ،جنس کے لحاظ سے مقرر نہیں ہوا ہے اور عورتوں کی مشارکت کا سب میدانوں میں موقع فراہم کیا گیا ۔اس قانون میں عورت کی سماجی منزلت کی حمایت بھی کی گئی ہے اور یہ انقلاب اسلامی کا نتیجہ ہے کہ اس اسلامی معاشرے میں ،خواتین اسلام کے عطا کردہ حقوق کی برکات سے سماجی ،سیاسی،معاشرتی،آموزشی،سب میدانوں میں فعّال کردار ادا کر سکتی ہیں۔خواتین انقلاب کی پیروزی کے بعد تعلیم اور صحت کے لحاظ سے بھی ایک مطلوب سطح کو پہنچ گئی ہیں۔رضا خان کی سلطنت کے دوران،عورتوں کو عمومی مشاغل میں حصّہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ہر چند کہ خواتین کا ان پڑھ ہونا، ان کی مشارکت کی رکاوٹ بن گئی تھی لیکن اس کے با وجود ،محدود تعداد کی پڑھی لکھی عورتوں کو بھی روزگار نہیں ملتا تھا۔ لیکن انقلاب کی پیروزی کے بعد خواتین کی معاشی مشارکت بڑھ گئی۔ دوسری کامیابیوں کے ساتھـ ساتھـ ،انقلاب اسلامی کی پیروزی کے بعد ،ایران نے میڈیکل کے میدان میں بھی بہت ترقّی کی ہے ۔صحت جسمی،روحی، سماجی سلامتی اور خوشحالی کا معنی دیتی ہے اور صرف بیماری ، معلولیت اور ناتوانی نہ ہونے کا معنی نہیں دیتی ہے۔تندرستی اور صحّت ،انسان کا ایک اہم حق سمجھا جاتا ہے ۔ صحت اور تندرستی پر اثر گذار عوامل میں سے اقتصادی-سماجی عوامل،ماحول،رہن سہن اور علاج کی سہولتوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔پچھلے تیس بتّیس سال میں ،سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بڑی اور کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔دوا میڈیکل کے میدان میں ترقی،نئی دواؤں کی تولید ،اپریشن کے میدان میں کامیابیاں،علاج کے نئے طریقے ایجاد کرنا،بعض بیماریوں کو جڑ سے مٹانا،علاج کی سہولت میں بہتری اور سائنسی ـ ریسرچ مراکز کا پھیلانا،یہ سب انقلاب اسلامی کے علاج کی فیلڈ میں اہم اقدامات ہیں۔ایران کی یہ سب کامیابیاں سامراجی ملکوں کی دخل اندازی کا منہ توڑ جواب ہوں گی۔آخر میں انقلاب اسلامی ایران کی سربراہ امام خمینی (رہ)کی ایک بات سے اپنی بات ختم کرتی ہوں۔انہوں نے فرمایا ہے"تہذیب اور کلچر ،ایک قوم کی کامیابیوں اور ناکامیابیوں کی جڑ ہے۔ملک میں غرب کی بری تہذیب کو نکالنے اور اس کی جگہ قومی اسلامی تہذیب کو جگہ دینے کے لیے ایسی ہی کوشش درکار ہے جس کو پورا کرنے کے لئے سالوں سال محنت کرنی چاہیے"ـ | ||
Statistics View: 2,034 |
||