وال اسٹریٹ تحریک، ایک جائزہ ڈاکٹر راشد عباس نقوی | ||
گذشتہ دنوں تہران یونیورسٹی کی ورلڈ اسٹیڈی فیکلٹی (world study faculty)میں وال اسٹریٹ تحریک کے بارے میں ایک معلوماتی نشست کا اہتمام کیا گیا اس نشست میں امریکہ، یورپ اور ایران کے دانشوروں اور ماہر سماجات نے شرکت کی۔ ایران نوین کے قارئیں کے لیے اس نشست کا مختصراحوال بیش خدمت ہے۔ ورلڈ اسٹیڈی فکلٹی کے خوبصورت سمینار ہال میں تلاوت کلام مجید کے بعد اس سمینار کے اغراض و مقاصد بیان کرتے کے بعد فرہنگ و ارتباطات اسلامی ادارے کے سربراہ ڈاکٹر محمد خرمشاد نے افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔ افتتاحی خطاب میں انہوں نے وال اسٹریٹ تحریک کے بارے میں چند بنیادی نکات اٹھائے اور سامعین، حاضرین اور بالخصوص نشست میں موجود دانشوروں اور ماہرین سے استدعا کی کہ وہ ان سوالوں کا مدلل جواب دیں تا کہ وال اسٹریٹ تحریک امریکی حکومت اور سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں اٹھنے والے مختلف سوالوں کا تسلی بخش جواب سامنے آئے ڈاکٹر محمد خرمشاد جن کا ایران کے جانے پہچانے دانشوروں میں شمار ہوتا ہے کہا کہ اگر یہ تحریک اسی انداز سے کسی اور ملک یا خطے میں شروع ہوتی تو امریکی پالیسی سازوں اور حکام کا کیا رویہ ہوتا؟ کیا یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ہے یا موجودہ حکام اور ان کی سرمایہ دار طبقے کے حق میں بنا کی گئی پالیسیوں کے خلاف ہے اور کیا یہ چلینج تمام مغربی نظاموں بالخصوص کپیٹلزم اور لبرل ڈیموکریسی کے حامیوں کو درپیش ہے۔ ڈاکٹر خرم شاد کے بقول کیا اس تحریک کو دیکھ کر یہ کیا جا سکتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں عوامی بیداری کی لہر شروع ہوگئی ہے اور انقلاب کے لئے دو بنیادی شرائط مثلاً نابرابری اور عدم مساوات وہ امریکی معاشرے میں تمام تر۔۔۔ سامانیوں کے ساتھ برملا ہوگئی ہے کیا امریکی معاشرے میں سیاہ فاموں کے خلاف امتیازی رویہ اور۔۔۔۔کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا؟ ڈاکٹر خرم شاد نے معروف دانشور ٹکویل(Tichwill)کے افکار و نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس مصنف کے مطابق جب کسی معاشرے میں ایک مخصوص اقلیت چاہے وہ رنگ و نسل یا زبان و ملک کے بنیاد پر ہو یا سماجی طبقے کے طور پر اس پر ظلم و ستم اور امتیازی رویے ایک خاص حد کو عبور کرلیتے ہیں تو وہاں تبدیلی کے لیے راستے ہموار ہوجاتے ہیں آج اگر امریکی معاشرہ ایک فیصد اور ننانوے فیصد میں تقسیم ہوگیاہے تو تبدیلی یقینی ہے۔ کیا جمہوریت، انسانی اقدار، انسانی حقوق، سماجی آزادی، مساوات اور زبان و بیان کی آزادی کا دعوی کرتے والا امریکہ اپنے معاشرے کے ننانوے فیصد کی آواز سننے، اس پر عمل کرنے اور ان کے حقوق کا احترام کرےگا ڈاکٹر محمد خرم شاد کے بعدامریکہ سے آئی ہوئی مہمان پروفیسر اور نیویارک میں یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ہائیدر گاتنی (Hyder Gatne) نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کن کا کہنا تھا میں نے وال اسٹریٹ تحریک کے لیے لگائے گئے مختلف کیمپیوں میں احتجاج کرنے والوں سے مفصل گفتگو کی ہے۔ میں نے ان انٹرویوز اور ملاقاتوں میں احتجاجی تحریک میں شریک خواتین و خوات جن میں ہر عمر کے لوگ شامل تھے اس بات کو شدت سے محسوس کیا ہے کہ معاشرتی مسائل اور سماجی مشکلات نے انہیں اس اقدام پر مجبور کیا ہے اور اس طبقے کا میدان عمل میں آنا امریکہ میں ایک نئی طرز کی جمہوریت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ احتجاجی کارکنوں کے دعوؤں کی طرح اعداد و شمار بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں سرمایہ ایک فیصد کے پاس ہے اور ننانوے فیصد عوام کمپرسی اور مشکلات اقتصادی میں زندگی گزار رہے ہیں ایسے میں صحت، تعلیم، رہائش اور دوسرے شعبوں میں حکومت کی طرف سے اخراجات میں اضافہ اور عوام پر دباؤ نیز روزافزوں بیکاری نے امریکی عوام کا جینا بھر کر دیا ہے اور عوام تمام تر سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھ کر وال اسٹریٹ میں شامل ہوگئے ہیں محترمہ ڈاکٹر گاتنی نے اس تحریک کے اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ لوگ اپنے غروب شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے سرگرم عمل ہیں اور سرمایے کی غیرمساوی تقسیم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ امریکی یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر گاتنی کے مطابق سماجی نیٹ ورک بالخصوص فیس بک نے اس تحریک کو عوامی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وال اسٹریٹ کے کارکنان اکثریتی رائے کے مطابق ایک نئی طرز کی جمہوریت کے خواہاں ہے جو اس وقت امریکہ میں ناپید ہے یہ تحریک امریکہ کے موجودہ سیاسی نظام اور انتخاباتی عمل جس میں۔۔۔ کالج کا تصور ہے اور حقیقی عوامی جمہوریت موجود نہیں ہے اس میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اس کانفرنس میں امریکی پروفیسر محترمہ ڈاکٹر گاتنی کے بعد ورلڈ اسٹیڈی فیکلٹی کے سربراہ ڈاکٹر سعید رضا عاملی نے نظریاتی اور فکری بنیادوں پر وال اسٹریٹ تحریک اور امریکی حکومت کے نظریے کا جائزہ لیا اور سماجی ناانصافی اور اقتصادی عدم مساوات کو وال اسٹریٹ تحریک کا ایک عامل اور محرک قراردیا۔ڈاکٹر سعید عاملی کے مطابق ہمیں امریکی نظام کا وسیع النظری اور وسیع تناظر میں دیکھنا ہوگا کہ اس نے کس طرح پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی اس طرح امریکی نظام کے ان پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے اس نے اتنے عرصے تک ننانوے فیصد پر اپنا تسلط قائم رکھا۔ ورلڈ اسٹیڈی فیکلٹی کے سربراہ اور شمالی امریکہ کے امور کے ماہر ڈاکٹر سعید عاملی کے بقول مجازی اور انٹرنیٹ کی دنیا پر امریکی قبضہ اس کے تسلط کی ایک کڑی ہے مثلاً کالیفورنیا سے شروع ہونے والا معروف گوگل (Google) انٹرنیٹ سرچ انجن دنیا کی پینسٹھ فیصد سوچ و فکر پر مسلط ہے اسی طرح نانو ٹیکنالوجی بھی بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ کا ایک موثر ہتھیار ہے۔ امریکہ فلم انڈسٹری ہالیوڈ کے ذریعے بھی اپنے اہداف کی طرف بڑھتا ہے البتہ موجودہ صورت حال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں دنیا خیرو شر میں تقسیم ہے دونوں کی طاقت میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے۔