خلیج فارس، مغربی قوتوں کی دوغلی سیاست | ||
خلیج فارس، مغربی قوتوں کی دوغلی سیاست ڈاکٹر علی بیات ایران کے جنوب میں واقع خلیج فارس ، آبنائے ہرمز کے ذریعے، بحر عمان سے اور اس کے ذریعے، دیگر کھلے سمندروں سے منسلک ہے۔ خلیج فارس کے شمال میں اسلامی جمہوریہ ایران واقع ہوا ہے، جو دیگر ہمسایہ ممالک کی بہ نسبت خلیج فارس سے سب سے زیادہ مشترکہ سرحد کا مالک ہے۔اس کے پرانے ناموں میں، سب سے پرانا، نارمرتوnar- marratuہے، جس کا مفہوم کڑوے پانی کا ہے۔ یہ نام آشوری تمدن سے باقی کتبوں میں پایا جاتاہے۔(2) ایک یونانی مورخ، فلیوویوس آریانوس نے اپنی کتاب میں، اس خلیج کا نام پرسیکون کاای تاس لکھا ہے، جس کا مفہوم خلیج فارس ہے۔(3) خلیج فارس کی جغرافیائی حدود کے بارے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اس کے تمام شمالی حصے میں ایران کے دو صوبے ، یعنی صوبہ بوشہر اور صوبہ ہرمزگان واقع ہوئےہیں ۔ خلیج فارس کے دیگر ہمسایہ ممالک میں عراق، عمان، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین شامل ہیں۔ خلیج فارس اور اس کے سواحل میں موجودہ تیل اور گیس کے ذخائر کی موجودگی اور ایران اور عرب ممالک کے ہندوستان اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے لیے ایک مناسب آبی راستہ ہونے کی وجہ سے اس کی اقتصادی، سیاسی اور فوجی اہمیت میں روزبرروز بڑھتی جاتی ہے اور گذشتہ دو صدیوں سے استعماری قوتیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے رہتےہیں۔ بیسویں صدی کے نصف دوم سے یہی استعماری قوتوں اورچند ہمسایہ ممالک کے ذریعے بعض ایسی مذموم حرکتیں دیکھنے میں آئی ہیں، جن میں سے ایک اس سمندر کو اپنے صحیح اور تاریخی نام سے نہیں، بلکہ ایک مجعول نام سے یاد کرناہے۔ ان جعل سازوں میں لعض عرب ہمسایہ ممالک پیش پیش ہیں۔ جبکہ اگر تمام تاریخ پر ایک محققانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات اظہرمنالشمس ہے کہ اس سمندر کا نام "خلیج فارس" ہی ہے۔ مثال کے طور پر "محمد جریر طبری"اور" مسعودی" اور "یعقوبی" جیسے تمام مورخوں کے خیال میں، خلیج فارس کے اردگرد کے تمام علاقے، اسلام سے پہلے تمام ادوار میں، ایران سے متعلق تھے۔ مثال کے طور پر"ابن حوقل" اپنی کتاب"صورۃ الارض"میں یوں لکھتا ہے:" جیسا کہ بارہا کہا گیا ہے، فارس کا سمندر، دنیا کے احاطہ کرنے والے محیط کا جزء ہے جو چین کے علاقے"واق واق"کے شہر سے منقسم ہوتا ہے۔ یہ سمندر سندھ اور کرمان سے فارس تک پھیلا ہوا ہے اور تمام ممالک میں پارس کہلاتا ہے۔ کیونکہ یہ ملک تمام ممالک سے ترقی یافتہ ہے اور اس کے بادشاہ ازمنہ قدیم سے سب سے زیادہ تسلط کے مالک تھے۔ حتی کہ آج کل بھی، اس سمندر کے دور و نزدیک کے کنارے اور پارس کے تمام علاقے ان کے قابو میں ہے۔" یہ تو قدیم دور ہے ، بیسویں صدی میں ساٹھ کی دہائی تک بھی، اکثرعربی ممالک اپنے سرکاری خطوط میں، اس علاقے سے مربوط امور میں "خلیج فارس" کا نام استعمال کرتے تھے۔ اخیر کے چند سالوں سے اور خاص طور پرساٹھ کی دہائی کے بعد، خلیج فارس کوعرب سے منسوب کرنے کا نام، بعض عربی ممالک اور عرب حکومتوں کی زیر نگرانی تنظیموں اور اداروں میں وقتافوقتا نظر آتا ہے، جس کی پیچھے عربوں کی ہٹ دھرمی اور مبینہ تاریخی ثبوتوں کو نظر انداز کرنے کے علاوہ کوئی دوسری حقیقت موجود نہیں۔ البتہ اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ خود عرب ممالک میں ایسی کتابیں شائع کی جاتی ہیں جن میں "خلیج فارس "کا تاریخی نام اوران کتابوں کے اندر دنیا کے تمام نقشوں اور تاریخی اسناد میں یہی نام دیکھاجا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر 1992ء میں کویتی سرکار نے "الکویت فی خرائطالعالم"کے نام سے ایک ایسی کتاب شائع کی جس میں 80نقشے اور تاریخی اسناد موجود ہیں، جن میں سے ہر ایک میں "خلیج فارس" کا نام موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذکورہ ممالک کے بعض حقیقتپسند محققین اب بھی اپنی تحقیقات میں، "خلیج فارس" کا نام استعمال کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود مغربی ممالک کے حکام اپنی دیگر شیطانی اور دوغلی سیاستوں کے ساتھ ساتھ ، اکثر ایشیائی اور افریقائی ممالک میں تفرقہ ڈالنےاور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے،خبیثانہ چال چلتے ہیں ، جن میں سے ایک ، "خلیج فارس "کے قدیم اور تاریخی نام کو تبدیل کرکے عربی نام سے موسوم کرنا ہے۔ اس ضمن میں فرانس میں چھپی ہوئی ایک لغت Le Petit Robert des noms propres (robert the small dictionary of proper names)کا نام لیا جاسکتا ہے جس کی پہلی اشاعت اور جدید اشاعت میں، خلیج فارس کے بارے میں الگ الگ نظریے ملتے ہیں۔ اس کی پہلی اشاعت 1975ء میں منظر عام پر آئی۔ 2010ء میں کچھ "بنیادی اصطلاحات اور اضافات"کے ساتھ اس کی نئی طباعت ہوئی۔ اس کتاب کے اندر 2010ء کی تاریخ اور اس کی جلد پر 2011ءکی تاریخ درج ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ،اس نئی طباعت میں "خلیج فارس" اور اس کے اردگرد کے ممالک اور شہروں اوراس کے جزائر کے بارے میں کچھ خودغرضی پر مبنی اطلاعات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ تہران یونیورسٹی کے ایک استاد، جناب ڈاکٹر طہمورث ساجدی نے، ان دونوں طباعتوں کے تقابل اور مطالعے سے کئی ایسی باتوں کا کھوج لگایا ہے۔انہوں نے اپنی تحقیق کا نتیجہ ایک مضمون کی شکل میں ایرانی اخبار "اطلاعات"(20فروری،2012ء کاشمارہ) میں شائع کرلیا ہے۔اس مضمون کا ملخص ذیل میں پیش خدمت ہے: "در اصل ایران میں اسلامی جمہوریہ طرزحکومت کی برقراری کے بعد، فرانس میں ، علاقے کی عرب ممالک کی دوستی جتانے اور ان کے ساتھ دینے کے لیے، مسلّمہ تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے، مسلسل "خلیج فارس"کا اصیل جغرافیائی نام ، تغییر و تبدیل کا شکار رہاہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس لغت کی اشاعت2011 ءمیں، کسی ایرانیات کے فرانسوی ماہر کے ہاتھوں نہیں،بلکہ ایک ایرانی شخص کے ہاتھوں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچاہے۔ اس پر مزید اس ناشر نے ، فرانس میں ایرانیات کے مطالعے کے 240سالہ نتائج کو نظر انداز کرتے ہوئے ، perse (پارس)کے لفظ کےذیل کی وضاحت کو، جو ایران کے بارے میں اطلاعات کے طالب لوگ اس کی طرف رجوع کرکے اس کا مطالعہ کرتے ہیں،چار سطروں میں خلاصہ کرکے،IRAN کے لفظ کےذیل، مزید اطلاع حاصل کرنے کے لیے کہاگیا ہے۔ ذیل میں اس کتاب کی دونوں 1975ء اور 2011والی طباعتوں کا مقابلہ اور ان دونوں میں خلیج فارس کے بارے میں تضادات کی کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔ ان کےمطالعے سے فرانس میں ایران کے خلاف منفی عزائم اور دوغلی سیاستوں کا بخوبی پتہ چل سکتا ہے۔ ذیل میں ترتیب کے ساتھ پہلے اس کتاب کی 2011ء والی طباعت کا اور پھر 1975ء والی طباعت میں مختلف اندراجات کا ذکر ہوگا: 1- 2011ء والی طباعت کے صفحہ نمبر2 میں یوں لکھا گیا ہے کہ شاہ عباس کبیر نے ایران کی بالا دستی کو "خلیج عرب وفارس" میں برقرارکیا اور 1975ء والی طباعت کے صفحہ نمبر2 میں صرف"خلیج فارس" درج ہے۔ 2- 2011ء والی طباعت کے صفحہ نمبر6 میں یوں لکھا گیا ہے کہ ابوظبی "خلیج عرب وفارس" میں واقع ہوا ہے ۔لیکن 1975ء والی طباعت کے صفحہ نمبر6 میں صرف"خلیج فارس" درج ہے۔ 3- 2011ء والی طباعت کے صفحہ نمبر112میں "عربستان"(جزیرہالعرب)کے ذیل میں یوں لکھا گیا ہے کہ یہ علاقہ مشرق کی طرف سے "خلیج عرب وفارس" میں ۔۔۔تک محدود ہے؛ لیکن 1975ء والی طباعت کے صفحہ نمبر112 میں صرف"خلیج فارس" درج ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسی طباعت میں عباسی خاندان کے ذیل میں پھر "خلیج فارس" کا نام آیا ہے۔ 4- 2011ء والی طباعت کے صفحہ نمبر140 میں، جہاں براعظم ایشیا کا مصور نقشہ پیش کیا گیا ہے، "خلیج عرب وفارس" درج ہے ، حالاں کہ 1975ءوالی طباعت کے صفحہ نمبر115 میں، اس نقشے کے وضاحت میں صرف"خلیج فارس" درج ہے۔ 5- 2011ء والی طباعت کے صفحہ نمبر477میں،"شطالعرب"(دریائے اروند)کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے کہ یہ دریا، عراق میں بہتاہے جو "خلیج عرب و فارس"جاکر گرتاہے۔ اس کے بعد یوں لکھا گیا ہے کہ "کچھ عرصے سے شطالعرب" کا علاقہ، ایران و عراق کے درمیاں متنازعہ علاقہ ہے اور حتی کہ ان دنوں ممالک کے درمیاں 1988ء-1980ء تک کے عرصے میں ، ایک خوں ریز جنگ چھڑی۔" جبکہ 1975ءوالی طباعت کے صفحہ نمبر119میں، "عراق"کے ذیل میں یوں لکھاگیا ہے کہ چون کہ اس ملک نے اپنے آپ کو ایک "اسلامی انقلاب" کی زد میں دیکھا ، اس لیے ایران پر حملہ کردیا۔ " مذکورہ مثالیں در اصل مشتے نمونہ خروار کے طور پر پیش کی گئی ہیں۔ اس کتاب کی جدیدترین اشاعت میں خلیج فارس کے اردگرد تمام علاقوں اور ممالک اور شہروں کے ذیل، جہاں ان کی جغرافیایی حدود کے بارے میں بات ہوئی ہے، "خلیج عرب و فارس"لکھا گیا ہے۔جبکہ اس کتاب کی 1975ء والی طباعت میں صرف" خلیج فارس" لکھا گیا ہے۔ محترم محقق نے کئی ایسی مثالوں کا ذکر کیا ہے، جہاں فرانس اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیاں متنازعہ علاقوں کے بارے میں ، ان اختلافات کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے اور اس کتاب کے مؤلفوں نے فرانس کے مفادات کی حفاظت میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ہے۔ | ||
Statistics View: 1,973 |
||