افغانستان امریکہ اسٹرتیجک معاہدہ ڈاکٹر راشد عباس نقوی | ||
پشتو کی معروف کہاوت ہے کہ کسی گاؤں کے قریب ایک گیدڑ رہتا تھا ۔ گیدڑ اپنی چالاکی میں بے نظیر تھا ایک دفعہ اس نے ایک گیدڑ کو دعوت دی کہ آؤ باغ میں مزے مزے کے پھل کھاتے ہیں۔ دوسرا گیدڑ ڈرپوک اور بہت زیادہ محتاط تھا لہذا اس نے پہلے یہ سوال کیا کہ باغ تمہارا اپنا ہے یا کسی اور کا۔ چالاک گیدڑ نے بڑی روانی سے جواب دیا اس باغ کی رجسٹری اور مالکیت کے کاغذات میرے پاس ہیں۔ دوسرا گیدڑ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور دونوں باغ میں پہنچ گئے۔ ابھی انہوں نے پھل کھانا شروع ہی کئے تھے کہ اوپر سے باغ کا اصل مالک آ پہنچا۔ چالاک گیدڑ نے جب مالک کو دیکھا تو فوراً باغ سے بھاگ گیا جب کہ دوسرا گیدڑ مالک کے نرغے میں آ گیا جبکہ چالاک گیدڑ دور سے تماشا دیکھنے لگا۔ اسی دوران دوسرا گیدڑ چالاک گیدڑ کو پکار پکار کر کہہ رہاتھا تم نے کہا تھا اس باغ کی رجسٹری تمہارے پاس ہے۔ رجسٹری اس شخص کو دکھاؤ تاکہ مجھے چھوڑ دے۔ چالاک گیدڑ نے دور سے کہا رجسٹری تو میرے پاس ہے لیکن اسے مانتا کون ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی صدر باراک اوباما کے درمیان ہونے والے اسٹرتیجک معاہدے کے بارے میں سن کر میرے ذہن میں پشتو کی مذکورہ کہاوت سامنے آگئی۔ افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں امریکہ سے معاہدہ ایسی حالت میں کیا ہے کہ اکثر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ حامد کرزئی کی صدارت پورے صدارتی محل میں بھی نہیں ہے اور پورا افغانستان تو ایک طرف ایوان صدر کے بعض حصے ایسے بھی ہیں جہاں حامد کرزئی کی حکومت کا عملاً کوئی عمل دخل نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ امریکہ جن قوتوں سے افغانستان میں بر سر پیکار ہے وہ نہ حامد کرزئی کی صدارت کو مانتے ہیں اور نہ ہی اس کے کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کو۔ امریکی صدر نے جس ہنگامی انداز میں افغانستان کا غیر متوقعے دورہ کیا اور افغانستان کے صدر کے ساتھ اسٹرتیجک معاہدہ کیا اس سے یہ بات ضرور سامنے آ رہی ہے کہ صدرباراک اوباما اپنی صدارتی مہم اور اپنی کامیابی کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں۔ عین اسامہ بن لادن کے قتل کئے جانے کی تاریخ پر افغانستان کا دورہ اور اسامہ بن لادن کے قتل کو اپنے صدارتی دور کی سب سے بڑی کامیابی قرار دینا بہت سے پہلوؤں کی طرف اشارہ ہے۔ افغان امریکہ معاہدہ امریکی سینیٹ سے تو منظور ہو کر آیا لیکن ابھی تک اس کی تمام شقیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ حامد کرزئی کی شخصیت پر نکتہ چینی کرنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اس معاہدے کی تمام شقوں کا تو افغان صدر کو بھی علم نہیں۔ یوں بھی امریکہ جیسی عالمی طاقت اور افغانستان جیسے جنگ زدہ چھوٹے سے ملک کے درمیان معاہدہ خود ایک لطیفہ ہے۔ اس کی مثال جنگل میں شیر اور خرگوش کے درمیان معاہدہ ہے۔ حامد کرزئی جب سے صدارت کے منصب پر متمکن ہوئے ہیں بارہا بلکہ چند بار تو آنسوؤں اور گریہ کے ساتھ افغانستان میں موجود امریکی فوجی کمانڈروں سے دست بستہ اپیلیں کر چکے ہیں کہ وہ صرف رات کو افغان شہریوں کے گھروں پر حملہ نہ کریں لیکن امریکی فوجی کمانڈر افغان صدر کی بات کو ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور شاید ایک کان سے سننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ امریکی افغانستان میں قرآن جلاتے ہیں۔ افغان خواتین کی عزت و ناموس سے کھیلتے ہیں، مردہ لاشوں پر پیشاب کر کےلاشوں کی سرعام توہین کرتے ہیں، شادی بیاہ کی تقاریب پر فرینڈلی فائرنگ کرتے ہیں۔ بچوں، بوڑھوں، خواتین اور عام شہریوں کو بھی گولیوں اور بمباری کا نشانہ بناتے ہیں اور ان سب پر جب افغان صدر آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو امریکیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب جبکہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان اسٹرتیجک معاہدہ ہوا ہے تو اس معاہدوں پر عمل درآمد کی ضمانت کون دے سکتا ہے یوں بھی اس معاہدے کےتحت امریکی افواج 2014 کے بعد بھی افغانستان میں رہ سکیں گی۔ صدر حامد کرزئی نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد ہونے والا معاہدہ دونوں ممالک کے لیے یکساں شراکت داری کے مواقع فراہم کرے گا۔ افغان صدر حامد کرزی کی جانب سے یکساں شراکت داری کی امید کو مبصرین، امریکیوں کی خصلت کے پیش نظر دور از تصور سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہےکہ امریکہ کا اس اسٹراٹیجک معاہدے کا بنیادی ہدف اپنے جانی اور مالی نقصان اور اخراجات کو کم کرنا ہے لہذا اس معاہدے کو اختیار اور انتظام کی تقسیم کے معنوں میں لے لینا نہایت سادگی ہوگی۔ چنانچہ بگرام ائر بیس پر امریکیوں فوجیوں سے خطاب میں مسٹر اوباما کا یہ کہنا کہ ان کی قربانیوں سے امریکا محفوظ ہے، لیکن مشکل وقت ابھی ختم نہیں ہوا ۔ امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اوباما کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سالمیت، خود مختاری اور اس کے جمہوری اداروں کا احترام کرتے ہیں لیکن عملا امریکہ، پاکستان کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت، کہ جس کے احترام کے مسٹر اوباما مدعی ہیں، مذاق اڑاتا نظر آتا ہے لہذا یہ ماننا کہ افغانستان کے ساتھ اسٹرٹیجیک معاہدے کے بعد افغانستان کے امورمیں امریکہ کی مداخلت ختم یا کم ہوجائےگی بعید ہے اور اس کی دوسری وجہ دہشت گردی کے تعلق سے امریکی پالسیاں ہیں کہ جن میں تضاد اور دہرا معیار اس امکان کو سلب کرلیتا ہے کہ افغان عوام کی مشکلات کا دور 2014 کے بعد ختم ہوجائےگا۔ امریکی صدر اوباما کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا عمل شروع ہو چکا ہے اور 2014ء تک افغان باشندے اپنے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار ہوں گے۔ صدر اوباما نے واضح کیا کہ افغانستان میں مستقل فوجی اڈے نہیں بنائے جائیں گے۔ اوباما نےاس بات کا بھی اعتراف کیا کہ بہت سے امریکی، افغان جنگ سے تھک چکے ہیں۔ لیکن جس کام کا افغانستان میں آغاز کیا تھا اسے ختم کرنا ہوگا۔ امریکی فوجیوں نے افغانستان میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ صدر اوباما نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں جس فرض کو پورا کئے جانے کی بات کی ہے وہ فریضہ کیا تھا اور کس طرح پورا کیا اس کو وہ شائد عمر بھر نہ بتاسکیں، لیکن افغان عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے امریکیوں کے ہاتھوں ان برسوں میں کیا جھیلا ہے۔ امریکیوں نے افغان عوام پر طالبان اور طالبان پر القاعدہ کو مسلط کرکے سابق سویت یونین کی ملحد حکومت پر مجاہدین کی تاریخی فتح کو تلخی میں بدل دیا اور افغانستان میں نہ ختم ہونے والی لڑائی اور جنگ و خونریزی کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعدازاں طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر کے اپنے فوجیوں کو براہ راست افغانستان میں تعینات کردیا اور اب افغانستان کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ ایک ایسے اسٹراٹیجک معاہدہ کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وہ فریضہ ہے کہ جسے امریکی فوجیوں نے انجام دیا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کی شکل میں اور افغانستان میں نیٹو طیاروں کی بمباری کی صورت میں طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے امریکی فورسز کے دعوؤں پر اب کوئی بھی شخص اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ہر ڈرون حملے اور نیٹو طیاروں کی بمباری کے بعد ملبے کے ڈھیر سے خون میں لت پت معصوم بچوں اور خواتین کے بے جان جسموں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ، شادی بیاہ کی تقریبات کو خاک و خوں میں غلطاں کرنا، مارے جانے والے افغان شہریوں کی لاشوں سے کھیلنا اور احتجاج کی صورت میں فورا معافی مانگ لینا، افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی واحد تفریح شمار ہوتا ہے۔ بہرحال مسٹر اوباما کےبیان کی روشنی میں افغان عوام کو سن 2014 تک امریکی فوجیوں کی ایذا رسانیوں اور تفریحا قتل عام کی کاروائیوں کو تو برداشت کرنا ہوگا۔ اس کے بعد نئے شراکت داری کے معاہدے کے تحت امریکی فوجیوں کا رویہ کیا ہوگا اور وہ کس طرح افغان عوام کے ساتھ پیش آئیں گے اس پر تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا لیکن افعانستان کے مختلف سیاسی اور مذھبی حلقوں کا یا کہنا ہے کہ مسٹر اوباما اور حامد کرزئی کے درمیان شراکت داری کے معاہدے کا اختیار نہ تو اوباما کے پاس ہے اور نہ ہی حامد کرزئی کے پاس گویا عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ پشتو کہاوت کے مطابق گیدڑ کی رجسٹری کی طرح ہے جسے گیدڑ تو مانتا ہےکوئی اور نہیں۔ | ||
Statistics View: 2,424 |
||