عید نوروز سے جشن بہاراں تک | ||
عید نوروز سے جشن بہاراں تک سید اسداللہ ارسلان انسانی تاریخ میں ہر ملت اور قوم نے اپنی تحقیق، تاریخی واقعات یا ثقافت کی بنا پر اپنے لیے خاص ایام اور کیلنڈر مرتب کیے ۔ اس کی ترتیب میں تاریخی حادثات و واقعات کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ۔ عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کو خوشی کا دن اور نئے سال یعنی " عیسوی سال " کا آغاز کرتے ہیں ۔ مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے واقعہ کو اہمیت دیتے ہیں اور یوں اسی دن سے اسلامی سال یعنی " سال ہجری " کا آغاز ہوا ۔ ایران میں بسنے والے لوگوں کی نظر میں زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل کرنے والا دن اہم ہے اور اس دن سے نئے سال یعنی" شمسی سال" کا آغاز کرتے ہیں ۔ اقوام کی تاریخ میں پاۓ جانے والے یہ اہم دن، ان کی ثقافت کا حصّہ بن کر ان کے قومی تہواروں کا درجہ حاصل کر جاتے ہیں ۔ اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو بڑی آسانی سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ مذہب اور ثقافت ہمیشہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں ۔ ثقافت اور کلچر کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ وہ زندگی کی روحانی، فکری، مذہبی اور اخلاقی قدروں کی مجسم تصویر کا نام ہے۔ ایران کی ثقافت میں بھی شمسی سال کے آغاز کو بہت اہمیت دی گئی اور یہ دن اس قدر مقبول اور اہم ہوا کہ اس دن نے ایک تہوار کا درجہ حاصل کر لیا اور یوں ایرانی شمسی سال کے آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں مثلا تاجیکستان،افغانستان،آذربائیجان،ہندوستان اور پاکستان کے بعض علاقے اس میں شامل ہیں ۔ ایران میں اس دن کو " عید نوروز " کا نام دیا گیا ہے ۔ عید نوروز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی "نئے دن" کے ہیں ۔ اس دن کو شمسی سال کے آغاز کے ساتھ موسم بہار کی آمد اور عید طبیعت بھی سمجھا جاتا ہے ۔ طبیعت میں آنے والی تبدیلی کو اگر دیکھا جائے تو بہار انسان کے مزاج میں خوشی کی کیفیت لاتی ہے ،ہر شے تروتازہ اور ہری بھری ہوجاتی ہے ، بلبلوں کا چہچہانا بہار کی آمد کی خبر دیتا ہے۔ پس انسانی فطرت میں خوشی کی لہر کا اظہار " نوروز" ہے ۔ مشہور ایرانی تاریخ دان یعقوبی رقم فرماتے ہیں کہ: " ان کے سال کا پہلا دن " نوروز " کے نام سے ہے ، جس میں آب نیسان بھی برستا ہے یہ اس وقت ہے جب سورج برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور یہ دن ایرانیوں کے لئے بڑی عید ہے۔ البتہ اس بات کو ایرانیوں کا حسن سلیقہ سمجھنا چاہیے کہ بہار کو سال کےآغاز کے لئے انتخاب کیا جس میں نباتات دوبارہ تروتازہ ہوتے ہیں اور ہریالی کا آغا ہوتا ہے، جس طرح کچھ ممالک عیسوی سال کو جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ " جزیرہ عرب کے لوگ بھی اس تہوار کو مناتے تھے ۔ ایران میں پہلوی اور مانوی دور کی تحریروں میں بھی جشن نوروز کے متعلق ذکر کیا گیا ہے ۔ شیراز میں واقع تخت جمشید پر بھی جشن نوروز کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ تخت جمشید کو ہخامنشی دور میں ایک مقدس مقام کا درجہ حاصل تھا ۔ ھخامنشی دور کے بادشاہ جشن نوروز کے موقع پر مختلف اقوام کے نمائندوں از جملہ مادی، ایلامی ،بابلی، خوزی، آشوری، ھندی، تونسی، آفریقائی کو جشن میں مدعو کرتے تھے یہ سب اپنے اپنے قومی لباس میں تشریف لاتے اور جشن کے موقع پر بادشاہ کو تحائف پیش کرتے تھے ۔ اشکانی اور ساسانی دور میں بھی تاریخی روایات کے مطابق جشن کا اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ایرانی قوم عید نوروز کو سال کے سب سے بڑے تہوار کے طور پر مناتی ہے ۔ نیا سال شروع ہونے سے پہلے ہی لوگ اپنے گھروں کی صفائی شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کو ""خانہ تکونی "" کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس موقع پر لوگ ہر چیز نئی خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بازاروں میں گہماں گہمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ایران میں ایک دلچسپ رسم یہ ہے کہ وہ سال کے آغاز پر اپنے گھروں میں دسترخوان بچھاتے ہیں جن پر سات مختلف اور مخصوص اشیاء رکھی جاتی ہیں جن کا نام جروف تہجی کے مطابق "س " سے شروع ہوتا ہے ۔ اس رسم کو "ھفت سین " کا نام دیا جاتا ہے ۔ عام طور پر یہ سات اشیاء سیب ، سبزگھاس ،سرکہ ،گندم سے تیار شدہ ایک غذا، ایک رسیلا پھل یا بیر، ایک سکّہ اور ادرک پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات ادرک کی بجائے کوئی مصالحہ رکھ دیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ قرآن کریم کو بھی اپنے دسترخوان پر رکھتے ہیں تاکہ آنے والاسال ان کے لیے برکات لے کر آۓ ۔ بعض ""دیوان حافظ"" یا ""شاہنامہ فردوسی"" کو دستر خوان پر سجاتے ہیں ۔ شاعری کی ان کتابوں سے شعر پڑھنا بھی رسم کا حصّہ ہے ۔ سفرے ہفت سین یا سین سے شروع ہونے والے سات کھانوں کے دسترخوان کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہ اشیاء زندگی میں سچ، انصاف، مثبت سوچ، اچھے عمل، خوش قسمتی، خوشحالی، سخاوت اور بقاء کی علامت کے طور پر شامل کی جاتی تھیں۔ سال کے آغاز پر گھر کا بزرگ نئےسال کی دعا کرواتا ہے اور خاندان کے دوسرے افراد کو عیدی پیش کرتا ہے ۔ اس موقع پر ایک مخصوص روایتی کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو مچھلی، چاول، ہرے دھنیے، خراسانی اجوائین اور پیاز پر مشتمل ہوتا ہے۔ نیا سال شروع ہونےسے پہلے ہی لوگ چھوٹے گملوں میں گندم یا کوئی دوسری سبز چیز اگاتے ہیں یا بازار سے خرید کر لاتے ہیں ۔ ان گملوں کو وہ نئے سال کے تیرویں دن تک گھر میں رکھتے ہیں بہت سے لوگ شیشے کے برتنوں میں سنہری مچھلی بھی بازار سے لاتے ہیں۔ نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ ایک دوسرے کو عید ملتے ہیں اور بڑے بچوں کو عیدی پیش کرتے ہیں ۔ نئے سال کے پہلے کچھ دن خاندان کے بزرگوں کو اور ارد گرد کے دوست احباب کو ملنے میں گزارے جاتے ہیں ۔ جب کوئی کسی کے گھر عید ملنے جاتا ہے تو مٹھائی اور دوسرے تحائف کے ساتھ وہاں جاتا ہے ۔ عید نوروز کا یہ جشن تیرہ روز تک جاری رہتا ہے اور ان تیرہ دنوں میں زیادہ تر لوگ تفریح کی غرض سے اپنے شہروں سے دوسرے شہروں اور دوسرے ممالک میں سیر کی غرض سے جاتے ہیں اور ان دنوں کو سیر و سیاحت میں بھی گزارتے ہیں ۔ نئے سال کے تیرویں دن کو "" سیزدہ بدر "" کا نام دیا جاتا ہے ۔ اس دن کو ہر کوئی اپنے گھر سے باہر گزارتا ہے ۔ اکثر لوگ پارکوں میں اس دن کو گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہاں ہم اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ عید نوروز کی ابتدا طلوع اسلام سے بہت پہلے ہوئی تھی ۔ اسلام تمام اقوام عالم کے لیے ہے جو انسان کو ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے ۔ اسلام نے علاقائی ثقافتوں کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور اسلامی حکمرانوں نے کسی بھی مفتوح قوم کی مثبت باتوں کو ختم نہیں کیا ۔ عید نوروز کے بھی بہت سے پہلو مثبت ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلمیات کے مطابق ہیں مثلا صلہ رحمی، دوسروں کو تحفے دینا، گھر کو صاف ستھرا کرنا، ایک دوسرے کی دعوت کرنا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ وہ امور ہیں جو مثبت اور اسلام میں قابل تحسین ہیں جبکہ کچھ منفی پہلو بھی ہیں جیسے بعض لوگوں کا اسراف کرنا ، اس دن گناہوں کا ارتکاب کرنا جیسے موسیقی وغیرہ جو ہر وقت اور ہر موقعہ پر حرام ہیں اور کوئی مسلمان ان امور کو انجام دینے کی اجازت نہیں دے گا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر یا قوم و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ پاکستان میں شیعہ مکتب فکر کے بعض افراد اس دن کو مذہبی رنگ بھی دیتے ہیں ۔ جناب صفدر ھمدانی صاحب اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ " اہل تشیع کے ہاں روایت ہے کہ اسی نوروز کے دن بارہویں امام حضرت مہدی ابن العسکری دنیا میں ظہور فرمائیں گے اور اسی طرح اسلامی تاریخ میں تقویم کے اعتبار سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا،درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت نوح کی کشتی کوہ جودی ہر اتری اور طوفان نوح ختم ہوا، نبی آخرالزمان پر نزول وحی کا آغاز ہوا،حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا اور مقام غدیر خم پر ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کا اعلان ہوا۔ " جبکہ بعض تنگ نظر لوگ اس تہوار کے مناۓ جانے کو بدعت اور کفر جیسے القاب سے نوازتے ہیں ۔ عید نوروز کے تہوار کو فارس تہذیب کی حامل اقوام مناتی ہیں اور اس تہوار کا کسی عقیدے یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران جہاں اس عید کا آغاز ہوا ،وہاں اس وقت بھی شیعہ اور سنی سب مل کر نوروز کو ملی عید کے طور پر مناتے ہیں، ایران کے علاوہ دوسرے ملکوں جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان،آذربائیجان جن میں اکثریت اہل سنت کی ہے وہ بھی عید نوروز کو روایتی طور پر مناتے ہیں ۔ مھر داد بہار، ایک مشہور ایرانی تحقیق دان کے مطابق نوروز کی رسم صرف ایران میں ہی نہیں بلکہ اس کو ایران کے ارد گرد کے علاقوں میں بھی منایا جاتا تھا ۔ قدیم فارس حکومت کے زیراثر علاقوں اور ان سے متصل علاقوں مثلا پاکستان کے صوبہ بلوچستان،خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں عید نوروز کو اس کی حقیقی صورت میں ہی منایا جاتا ہے ۔ اس دن مقامی طور پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ نیزہ بازی ، پولو اور دیگر مقامی کھیلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ جشن نوروز کو بلتستان کی تاریخ ، ثقافت اور تہذیب میں اہم مقام حاصل ہے ۔ اسکردو میں نوروز کو فطرت کی تجدید کا دن تصور کیا جاتا ہے۔ بلتستان میں دیرینہ رسم کے تحت لوگ نوروز کے دن اور تحویل سال کے لمحے کو خیر وبرکت اور بہتر سال کی دعا کے ساتھ مناتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان میں بہار کی آمد پر جشن منایا جاتا ہے کہ جس کو ""بسنت میلہ " یا "جشن بہاراں" کہا جاتا ہے ۔ موسم بہار کی آمد کے ساتھ اس جشن کو ہر سال منایا جاتا ہے جس میں کئی رنگا رنگ پروگراموں کے علاوہ بچوں کے لئے تفریحی پروگرام، مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ، پھولوں کی آرائش کے مقابلے، مشاعرے، چہروں پر نقاشی اور مہندی سجانے کے مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ موسم بہار کے شروع ہونے سے پہلے ہی شجرکاری مہم کا بھی آغاز کر دیا جاتا ہے اور یوں برصغیر کی زرخیز زمین بہار کی آمد کے ساتھ سرسبز نظاروں میں اپنی مثال آپ بن جاتی ہے ۔ ہندوستان میں موسم بہار میں ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے جسے " بسنت " کہا جاتا ہے ۔ ہندو بسنت کو ”پالا اُڑنت“ کا نام دے کر اسے موسمی تہوار بتاتے ہیں ۔ ایرانی تاریخ دان البیرونی کے بیان کے مطابق ہندوجوتشی ہر سال استوائے ربیعی کا تعین کرکے ’یومِ بسنت‘ کا اعلان کرتے ہیں، یہی تصور آج تک چلا آ رہا ہے۔ بیساکھی کا تہوار بیساکھ کے مہینے میں گندم کی کاشت کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بھی ایک ثقافتی تہوار ہے مگر اس موقع پرہندو کاشتکار برہمنوں کو گندم کے نذرانے دیتے ہیں اور دیوتاؤں سے گندم کی فصل کے زیادہ ہونے کی دعائیں کی جاتی ہیں۔ محمد حنیف قریشی صاحب اپنے مضمون میں ”بسنت کا تہوار، تاریخ و مذہب کے آئینہ میں“ لاہور میں بسنت کے تہوار کے بارے میں موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ بسنت ایک موسمی اور ثقافتی تہوار ہے، جس کا مذہب اور قوم سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی ایسے بزرگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں گے جو اس امر کی شہادت دیں گے کہ آزادی سے قبل بسنت کو عام طور پر ہندوؤں کا تہوار ہی سمجھا جاتا تھا اور لاہور میں ہی جوش و خروش سے منایا جاتا تھا۔ جہاں دو تین جگہ بسنت میلہ منعقد ہوتا تھا، ہندو مرد اور عورتیں باغبانپورہ لاہور کے قریب حقیقت رائے کی سمادھ پر حاضری دیتے اور وہیں میلہ لگاتے۔ مرد زرد رنگ کی پگڑیاں باندھے ہوتے اور عورتیں اسی رنگ کا لباس ساڑھی وغیرہ پہنتیں۔ سکھ مرد اور عورتیں اس کے علاوہ گوردوارہ اور گورومانگٹ پہ بھی میلہ لگاتے۔ ہر جگہ خوب پتنگ بازی ہوتی۔ اندرون شہر بھی پتنگیں اُڑائی جاتیں اور لاکھوں روپیہ اس تفریح پر خرچ کیا جاتا۔ مسلمان بھی اس میں حصہ لیتے مگر زرد کپڑوں وغیرہ کے استعمال سے گریز کرتے۔ یہ سارا کھیل دن کو ہوتا، رات کو روشنیاں لگانے اور لاؤڈ سپیکر، آتش بازی یا اسلحہ کے استعمال کا رواج نہ تھا“ یہاں یہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں مناۓ جانے والے موسم بہار کے جشن پر مذھبی اثرات غالب رہے ہیں ۔ برصغیر، پاک و ہند میں مسلمان اور ہندو صدیوں سے اکٹھے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اس لیے ہندو ثقافت کے مسلمان معاشرے پر اثرات پڑتے رہے ہیں جس کی وجہ سے موجودہ دور میں موسم بہار کے جشن کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں میں بھی ایسی رسوم دیکھنے کو ملتی ہیں جو ہندو معاشرے سے اپنائی گئی ہیں مثلا موسم بہار کے موقع پر پتنگ بازی اور رقص و موسیقی وغیرہ وغیرہ ۔ اسلامی معاشرے میں تہواروں کو منانے کا اپنا الگ طریقہ کار ہے ۔ اسلامی تہوارایک عجیب ثقافت ،شان، شائستگی اور اخلاقی بلندی کے حامل ہوتے ہیں۔اس میں نہ لہو ولعب ہوتا ہے ، نہ گھٹیا تفریحات ۔ان کا بنیادی نصب العین ملت اسلامیہ میں اتحاد، بھائی چارہ، محبت اور یگانگی پیدا کرنا اور پاکیزہ اطوار دینا ہوتا ہے۔ اس لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے برصغیر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوۓ موسم بہار کے جشن کو مہذب طریقے سے منائیں اور غیر مسلموں کے رسوم کی تقلید سے پرہیز کریں ۔ | ||
Statistics View: 3,958 |
||