امریکہ ہر چیز کو برعکس بناکر پیش کرتا ہے مثلاً ان کے دانشور دعوی کرتے ہیں کہ امریکہ کولمبس نے دریافت کیا ہے حالانکہ کولمبس وہاں پہنچا تو لوگوں کی ایک بڑی آبادی وہاں آباد تھی۔ موجودہ امریکی وہاں مہاجر بن کر گئے لیکن انہوں نے مقامی آبادیوں کو نیست و نابود کردیا ہے یا غلام بنالیا لہذا یہ امریکیوں کی دریافت نہیں قبضہ تھا، اعداد و شمار کے مطابق موجودہ امریکہ کی ایک سے زیادہ سومیلین کی آبادی میں صرف دو میلین مقامی امریکی ہیں۔ ڈاکٹر عاملی نے یہ بات دلائل کے ساتھ پیش کی کہ صہیونیست نے یہودیت کے حقیقی چہرے کو مسخ کیا اور موجودہ امریکی حکام۔۔۔۔لابی کے اشارے پر ننانوے فیصد امریکی عوام کا چہرہ مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں اور وہ امریکہ کو دنیا بھر میں ایک خونخوار اور تسلط پسند ملک کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں ڈاکٹر رضا عاملی نے اپنے مقالے میں یہ بات تفصیل سے بیان کی کہ امریکہ کے جرائم کی تاریخ مقامی باشندوں کو قتل کرنے سے شروع ہوگئی ہے ویت نام، ناگاساکی اور ہیروشیما سے ہوتی ہوئی عراق و افغانستان تک پہنچی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ڈاکٹر عاملی کے بقول معاشرے صرف سائنس و ٹکینالوجی میں نئی نئی ایجادات سے ترقی یافتہ نہیں بنتے بلکہ جب تک انسانیت اور انسانی اقدار بھی ساتھ ساتھ ترقی نہ کریں تو اس معاشرے کو ترقی یافتہ نہیں کیاجاسکتا۔ ورلڈ اسٹیڈی فیکلٹی کے سربراہ نے اپنے مقالے کے اختتام پر کہا امریکہ آج صرف وال اسٹریٹ تحریک اور امریکی معاشرے کی ننانوے فیصد اکثریت پر ظلم و ستم نہیں ڈھارہا بلکہ دنیا کے ننانوے فیصد عوام پر ظلم کررہا ہے لیکن امریکہ میں وال اسٹریٹ کی صورت میں اکثریت بیدار ہورہی ہے اور یہ بیداری سرمایہ داری کے ایوانوں اور محلوں پر لرزہ طاری کرے گی۔ وال اسٹریٹ تحریک کے بارے میں منعقدہ اس سمینار کے آخری محقق امریکی۔۔۔۔کلراڈور کی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ادریس سماوی تھے جنہوں نے وال اسٹریٹ تحریک اور امریکی معاشرے کی زبوں حالی اور انحطاط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا امریکی معاشرے میں عدم مساوات اور سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی عوام کو سڑکوں پر لے آئی ہے۔ امریکی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے رکن ڈاکٹر ادریس سماوی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ننانوے فیصد عوام کا اپنے مسائل کی طرف متوجہ ہونا معاشرتی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس سمینار میں شریک اکثر محققین اور دانشوروں کا یہ کہنا تھا کہ امریکہ دوسرے ملکوں میں جمہوریت کی حمایت کے نام ہر رنگ برنگے۔۔۔ لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وال اسٹریٹ تحریک امریکہ کے لیے ایک مستقل دردسر میں تبدیل ہوگئی ہے آج نہیں تو کل اس تحریک نے نظام میں تبدیلی کا باعث بننا ہے البتہ امریکی حکومت کی طرف سے اس تحریک کے مطالبات کو نظرانداز کرنے سےامریکہ کا حقیقی چہرہ جسے وجمہوریت کے پیچھے چھپاتا ہے سب پر آشکار اور واضح ہوگیاہے۔ | ||
Statistics View: 2,014 |
||