نوروز کا تاریخی پس منظر | ||
نوروز کا تاریخی پس منظر سید مظہر عباس نوروز کے معنی نیا دن جو کہ شمسی سال کا پہلا دن بھی ہے اور عیسوی حساب سے 21 مارچ کو اس خطے کے ممالک خاص طور پر فارسی زبان بولنے والے ایکو کے ممالک یہ دن جش کے طور پر مناتے ہیں۔حقیقت میں یہ دن اہل مشرق کے لیے بہار کی آمد پر مسرت اور شادمنی کا اظہار ہے۔ہزاروں برسوں سے جاری یہ جشن اور تہوار موسم سرما کے خاتمہ اور بہار کے موسم کی نوید لے کر آتا ہے۔ ہم ایک عام قانون کی طرف اشارہ سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم اور ملت کسی اہم واقعہ یا حادثہ جو انکے لیے اہمیت کا حامل ہو بعنوان آغاز سال قرار دیتے ہیں،جیسے بہار کی آمد پر ہندوستان اور پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں بسنت کا تہوار روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے لوگ اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اور اسکو ایک جشن یا تہوار قرار دیتے ہیں۔ جس طرح عیسائی حضرت عیسی (ع ) کی پیدائش کے دن کو سال کا آغاز قرار دیتے ہیں، مسلمان ہجرت پیامبر اسلام ﷺ کو آغاز اسلامی سال قرار دیتے ہیں اور ایرانی شمسی نظام یعنی زمین کا سورج کے گرد چکر مکمل ہونے کو سال آغاز شمار کرتے ہیں، ایرانی اس آغاز کو ثقافتی دن سمجھ کر مناتے ہیں اور یہ دن فقط ایران تک محدود نہیں بلکہ فارسی زبان جہاں جہاں بولی جاتی ہے وہاں اس کے اثرات زیادہ واضح نظر آتے ہیں جیسے تاجیکستان، افغانستان،آزربائیجان، اور ہندوستان اور پاکستان کے بعض لوگ اس کو جشن یا تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ اس جشن کا وجود حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ملتا ہے۔ نوروز کی علامتیں آگ ، روشنی اور سورج ہیں۔ ان مظاہر قدرت کی عبادت اس خطہ ارض میں ”جس میں ایران، آذربائیجان اور موجودہ عراق و شام کے چند علاقے شامل ہیں تین ہزار سال قبل مسیح بھی کی جاتی تھی۔ مشہور ایرانی بادشاہ زرتشت کے دور میں نوروز کو خصوصی مقام حاصل ہوا۔ زرتشت کے دور میں نوروز چار قدرتی عناصر پانی ، مٹی ، آگ اور ہوا کا مظہر اور علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس عقیدے اور حکومتی دلچسپی نے نوروز کو بہت رنگا رنگ اور پُر وقار بنا دیا۔مغربی چین سے ترکی تک کروڑوں لوگ نوروز منا تے ہیں جو شمسی سال کے آغاز اور بہار کی آمد کا جشن بھی ہے اور ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، اور شمالی عراق کے علاوہ کے کچھ علاقوں میں کیلنڈر سال کا نقطہ آغاز بھی- لیکن اس بار نوروز کا جو اہتمام افغانستان میں ہے وہ برسوں سے دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ ملک کے رہنما خود نوروز کے اہتمام میں آگے آگے تھے اور جشن نوروز شروع ہونے کا سرکاری طور پر اعلان بھی کیا گیا- اس موقعے کے لیے شہر کی گلیاں اور بازار سجائے گئے اور لوگوں کے چہروں پر خوشی اور شادمانی نظر آتی ہے۔ آس پاس کے علاقوں سے بھی لوگ تہوار میں شریک ہونے کے لیے مزار شریف آئے ۔ پاکستان کے بھی کچھ علاقوں میں نوروز کا جشن مذہبی اور روایتی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ وسطی ایشیا میں نوروز منانے کا رواج سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہی شروع ہوا لیکن اب لوگ اس کے نہ صرف عادی ہو گئے ہیں بلکہ آذربائیجان میں تو رسومات کئی ہفتے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں- اس بار بھی نوروز سے بہت پہلے ہی لوگ آگ کے الاؤ جلا کر اور بچے گھر گھر ٹافیاں مانگ کر اس دن کی تیاری کرتے رہے ۔ نوروز قدیم ایرانیوں کی عید ہے جو بہار کی آمد پر منائی جاتی ہے، سال کے نئی ہوجانے، موسم گرما کی آمد، سرما کی موت اور فطرت کے دوبارہ اگ آنے، خمودگی اور خواب و غفلت سے انسان کے بیدار ہوجانے اور جاگ جانے، فطرت سے متصل ہوجانے اور معاشرتی حیات کی طرف لوٹ کر آنے کی علامت ہے۔ نوروز، تبدیلی اور تحول و تغیر اور دگرگونی کی علامت ہے اور موسم بہار کا آغاز ہے۔ اس موسم میں بے جان طبیعت Nature میں نئی جان پڑتی ہے اور قدیم ایران کے قلمرو کے رہنے والے بھی گھروں کی صفائی اور گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء کی دھلائی کرکے نیا لباس زیب تن کرتے ہیں اور اس فطری تبدیلی کا خیرمقدم کرنے کی کوشش کرتے ہیں؛ بے شک یہ تبدیل اچھائی اور بہتری کی طرف قدم ہے۔ یہ سب اچھائی اور نیکی اور نیک پسندی اور خیر و خیر پسندی اس وقت انتہائے خیر پر عروج کرگئی جب قدیم ایران کی ثقافت اسلام کے سعادت آفرین معارف و تعلیمات سے بہرہ مند ہوئی اور اسلام نے حقیقت پسند آنکھوں کو طبیعت و فطرت کی تبدیلی و تغیر سے باطنی انقلاب و اصلاح کی جانب متوجہ کردیا۔ قدیم زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور نوروز ہر سال کے دوران آنے والا وہ مقام یا وقت ہے جب سورج برج دلو کو چھوڑ کر برج حمل میں داخل ہوتا ہے اور اس لیے اس مقام یا مرحلے کو موسم بہار کا مقام اعتدال بھی کہا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں نوروز سخت موسم سرما کے بعد موسم بہار کی نوید ہے۔ آج کل ہم نیا سال سورج کے گرد زمین کاایک چکر مکمل ہونے پر مناتے ہیں۔ ماہر فلکیات کے لیے اب نوروز کے بالکل صحیح وقت کا تعین کرنابھی ممکن ہوگیا ہے لوگ جشن کے اس وقت پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے اور زور شور سے گاتے بجاتے ہیں۔ حکومتی دفاتر پانچ دن کے لیے بند رہتے ہیں اور لوگ دو ہفتے تک خاندان کے افراد اور دوستوں کے ساتھ تفریح کرتے ہیں اور دعوتیں اڑاتے ہیں۔ برآمد باد صبح و بوی نوروز بہ کام دوستان وبخت پیروز نوروز قدیم الایام سے ایران کی دو بڑے تہواروں میں سے ایک هے جبکہ دوسرا 16 مہر (8 اکتوبر) کو منایا جاتا تھا جس کا نام جشن "مہرگان " کہا جاتا تھا۔ آج کل مہرگان کا نام جشن زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ نوروز "پیشدادی" سلسلے کے چوتھے بادشاہ "جمشید" کے دور میں ظہور پذیر ہوا اور اسی کے دور میں ایک قومی رسم کی صورت اختیار کرگیا۔ مسعودی نے اپنی کتاب "التنبیہ و الاشراف" میں لکھا ہے: «ہرمز فروردین کی پہلی تاریخ (21 مارچ) کو دعوت عام دے کر لوگوں کی شکایات سنتا اور ان کے مسائل حل کرتا تھا اور اس روز کو اس نے نوروز کا نام دیا اور نوروز ایک روایت میں تبدیل ہوگیا»۔ حکیم ابوالقاسم فردوسی نوروز کے ظہور پذیر ہونے کی داستان نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "جب جمشید مملکت کے امور سے آسودہ خاطر ہوا "تخت کیانی" پر رونق افروز ہوا اور ملکی حکام اور لشکری امراء اس کے تخت کے گرد اکٹھے ہوئے ... جمشید نے اس روز کو جو فروردین کا پہلا دن تھا ـ نوروز قرار دیا اور جشن منایا"۔ بہ جمشید گوہر افشاندند مر آن روز را روز نو خواندند چنین روز فرخ از آن روزگار بماندہ از آن خسروان یادگار لوگوں نے جمشید پر گوہر افشانی کی اور اس روز کو نوروز کا نام دیا۔ یہ مبارک دن اسی دور سے بادشاہوں سے یادگار کے طور پر باقی ہے۔ پرانے وقتوں کے فارس میں جشن نوروز کا آغاز توپ داغ کر کیا جاتا تھا اور ریاست کا سربراہ قوم سے خطاب کیا کرتا تھا۔ ایران اور اکثر ایکو رکن ممالک میں یہ رواج اب بھی قائم ہے. روایات ہیں کہ نوروز ہی کے دن کائنات پہلی مرتبہ سورج طلوع ہوا تھا ، طوفان حضرت نوح (ع) ختم ہوا - ایران میں ان دنوں نوروز سے چند ہی روز قبل "جشن نیکوکاری = Charity Festival" کا اہتمام کیا جاتا ہے؛ اور ہمیں ان ایام میں سال کے دیگر ایام کی طرح، کبھی بھی محرومین اور محتاجوں کی غربت بھری زندگی فراموشی کے سپرد نہیں کرنی چاہیے اور ان کو امدادرسانی سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری ذاتی یا خاندانی خوشی ننگے پاؤں چلنے پر مجبور انسانوں کے مصائب و مسائل سے ہماری غفلت کا سبب بنے۔ آج کل جس تہوار کو نوروز کے نام سے منایا جاتا ہے اگرچہ کے اس کا آغاز ایرانی قدیم مذہب سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس زمانے میں اسکو بہار کے آغاز میں قومی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے نہ کسی مذہبی عید کے طور پر ۔ اسراف اور عیش پرستی، فخر فروشی اور تکبر سے اجتناب، صلۂ ارحام (اور اقرباء کے ساتھ نیکی کرنا) اور دوستوں سے ملاقات کرنا، کینہ اور نفرت کا ازالہ کرنا، والدین اور معمر افراد پر احسان کرنا، گذرے ہوئے سال کے دوران اپنی مادی اور معنوی کارکردگی کا محاسبہ (خود احتسابی) کرنا، آنے والے سال کے لئے منصوبہ بندی کرنا، بچوں کے ساتھ محبت و مہربانی کرنا، اور دور افتادہ یا قریبی علاقوں میں سفر کرنا اس عید کی بہترین روایات ہیں جن کی بدولت ہم نوروز کو حقیقی عید میں تبدیل کرسکتے ہیں اور یہ وہی حال ہے جس کو نوروز کی مختصر دعا میں "احسن الحال" کا نام دیا گیا ہے۔ شہر میں سیکیورٹی کا انتظام بھی بہتر بنایا جاتا ہے ۔ اس تہوار کا مذہب اور کسی عقیدے یا فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران جہاں اس تہوار کا آغاز ہوا وہاں اس وقت بھی تمام مذاہب مل کر نوروز کو قومی تہوار کے طور پر مناتے ہیں، ایران کے علاوہ دوسرے ملکوں جیسے افغانستان، پاکستان، ترکمانستان، تاجیکستان، ازبکستان، آذربائیجان میں بھی تمام مذاہب مل جل کر جشن نوروز کو روایتی طور پر مناتے ہیں اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بالکل اس تہوار کو نہیں منایا جاتا جبکہ تمام مکاتب فکر وہاں زندگی گزارتے ہیں جیسے بحرین ، کویت ، لبنان اور عراق وغیرہ . کمیونسٹ روس نے اقلیتوں اور مفتوح قوموں کو روسی بنانے کے لئے مقامی مذہبی اور ثقافتی تہواروں پر پابندی لگا رکھی تھی۔ اس قانون کی خلاف ورزی پر مقامی لوگوں کو سخت اور کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان تمام سختیوں اور پابندیوں کے باوجود نوروز کی اہمیت اور مقام لوگوں کے دلوں میں موجود رہا اور لوگ اس کو ہر صورت میں مناتے رہے۔ ہر خاندان انفرادی طور پر اس ہزاروں سال قدیم روایت و رواج کو مناتا رہا۔1991ء میں آذربائیجان کے آزادی حاصل کرتے ہی نوروز کی رونقیں بحال ہو گئیں اور اس دن کو قومی تعطیل قرار دیا گیا۔ آذربائیجان کے قومی ہیرو حیدر علی یو اس تہوار کو بہت اہمیت دیتے تھے اور نوروز کے تمام پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ یہ روایت آذربائیجان کی موجودہ قیادت نے بھی قائم رکھی ہوئی ہے۔ نوروز کا ایک اور دلچسپ رواج آگ پر سے کودنا ہے۔ آجکل یہ رواج کچھ زیادہ عام نہیں، زیادہ تر خاندان صرف موم بتیاں جلا لیتے ہیں یا لکڑی کی کچھ شاخوں کی مدد سےایک چھوٹا سا الاؤ جلا لیاجاتا ہے۔ یہ رواج قدیم فارس کی یادگار کے طور پر اب بھی رائج ہے۔یہ ایران اور وسطی ایشیاء کے ممالک کا قدیم ترین روائتی تہوار ہے۔ جس کا آغاز عہد زرتشت سے ہوا۔ یہ جشن ایرانی شمسی سال کی آخری بدھ کی رات کو منایا جاتاہے۔ نوروز بہار کی آمد کے ساتھ وابستہ ہے۔