"علامہ اقبال" اور اسلامی بیداری | ||
"علامہ اقبال" اور اسلامی بیداری ڈاکٹر محمد کیومرثی ایک اچھے کلام، شعر یا نظریے کو زمان و مکان میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ بعض الفاظ اور نظریے آفاقی ہوتے ہیں اور انہیں (universal truth) عالمگیر سچائی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مشہور شاعر علامہ محمد اقبال جنہیں حکیم امت، شاعر مشرق، مصور پاکستان اور ان جیسے دوسرے القابات سے یاد کیا جاتا ہے ایسے صاحب نظر اور نظریہ پرداز شاعر و دانشور ہیں کہ ان کے کلام اور نظریے کی آفاقیت، محبوبیت اور مقبولیت آج بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں جو بنیادی کردار علامہ اقبال کے افکار و اشعار نے ادا کیا ہے تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی۔ برطانوی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لیے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کیے اس کی روشنی اور کرنیں آج بھی با آسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے قرآنی تعلیمات اور صدر اسلام کو اپنا منشور اور آئیڈیل قرار دے کر بر صغیر پاک و ہند کی نوجوان نسل میں ایسی روح پھونکی کہ وہ نہ صرف اپنی خوابیدہ صلاحیتوں سے آشنا ہوا بلکہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان عمل میں وارد ہوگیا۔آج عرب ممالک بالخصوص مصر، تیونس، لیبیا، بحرین و غیرہ میں جس اسلامی بیداری نے سر اٹھایا ہے اس کے پیچھے جہاں امام خمینی ، حسن البنا، ابولاعلی مودودی اور جمال الدین اسدآبادی جیسے مسلمان علماء و دانشوروں کے افکار و نظریات ہیں وہاں علامہ اقبال کے فکر و اندیشے کو بھی آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ۔ آج عرب دنیا اور شمالی افریقہ کے ممالک میں جس اسلامی بیداری کا آغاز ہوا ہے اس میں سامراج دشمنی، اسلام سے محبت، مغربی تہذیب سے نفرت اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد واضح و نمایاں ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری اور نثر کا جب مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہی عناصر غالب نظر آتے ہیں علامہ اقبال کی شاعری کا ایک بڑا ہدف اپنے دور کے استعمار و سامراج کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اور اپنی ملت کو اس کے تسلط سے آزادی دلانا تھا۔ آپ کے مختلف اشعار میں اس مبارزے کو بڑی آسانی سے درک کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلام کی نشات ثانیہ کے لیے جتنے ہی اشعار لکھے ہیں ان میں سامراج کے چنگل سے آزادی کا عملی پیغام ہے۔ شب گریزان ہوگی آخر جلوہ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے علامہ اقبال ایک اور مقام میں فرماتے ہیں: آج بھی ہو جو براہیم کا ایمان پیدا آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا ایک اور جگہ پر کہتے ہیں: عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش خلافت ہے جہاں گیر تری ماسوااللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلمان ہو تو تقدیر سے تدبیر تری کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں یا آپ کا بہت ہی مشہور شعر ہے: ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر علامہ اقبال نے فارسی اور اردو میں سامراج کے خلاف قیام کی ضرورت اور اس کے نتائج کے بارے میں ہزاروں شعر کہے ہیں اور جیسا کہ ہم نے شروع میں کیا ہے کہ اسلامی بیداری کی حالیہ تحریک میں سامراج دشمنی کے علاوہ مغربی ثقافت اور مغربی نظام سے نفرت بھی نمایان ہے یہی خصوصیات علامہ اقبال کی شاعری میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا موازنہ کرتے ہوئے لکھے ہیں: عرب کے سوز میں ساز عجم ہے حرم کا راز توحید امم ہے تہی وحدت سے ہے اندیشہ غرب کہ تہذیب فرنگی بے حرم ہے علامہ اقبال کی شاعری اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کا سبق دیتی ہے اور آپ نے "خودی " کا جو نظریہ پیش کیا اس کے پیچھے بھی بنیادی طور پر یہی فلسفہ ہے وہ مسلمانوں کو "خودی" کی بیداری کا پیغام دیتے ہیں اس موضوع پر ان کے کلام میں سب سے زیادہ اشعار موجود ہیں: خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سرّ زندگانی ہے نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاودان ہوجا تو راز کن و مکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیان ہو جا خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہوجا یہ ہندی وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی تو اسے شرمندہ ساحل، اچھل کر بے کراں ہوجا خودی کے زور سے دنیا پہ چھاجا مقام رنگ و بو کا راز پا جا برنگ بحر، ساحل آشنا رہ کف ساحل سے دامن کھینچتا جا جس طرح کہ ہم نے شروع میں اشارہ کیا تھا کہ حالیہ اسلامی بیداری کا اصل منشور قرآن اور رسول اللہ کی سیرت ہے اقبال بھی اسلامی بیداری کا اصل منبع قرآن حکیم کو قرار دیتے ہیں: قران میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار | ||
Statistics View: 13,799 |
||