11-9 کے بعد کی دنیا اور کلام فیض | ||
11-9 کے بعد کی دنیا اور کلام فیض پروفیسر ڈاکٹر محمد یوسف خشک صدر شعبہ اردو شاہ عبداللطیف یونیورسیٹی خیر پور 11-9 کا واقعہ صرف امریکے میں دو عمارتوں کا گرنا نہیں تھا بلکہ اس سے پوری دنیا خاص طور پر مشرقی بلاک میں بڑے پیمانے سیاسی معاشی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی- اس واقعے نے جہاں نیو ورلڈ آرڈ ر کو چیلنج کیا وہیں اس نے یونی پولر طاقت کو دنیا کے بڑے بڑے معدنی ذخائر پر قبضہ کر لینے کا موقعہ بھی فراہم کیا ۔ اس سلسلے میں کئی کتب شائع ہوچکی ہیں اور مستقل ہورہی ہیں ۔ 11-9 سے لے کر آج تک دنیا بھر میں پیش آنے والے نمایاں واقعات پر اگرسرسری نظر ڈالی جائے تو ان میں سب سے پہلے 2001 ء میں 7 اکتوبر کو افغانستان میں طالبان حکومت کے ختم ہونے کا واقعہ پیش آتا ہےلیکن جنگ ابھی (2011 ء) تک فیصلہ کن مرحلے تک داخل نہیں ہوئی –گیارہ دسمبر کو چائنا WTOکی ممبر شیپ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے – 2002 ء میں یکجہتی کی خوبصورت مثال قائم کرتے ہوئے 12 ممالک یورو کو بطور آفیشل کرنسی قبول کرتے ہیں ، اسی سال یو ان سیکورٹی کاونسل دنیا کو بائیلاجیکل خطرناک جنگ سے محفوظ رکھنے کے لئے عراق میں اسلحہ کی انسپیکشن کے لئے قرار داد پاس کرتی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، 2003 ء میں امریکہ عراق کے اندر اپنی فوجیں اتارتا ہے اور 13 دسمبر کو عراقی صدر صدام حسین کو قیدی بنا لیا جاتا ہے-(عراق میں بائلاجیکال ہتھیاروں کی تلاش کے سلسلہ میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہاں پر اس طرح کے مہلک ہتھیار موجود ہی نہیں تھے)-اسی سال اپریل میں امریکہ یوروپی یونین ، ایشیا اور اقوام متحدہ مڈل ایسٹ کے لئے با قائدہ پیس پلین(peace plane) تیار کرتےہیں جو اسرائیل اور فلسطین کو قابل قبول ہونے کے باوجود عمل کے وقت اسرائیل کی مخالفت کی وجہ سے وہ منصوبہ بے عمل رہ جاتا ہے- انڈیا ، پاکستان اور کشمیر میں مشترکہ فائر بندی پر رضامند ہوجاتے ہیں ، لیکن ابھی تک اس معاملے کا کوئی مستقل حل نہیں نکلا – 2004 ء میں ناسا مارس پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے-فلسطینی لیڈر ،یاسر عرفات طویل جد و جہد کے بعد آزادی فلسطین کی امید لئے گیارہ نومبر کو فرینچ ملٹری ہاسپٹل میں انتقال کرجاتے ہیں-2006 ء میں پلوٹو سولر سسٹم میں دکھائی نہیں دیتا جس کو بنیاد بناتے ہوئے سائنسدان اسے سولر سسٹم سے خارج کردیتے ہیں-2007ء میں پاکستانی سیاستدان بینظیر بھٹو کو اس کی ذہانت سے خوفزدہ قوتیں شہید کروا دیتے ہیں-اقوام متحدہ ایران کی خودداری کو آزماتے ہوئے اس پر مزید پابندیاں عائد کردیتی ہے- مجموعی طور پر 11-9 کے بعد 2010 ءتک آنے والی قدرتی آفات کو دیکھیں ،تو اس میں 2003 ءمیں زلزلہ سے ایران میں 2004ءمیں سونامی سے انڈونیشیا و سریلنکا میں 2005 ء میں زلزلہ سے پاکستان میں 2008ء میں سائکلوں سے میانمار میں 2010 ءمیں برطانوی بحری تیل بردار جہاز کے ڈوبنے سے سمندری مخلوق میں زلزلےسے ہیٹی میں ، 2010ء میں پاکستان میں سیلاب سے آنے والی تباہی اور انسانی جانوں کا زیان یہ سب ایک طرف ضرور ہوا لیکن اس سلسلے میں رنگ ،نسل، جغرافیائی حدود ،مذہب سے بالاتر انسانیت کی بنیاد پر ہمدردی اور امدادی معاونت کی خوبصورت مثالیں بھی قائم ہوئیں- رواں سال (2011ء) میں دیکھا جائے تیونس مصر اور لبیا میں ادھورے ادھورے انقلابات آتے ہیں-یمن، اردن اور شام میں کشمکش جاری ہے-نیوپارک میں عوام آکوپائڈ وال اسٹریٹ(occupied