عالمی اقتصادی نظام میں ایران ، پاکستان گیس پائپ لائن کا کردار ڈاکٹر سکندر عباس زیدی | ||
باوجود اس کے امریکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت میں کھلی دشمنی اور بلیک میلنگ پر اتر آیا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی کانگریس کی خارجہ کمیٹی میں پاکستانی بلوچستان کے معاملات پر ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔ یہ بات بھی تسلی بخش ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر دونوں ممالک جلد عمل درآمد کا بھرپور عزم رکھتے ہیں۔ پاکستان کا مفاد بھی علاقے کے ملکوں سے ضروری اشیاءکے لین دین میں مضمر ہے۔ ماسوائے بھارت کے جو پاکستان کےخلاف آبی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے، اب پاکستان زراعت پر قبضہ اور زرعی بنیادوں پر استوار کارخانوں کو بڑے بڑے بھارتی تالے لگانا چاہتا ہے تاہم ایران، ترکی، افغانستان، سارک ممالک ،وسطی ایشیائی ریاستوں، چین، روس، خلیجی مملکتوں اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کے امکانات بڑے وسیع ہیں۔ یہ ضرورت ایسے وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے اور اس کی معیشت شدید مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ہماری جی ڈی پی ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر یعنی2.6 فیصد پر آچکی ہے جبکہ بھارت کی جی ڈی پی8.9فیصد، بنگلہ دیش6فیصد، سری لنکا6.6فیصد اور ویتنام کی جی ڈی پی6.1فیصد ہے۔ امکانی طور پر آنے والے برس ہمارے لئے اور زیادہ سخت ہوسکتے ہیں اس لئے ہمارے اکنامک منیجرز کو ایسے طریقے تلاش کرنے چاہئیں جن کے ذریعے پاکستان کے عوام کی حالت کو بہتر بنانا ممکن ہو۔ اس کا ایک طریقہ آس پاس کے ملکوں سے لین دین بڑھانا ہے جس میں مال کے بدلے مال اور مقامی کرنسی کے استعمال سمیت کئی آسان راستوں کی بھی گنجائش ہیں۔ ہمارے اقتصادی و فنی ماہرین کو دوسرے ملکوں سے تیل اورگیس حاصل کرنے کے علاوہ اندرون ملک ان کی تلاش کے لئے سرمایہ اور فنی مہارت لانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔اس مقصد کے لئے دوست ملکوں سے جامع منصوبوں پر تبادلہ خیال کرکے تفصیلات طے کرنی ہوں گی ۔ ایران کی طرف سے پاکستانی علاقے میں گیس پائپ لائن بچھانے کے کام میں تعاون کی پیش کش سے جہاں ان دشواریوں کے ادراک کا اندازہ ہوتا ہے جن میں سے کئی کا بوجوہ اسلام آباد کو سامنا ہے، وہاں پاکستان کے توانائی کے مسائل حل کرنے میں معاونت کی خواہش کا اظہار بھی ہوتا ہے ایران کی طرف سے پاکستان کو بجلی فراہم کرنے کی پیش کش بھی اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاک ایران مذاکرات،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ قطر اور پچھلے کچھ عرصے کے دوران خطے کے دوسرے ملکوں سے جاری رابطوں سے یہ بات واضح ہے کہ آس پاس کے ہمسایہ ملکوں سے تجارتی واقتصادی تعلقات بڑھانے پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ دنیا بھر میں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارت کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ علاقائی سطح پر آس پاس کے ملکوں کے درمیان خلوص نیت کے ساتھ تجارت ہو تو ایک دوسرے کو ضروری اشیاءکی ترسیل کم وقت میں، کم خرچے پر اور آسانی سے ممکن ہے جبکہ پڑوسی ملکوں کی بہت سی ضرورتیں ملتی جلتی ہوتی ہیں جنہیں ہنگامی حالات میں بھی جلد اور سہولت کے ساتھ پورا کرنا ممکن ہے۔ اسی لئے مختلف خطوں میں جہاں ہمسایہ ملکوں سے تجارت کو ترجیح دی جاتی ہے وہاں مختلف شعبوں میں علاقائی تعاون پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ پاکستانی باسمتی چاول ،سبزیوں، پھلوں، کپاس، چمڑے کے مصنوعات، گارمنٹس، مشینری وغیرہ کی برآمد کے لئے پڑوسی ملکوں کی منڈیوں میں جگہ بنانی ہو گی۔ اس مقصد کے لئے دوطرفہ تجارت پر محصولاتی اور غیر محصولاتی رکاوٹیں دور کرنے، نئی تجارتی گزرگاہیں قائم کرنے، عوام کے ساتھ عوام کے رابطے بڑھانے اور سیروسیاحت کو فروغ دینے کے اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ہمارے قدرتی اور انسانی وسائل کے لئے خطے کے ملکوں میں اور ہمسایہ ممالک کے معدنی و تکنیکی وسائل کی کھپت کے لئے وطن عزیز میں خاصی گنجائش موجود ہے۔ ایران سے پاکستان کے تعلقات محض ایک گیس پائپ لائن منصوبے تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایران اور پاکستان کے مابین اسلامی بھائی چارے کا گہرا رشتہ استوارہے۔دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان نے امریکی دباؤ اور مالیاتی مشکلات کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لئے کاغذی کارروائی شروع کر دی ہے اور 1.6ارب ڈالر کی لاگت سے بچھائی جانے والی 785 کلو میٹر پائپ لائن کیلئے ٹھیکیداروں سے اظہار دلچسپی کی درخواستیں طلب کر لی ہیں۔ 42 انچ قطر کی پائپ لائن سے ایک ارب کیوسک فٹ یومیہ گیس کی ترسیل ہوگی اور یہ نواب شاہ تک بچھائی جائے گی ۔ سرکاری اعلان کے مطابق پاکستان انجینئرنگ کونسل میں درج کمپنیاں اظہار دلچسپی کی درخواستیں جمع کرانے کی اہل ہوں گی یا دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں کو پاکستان انجینئرنگ کونسل میں رجسٹر ہونا ہوگا۔ پری کوالیفکیشن کے بعد کمپنیوں سے نیلامی کے لئے تکنیکی اور مالیاتی تجاویز طلب کی جائیں گی ۔ پری کوالیفکیشن درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ8 جون مقرر کی گئی ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین معاہدے کی رو سے منصوبہ دسمبر2014 ء تک مکمل ہوگا۔ بصورت دیگر پاکستان تہران کو 200 ملین ڈالر ہرجانہ ادا کریگا ۔ا یران نے منصوبے کی تکمیل کے لئے500 ملین ڈالر کی مالیاتی امداد کی بھی پیش کش کی ہے۔امریکہ ایران کے ساتھ گیس منصوبے سے دور رہنے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان نے منصوبے کی تکمیل کے لئے روس بھی رجوع کیا مگر روس کا مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ اقتصادی اور پاکستانی ضروریات کے پیش نظر دیکھیں تو بلاشبہ یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کی صورت میں ہماری توانائی کی بہت سی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں لیکن امریکہ کی آنکھ میں یہ منصوبہ بری طرح کھٹک رہا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ ،ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور اس پر جنگ مسلط کرنے کا پختہ ارادہ کئے ہوئے ہے، پاکستان کی ایران سے تعلقات میں پیش رفت اْسے ہضم نہیں ہورہی۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکہ کی طرف سے پاکستان کے کردار پر تنقید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکام کی جانب سے اس تنقید کو مسترد کردیا گیا ہے لیکن امریکہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح پاکستان، ایران کی حمایت سے دستبردار ہوجائے جبکہ قبل ازیں امریکہ، بھارت اور پاکستان کی ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں شرکت کی شدید مخالفت کرچکا ہے۔ اس نے پاکستان اور بھارت کو وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس کے حصول کا مشورہ بھی دیا ہے لیکن پاکستان اور بھارت، دونوں ملکوں نے امریکی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس معاہدے کی سمت پیش قدمی کی ہے۔ امریکہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے، اسی لئے وہ ہمارا ہر طرح سے استحصال کر رہا ہے۔ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ ختم کرا کر دم لے گا کیونکہ اگر یہ منصوبہ ناکام ہو گیا یا پھر ختم کرا دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے پاکستان اور ایران کے عوام کو معاشی شعبے میں نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔ نیز ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہونے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔اس لئے پاکستان کو اپنی ڈپلومیسی کے ذریعہ اس گیس پائپ لائن کے منصوبے کو ناکام نہیں ہونے دینا چاہئے بلکہ امریکہ کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر پاکستان کو گیس کی ضروریات پوری نہیں ہو سکیں گی تو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کیسے جیتی جا سکتی ہے۔ | ||
Statistics View: 3,028 |
||