یہ وہ موسم ہوتا ہے جب زرعی سرگرمیاں زوروں پر ہوتی ہیں ۔ فطرت کا نیا دور شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کا آغازہوتا ہے۔ یہ وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی روایات اور رواج وابستہ ہیں۔ اصل دن سے قریباً ایک ماہ قبل تقریبات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یہ چار ہفتے دراصل چہار شنبے ہیں۔ ہر بدھ یا چہار شنبہ فطرت کے چار عناصر سے منسوب ہیں۔ ان کے نام مختلف جگہوں پر مختلف ہیں۔ ان چار بدھ یا چہار شنبوں کے بارے میں آذربائیجان کے علاقے شیروان میں دلچسپ کہانی مشہور ہے۔ چار چہار شنبوں میں سے پہلا ہوا کے لئے مخصوص ہے، دوسرا پانی ، تیسرا زمین اور چوتھا درختوں اور پودوں کے احیاء کے لئے مخصوص ہے۔ان چار مخصوص چہار شنبوں میں سے آخری یعنی ہوا کا چہار شنبہ سب سے اہم ہے کیونکہ اس دن سب سے اہم تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ تقریبات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوتی ہیں۔ یہ رسومات انسان کی فلاح و بہبود کے لئے ہوتی ہیں۔ ان کا مقصد گزشتہ سال کے مصائب اور تکالیف سے چھٹکارا پانا اور نئے سال کے ایسے مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔ آذربائیجان میں جشنِ نوروز کے سلسلے میں لوگ گھروں، چھتوں، گلیوں اور مکانوں کے شیڈز پر چھوٹی چھوٹی آگ جلاتے ہیں۔ آخری بدھ یعنی چہار شبنے کے دن آگ کے اوپر سے چھلانگ کا لگانا ہوتا ہے۔ اس کے لئے عمر اور جنس کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ یہ نوروزکی تقریبات کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔ سوسائٹی کے تمام افراد اس میں حصہ لیتے ہیں۔ جمپ لگانے کے لئے ضروری ہے کہ یا تو آدمی ایک ہی آگ کے او پر سے سات دفعہ گزرنے اور یا پھر آگ کی سات جگہوں کو پھلانگے۔ پرانے قدیم دور میں آگ کسی چھوٹے لڑکے سے لگوائی جاتی تھی اور ایسی آگ کو صحیح اور پاک سمجھا جاتا تھا۔چھٹیوں کے دنوں میں گھریلو صفائی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور کھانے بنائے جاتے ہیں۔ ان کھانوں کی بھی اپنی روایات ہیں۔ایران میں قدیم زمانے سے نوروز کے تیرہویں دن کو یوم فطرت کا نام دیا گیا ہے اور ایرانی عوام ہر سال دو اپریل کو یوم فطرت مناتے چلے آرہے ہیں۔اس روایت کے تحت ایرانی عوام اپنے گھروالوں اور بال بچوں کے ساتھ صبح سے شام تک سرسبز و شاداب وادیوں پارکوں اور قدرتی مناظر کے درمیان رہتے ہیں۔اس موقع پر تہران سمیت ایران بھر کے پارکوں، تفریحی مقامات اور قدرتی وادیوں میں لوگ اپنے اپنے بال بچوں اور گھر بھر کے افراد کے ساتھ پکنک منا رہے ہیں-بچے اور نوجوان پارکوں اور باغات میں کھلتے کودتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ بڑے بوڑھے حضرات قالین اور دریاں بچھائے ماضی کے قصے ایک دوسرے سے بیان کرکے لطف اندوز ہورہے ہیں۔اس موقع پر لوگ طرح طرح کے کھانے تیار کرتے ہیں اور پارکوں ، باغات اور قدرتی وادیوں کے درمیان دسترخوان بچھا کر ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ایران میں نو روز کا تیرہواں دن نوروز کی تعطیلات کا آخری دن ہے اور کل اتوار سے لوگ اپنے کام کاج پر واپس آ جائیں گے اور معمول کی زندگی پھر سے شروع ہوجائے گی۔ روایات کے متعلق پہلا دن موسم بہار کی علامت ہوتا ہے۔ دوسرا گرمی، تیسرا خزاں اور چوتھا سردی کے موسم کی نشاندہی کرتا ہے۔ نوروز کی تین دن کے لئے چھٹیاں ہوتی ہیں اور آذربائیجان میں یہ دن سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ بقول حافظ شیرازی جو کہ میرے پسندیدہ شاعر بھی ہیں ۔ | ||
Statistics View: 4,209 |
||