wall street) کی تحریک شروع کرتے ہیں جو بعد میں یوروپ اور ایشیا تک پھیل جاتی ہے- دنیا کی اس پوری سیاسی اور معاشی صورتحال و رویوں کے پیش نظر فیض صاحب کی تقریر سے اقتباس پیش خدمت ہے- " انسانی عقل،سائنس اور صنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھر سکتے ہیں-بہ شرطیکہ یہ قدرت کے بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے انداز ہ خرمن ، بعض اجارہ داروں اور مخصوص طبقوں کی تسکین ہوس کے لئے نہیں ،بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئےکام میں لائے جائیں، اور عقل، سائنس اور صنعت کی کل ایجادیں اور صلاحیتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں-لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے ڈھانچے بنائیں-ہوس استحصال اور اجارہ داری کے بجائے انصاف، برابری، آزادی اور اجتماعی خوشحالی میں اٹھائی جائیں-اب یہ ذہنی اور خیالی بات نہیں، عملی کام ہے-اس عمل میں امن کی جد و جہداور آزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں- اس لئے کہ امن کے دوست ،دشمن اور آزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلےکے لوگ ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں- ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد ،جن کے اجارے جبر و حسد کے بغیر قائم نہیں کرسکتے اور جنہیں ان اجارہ داروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے اور دوسری طرف وہ قوتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے-جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اور ساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے-سیاست و اخلاق،ادب اور فن،روزمرہ زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے-آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاذ اور ہر صورت پر توجہ دینا ضروری ہے-" (ماسکو میں بین الاقوامی لینن امن انعام کی پرشکوہ تقریب کے موقع پر کی جانے والی تقریر سے اقتباس) مندرج بالا حالات کے دوران جسمانی طور پر فیض ہمارے درمیان موجود نہیں تھیں لیکن اس کے باوجود اپنی تحریر کی معرفت فیض بطور سوشل سائنٹسٹ،دانشور اور ادیب اس معاشرے کے غیر متوازن ہونے کے مسئلے کو جس خوبصورتی سے مختصر لیکن جامع انداز میں اڈرس (address)کرتے ہیں اس کی مثال ادبی دنیا میں کم کم ہی نظر آتی ہے- 11-9 کے بعد انسان کی سب سے بڑی کامیابی کسی دوسرے پلینیٹ کا جغرافیائی مطالعہ ہے اور یہ کامیابی ناسا کو 2004ء میں نصیب ہوئی، اب ایک بار پھر مندرج بالا میں پیش کردہ 11-9 کے بعد کی دنیاوی صورتحال اور ناسا کی کامیابی کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیض کے ان جملوں کو پڑھیے: "مجھے بار بار خیال آتا رہا آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی کمینگیاں ، خودغرضیاں، یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کی کوششیں اور انسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعید از عقل باتیں ہیں- اب جبکہ کائنات کے راستے ہم پر گشادہ ہوگئے ہیں-ساری دنیا کے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں، تو کیا انسانوں میں ذی شعور ،منصف مزاج اور دیانتدار لوگوں کی تعداد اتنی موجود نہیں ہے جو سب کو منواسکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو- یہ بم ،راکٹ اور ٹوپیں، بندوقیں سمندر میں غرق کردو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو-جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے، جہاں