جشن نوروز کے روائتی کھانے اور سفرہ ہفت سین | ||
جشن نوروز کے روائتی کھانے اور سفرہ ہفت سین ڈاکٹر محمد کیومرثی نوروز فطرت کی تجدید کا دن تصور کیا جاتا ہے۔ نوروز کا مطلب نیا دن ہے۔ جشن نوروز آذربائیجان اور وسط ایشیائی کےممالک جو ترک قومیتوں پر مشتمل ہیں کے علاوہ ایران، افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے کچھ حصوں میں اپنے روائتی اور مذہبی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی ایک اپنی مذہبی، ثقافتی، روایتی اور تہذیبی اہمیت ہے۔ اس لئے یہ دن فقط ایک تہوار ہی نہیں ہوتا۔ اس دن کو عوام اور حکومت دونوں ہی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔ روایات اور عقیدت دونوں مل کر اس دن کو ایسا خصوصی مقام بخشتے ہیں جو عموماً کسی دوسرے عام تہوار کو حاصل نہیں ہوتا۔ نوروز کی تاریخ بہت قدیم ہے۔نوروز کے وقت سے کچھ پہلے پورا خاندان اس میز یا دسترخوان کے گرد بیٹھتا ہے اور گھر کا بڑا دعاؤں کی کتاب سے نئے سال کی دعا پڑھتا ہے۔ اس دوران وہ کتاب کے مختلف صفحوں کے درمیان کچھ رقم بھی رکھتا جاتا ہے جو بعد میں خاندان کے افراد میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ یہ شکرانے کا ایک انداز ہے۔ سفرہ ہفت سین یا سین سے شروع ہونے والے سات کھانوں کی میز آج کے دور میں بھی یہ رواج ’ سفرہ ہفت سین‘ کی صورت میں زندہ ہے۔ سفرہ ہفت سین یا سِن کا مطلب سات سین کی میز ہے ۔ ’س‘ اردو کی طرح فارسی زبان کا ایک حرف ہے اور سفرہ کا مطلب میز ہے جس پر سات ایسے کھانے سجائے جاتے ہیں جن کے نام حرف ’س‘ سے شروع ہوتے ہیں۔ یہ میز عام طور پر ہاتھ سے بنُے کپڑے سے ڈھانکی جاتی ہے جسے ’ترمہ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے اوپر دعاؤں کی کتاب رکھی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ زندگی کے عکس کی علامت کے طور پہ ایک آئینہ بھی رکھا جاتا ہے۔ ان چیزوں کے ساتھ ساتھ موم بتیاں، کنبہ کے ہر فرد کے نام کا ایک رنگا ہوا انڈا، آنے والے سال میں خوشحالی کی علامت کے طور پر روایتی مٹھائیاں اور روٹی بھی سجائی جاتی ہیں۔ لوگ اس روز( ہفت سین )گندم ،جو اور مسور وغیرہ سے دستر خوان سجاتے ہیں۔ آذربائیجانی لوگ کھانے کی میز پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ضروری ہے کہ سات قسم کے کھانے پکے ہوں اور ہر کھانے کا نام (س) سے شروع ہوتا ہو مثلاً سبزی، سرکہ، سود (دودھ) سمینی وغیرہ۔ سنہری مچھلی نوروز کی علامت ہے میز پر ایک اور اہم چیز سنہری اور مختلف رنگوں کی مچھلیوں کا جار رکھا جاتا ہے۔ قدیم فارس میں یہ عقیدہ بھی رائج تھا کہ نئے سال سے کچھ پہلے یہ مچھلی ساکت ہوجاتی ہے اور نیا سال شروع ہوتے ہی اس میں دوبارہ جان آجاتی ہے۔ میز پر ایک آئینے کا رنگ دار انڈوں کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔اس کے علاوہ میز پر موم بتی بھی ہونی چاہیے۔موم بتی آگ اور روشنی کی علامت ہونے کی وجہ سے ضروری سمجھی جاتی ہے۔آئینہ خوشی کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر روایتی آذری پلائو کی مختلف اقسام، مٹھائیاں اور فروٹ ہالیڈے ٹیبل کا لازمی جزو سمجھی جاتی تھی۔ علاقائی خوراک میں تنوع لازمی امر ہے۔ آذربائیجان آج بھی نوروز کی زیادہ تر روایات اور رسوم کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ صرف علاقائی خدوخال کے مختلف ہونے کی وجہ سے معمولی فرق ہوسکتا ہے۔ نوروز کی چھٹی کو تمام دیگر چھٹیوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس کی تیاریاں بہت پہلے شروع ہو جاتی ہیں۔ خواتیں بلائوں کو دور کرنے کی دعائیں مانگتی ہیں۔ بچے کھیلتے کودتے اور خوش رہتے ہیں کیونکہ ان کو مٹھائیاں اور ٹافیاں ملتی ہیں جس سے وہ نوروز کا صحیح لطف اٹھاتے ہیں۔ایک اور طریقہ ”سلامہ” تھا۔ گائوں اور پرانے شہروں میں زیادہ مکان ایک منزلہ تھے اور ان پر چڑھنا مشکل نہ ہوتا تھا۔ بچے اسی کے ساتھ ایک تھیلی وغیرہ باندھ کر کسی گھر کی چمنی میں لٹکاتے تھے۔ یہ تھیلی خالی واپس نہیں آتی تھی۔ چھٹی کے دن تمام گھر والے اکٹھے ہوتے ہیں۔ گھر کا سربراہ بھی موجودہ ہوتا ہے، کھانا سجا ہوتا ہے اور نہ تو وہ خود کھانے کو ہاتھ لگاتا ہے اور نہ ہی گھر کا کوئی دوسرا فرد کھانے کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اتنے میں گھر میں عموماً بڑا بیٹا بھاگتا ہوا داخل ہوتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ اس نے ابھی ابھی بندوق کی آواز سنی ہے جس کا مطلب ہے کہ چھٹی آ گئی ہے۔ گھر کا سربراہ گھڑی نکال کر وقت دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی تو کئی منٹ باقی ہیں۔ پھر وہ ہالیڈے تربوز کو چکھتا ہے۔میزبان دودھ پلائو وغیرہ سے تمام لوگوں کی خدمت کرتی ہے۔ گھر کے دروازے کھلے ہونے کا مطلب ہوتا ہے کہ میزبان گھر پر موجود ہے۔ قالین پر طرح طرح کے میوہ جات، کھانے اور مٹھائیاں وغیرہ مہمانوں کی منتظر ہوتی ہیں۔ نوروز کے موقع پر مختلف روایتی کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔مہمان نوازی کی اپنی اپنی روایت ہیں جن پر آذری سختی سے عمل کرتے ہیں۔ نوروز کے تین دن بعد لوگ ایک دوسرے کے گھروں کا دورہ کرتے ہیں اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے بعد عورتیں ایک ہفتے تک اپنی تقریبات منا کر لطف اندوز ہوتی ہیں۔ گاؤں میں لوگ نوروز سے آنے والے سال کی خصوصیات کا تعین کرتے ہیں۔ اس سے وہ خشک سالی، بارشوں، موسم اور پیداوار کے متعلق اندازے قائم کرتے ہیں۔ سوویت دور میں جب آذربائیجان پر روسیوں کا قبضہ تھا۔ نوروز کا تہوار غیر سرکاری طور پر منایا جاتا تھا۔ ان ضروری رسومات میں ایک ضروری رسم روایتی خوراک سمینی کا تیار کرنا اور پیش کرنا ہوتا ہے۔ یہ گندم سے تیار کی جاتی ہے اور اپنے اندر جادوئی اثر اور مذہبی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کو تبرک سمجھا جاتا ہے مثلاً سمینی کو بانجھ عورتوں کا بانجھ پن دور کرنے کے لئے اچھا سمجھا جاتا ہے۔گندم سے بھری تھالی کو عورت کے سر پررکھا جاتا ہے۔ دوسری عورت اس میں تھوڑا سا پانی ملا دیتی ہے۔ دعا مانگی جاتی هے کہ”اے قوت (قادر) تو نے جس طرح اس سمینی کو بارآور کیا اسی طرح اس عورت کی گود بھی ہری کر”۔ یہ رسم صرف عورتوں تک محدود ہوتی ہے۔سمینی والے برتن کے نیچے قصبے کی سب سے خوش مزاج اور ہنس مکھ عورت آگ جلاتی ہے لیکن اس ساری تقریب کی قیادت سب سے زیادہ پُروقار اور عمر رسیدہ عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تقریب باپردہ جگہ پر منعقد ہوتی ہے جہاں مردوں کا جانا ممنوع ہوتا ہے۔ نظر بد، بُری نظر والی خواتین سے بچاؤکے لئے کچھ علاقوںمیں سمینی میں تھوڑا سا نمک بھی ملا دیا جاتا ہے۔ اس تقریب کو ”سمینی تویو” کہا جاتا ہے۔تقریب میں روایتی رقص اور گانا بجانا بھی شامل ہوتا ہے۔افغانستان اس روز آپ کو ایک پودا لگانا پڑتا ہے۔ کھانے کے دسترخوان پر دہی کی یخنی ایک لازمی عنصر ہونا چاہیے۔ آپ ایک بہتر اور کامیاب سال کی امید میں جی بھر کر کھاسکتے ہیں۔ وہاں لوگوں کو یہ تہوار بہت پسند ہے کیونکہ وہ دسترخوان کو کھانے کے پکوانوں سے بھر دیتے ہیں وہ میٹھا دلیہ اور گندم اور گوشت کا پکوان تیار کرتے ہیں۔ شب یلدا کا شمار ایران کے قدیم ترین روائیتی تہوار میں ہوتا ہے۔جس کا آغاز عہد زرتشت سے ہوا۔اس تہوار کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی گئ کہ یلدا کی رات کے اختتام تک سچ کا دن طلوع نہیں ہوتا۔ یہ تہوار21 اور22 دسمبر کی درمیانی رات کو منایا جاتا ہے جو سال کی طویل ترین رات شمار ہوتی ہے۔رات بھر جشن کا سماں ہوتا ہے اور مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔تربوز اور انار کو کھانوں میں خاص طور پر شامل کیا جاتاہے۔ | ||
Statistics View: 2,846 |
||