لامحدود فضائیں ہیں اور ان گنت دنیائیں- مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اور مشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ بات منوا کر رہیں گے"- فیض کی نثر کی طرح ان کی شاعری میں بھی عام شاعری نہیں بلکہ سدا حیات شاعر جھلکتا ہے، کیونکہ اس کی فکر صرف مسائل نہیں بلکہ مشترکہ سماجی مسائل و ان کے محرکات کی نشاندہی کے ساتھ ان کا حل بیان کرتی ہے اور یہی طرز عمل فیض کی شاعری کو سدا حیات بنالیتا ہے- اس سلسلے میں کلام فیض سے چند مثالیں بطور نمونہ پیش خدمت ہیں- " تعمیر اور تخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش صدیوں سے جاری ہے"- اس سلسلے میں کبھی بھی ایک سوچ یا طرز عمل کا پلہ بھاری نہیں رہ سکتا لیکن یہ ابدی جنگ جو کبھی افغانستان میں ہورہی ہے یا عراق میں،امریکہ میں ہورہی ہے ،یا یونان میں،اٹلی میں ہورہی ہو،یا برطانیہ میں،مصر میں ہورہی ہویا لبیا میں یا اردن اور شام و غیرہ میں اپنی شاعری کی معرفت نہ صرف ہمیشہ تعمیری سوچ، انسان دوست اور مظلوموں کے حمایتوں کی صف میں نظر آتے ہیں-بلکہ بطور رہنما عملا تعمیری سوچ والوں کے حوصلہ بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حکمرانوں کے خلاف لوگوں کے جذبات کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ خود انہیں بھی پتہ نہیں چلا کہ ان کے پیچھے کوئی اور طاقت اپنے مذموم عزائم پورا کرنا چاہتی ہے-لبیا کو دیکھ کے تو کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ نیا افغانستان تو نہیں بن جائے گا-کیونکہ حالیہ دنوں میں یو این نے لبیا میں اسلحے کے ڈیپوں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ غائب ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے- مصر میں ابھی تک فوج حکومت پر قابض ہے،تیونس میں انتخابات کے نتائج کے بڑی طاقتوں کی مرضی کے خلاف آئے ہیں،یمن اور شام میں حکمران ابھی تک خلق خدا کی آواز کو سمجھی ہی نہیں-فیض کی نظم صبح آزادی جب منظر عام پر آئی تھی تو حکمران طبقے میں جس طرح کے بے چینی اس وقت پیدا ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ بین الاقوامی سطح پر یہ نظم بیک وقت مختلف ممالک کے عوام کو آج بھی آزادی حاصل کرنے اور اس سے آگے بڑھ کر اس کی حفاظت و تعمیر کی دعوت دیتی ہے- یہ داغ داغ اجالا،یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں ابھی چراغ سر رہ کوکچھ خبر ہی نہیں ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی اس طرح نظم " ایک نغمے کربلائےبیروت کے لئے" فیض نے 1982ء میں لکھی لیکن اگر اسے 2006ء میں حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ کے پس منظر میں پڑھیں تو اس کی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے- بیروت نگار بزم جہاں بیروت بدیل باغ جنان بچوں کی ہنستی آنکھوں کے جو آئنے چکنا چور ہوئے اب ان کے ستاروں کی لوسے اس شہر کی راتیں روشن ہیں اور رخشاں ہے ارض لبنان بیروت نگار بزم جہاں فیض نے اپنے آپ کو خاص مقام اور قوم سے نہیں بلکہ انسانیت سے وابستہ رکھا-آپ انسانوں کی آزادی اور برابری کی بنیاد پر مواقع کی فراہمی پر یقین رکھتے تھے ،اس لئے دنیا میں جہاں بھی مظلوم انسانوں نے جد و جہد کا آغاز کیا،فیض ان کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، بلکہ اپنے سدا حیات کلام کی معرفت ان کی راہنمائی کرتے ملتے ہیں- اس لئے وقت اور حالات کی مناسبت سے اب کلام فیض کی نئی تفہیم کی اشد ضرورت ہے- | ||
Statistics View: 2,734 |
||