پاکستان ، ایران اور افغانستان سہ ملکی سربراہی اجلاس | ||
![]() | ||
پاکستان ، ایران اور افغانستان سہ ملکی سربراہی اجلاس معصومہ بتول ایوان صدر اسلام آباد میں 17 فروری سہ فریقی سربراہ اجلاس میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے سہ ملکی سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں نے جامع تعاون کیلئے فریم ورک تیار کرنے کے حوالے سے خطے میں امن، استحکام اور مشترکہ خوشحالی کیلئے دانشمندانہ اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے خاتمے پر اتفاق کیا ہے۔ تینوں ممالک نے اپنی سرزمین کو ایک دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تینوں ممالک نے اس خطے میں دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ، منشیات کی لعنت کے خلاف بھرپور تعاون، باہمی تجارت کے فروغ اور مشترکہ خوشحالی کے لئے دانشمندانہ اقدامات کرنے پر زور دیا۔ تینوں ممالک نےمشترکہ خوشحالی کیلئے مفید و مناسب اقدامات کرنے اور دہشت گردی کے خاتمہ، اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنے ممالک کی خود مختارانہ آزادی کے احترام کو یقینی بنانے ، انفراسٹرکچر، سڑک اور ریل کے روابط، ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر مکمل اتفاق کیا ۔ سہ فریقی سربراہ اجلاس، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری، ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے شرکت کی، کے اختتام پر ایک مشترکہ بیان میں تینوں ممالک نے اقتصادی خوشحالی کی امنگوں کے حصول کیلئے آپس میں تعاون میں اضافہ کے عزم کا اظہار کیا اور فیصلہ کیا کہ تیسرا سہ فریقی سربراہ اجلاس اس سال کے آخر میں کابل میں ہو گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں جن باتوں اور فیصلوں کو شامل کیا گیا وہ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ ان تینوں ملکوں کی صرف جغرافیائی سرحدیں ہی آپس میں نہیں ملتیں بلکہ ان کے مذہبی ، سیاسی، ثقافتی، تجارتی اور عوامی تعلقات اور روابط صدیوں سے قائم ہیں بالخصوص ایران تووہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور پاکستان کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی میں تعلقات کوفروغ دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اسی طرح افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے آر پار منقسم قبائل آباد ہیں جن کا صدیوں سے ایک دوسرے کی طرف آزادانہ طور پر آنا جانا ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو اس سہ فریقی اجلاس اور مشترکہ پریس کانفرنس میں تینوں ملکوں کے سربراہوں کے خیالات اور نظریات نہ صرف اپنے اپنے ملک بلکہ تینوں ملکوں کے عوام کے مفادات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور اس تعلق کا مرکز و محور محض مذہبی یا جغرافیائی تعلقات ہی نہیں بلکہ ان کا تعلق تمام شعبہ ہائے زندگی اور مفادات سے ہے۔ یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ سہ فریقی مذاکرات کے دوران تینوں سربراہوں نے نہایت مثبت اور تعمیری فکر و عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کو پیش نظر رکھا اور کسی ملک کی طرف سے دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا تاثر پیدا نہیں ہوا ۔تینوں ملکوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ خطے میں کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کا ہرگز موقع نہیں دیا جائے گا۔ کسی غیر ملکی طاقت کو کسی ملک کو غیر مستحکم کرنے کی بھی ہرگز اجازت نہیں دے جائے گی اور کوئی ایک ملک اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں دے گا۔ اس مشترکہ اعلامیہ کا بے لاگ تجزیہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ تینوں سربراہوں نے جو بھی فیصلے کیے وہ نہایت خوش آئند اور تینوں ملکوں کے وسیع تر مفادات سے مطابقت رکھتے ہیں اور ان پر موثر عمل درآمد سے ان ممالک کے معاشی استحکام، اقتصادی ترقی ، تینوں ملکوں میں تربیت یافتہ افرادی قوت میں اضافہ ان ملکوں کے عوام کی ترقی اور خوشحالی میں اضافہ کرے گا،اور علاقے میں امن و سلامتی کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے فیصلے کرنا ہر ملک کا اپنا حق ہے اور اسی بنیاد پر ہم شروع ہی سے اس بات پر زور دیتے چلے آرہے ہیں کہ اس خطے کے تین ممالک کی صرف جغرافیائی سرحدیں ہی نہیں ملتیں بلکہ مشترکہ مذہب سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں ان کے تعلقات صدیوں پر محیط ہیں اور یہی وہ پالیسی ہے جوتینوں ممالک کے لئے بہتر مستقبل کے دروازے کھول سکتی ہے، ایک دوسرے سے بہتر تعلقات کے قیام کے لئے اختلافات کو ختم کرنا، اقتصادی تعاون کو فروغ دینا اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں روابط کا قیام و استحکام نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کے قیام و استحکام میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے جمعرات کو ایوان صدر میں صدرمملکت آصف علی زرداری سے ون آن ون اور وفود کی سطح پر ملاقات کی جس میں خطے کی مجموعی صورتحال پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت ، توانائی ، سلامتی اور ٹریڈ سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے ، دہشتگردی کیخلاف جنگ ، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سمیت دیگر امور پر غور کیا گیا ۔ پاکستانی وفد میں وزیر دفاع چوہدری احمد مختار ، وزیر خارجہ حنا ربانی کھر ، وزیر داخلہ رحمن ملک وزیر ٹیکسٹائل مخدوم شہاب الدین ، وزیر اعظم کے مشیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین وزیر پانی و بجلی سید نوید قمر ، وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور جبکہ ایران کے وفد میں ایرانی وزیر خارجہ علی اکبرصالحی ، ایرانی صدر کے ایڈوائزر اسفند یار رحیم مشاعی ، نائب ایرانی صدر حمیدبیگی سمیت دیگر حکام بھی موجود تھے ۔ صدر آصف علی زرداری کاکہنا تھا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر یقینی عمل درآمد ہوگا اوراس کے لئے پاکستان کسی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنا تجارتی حجم پانچ ارب ڈالر سالانہ تک لے کر جائے گا جبکہ ہماری خواہش ہے کہ ایک ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے کی جلد تکمیل بھی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کے ساتھ گندم ،کھاد اور سیمنٹ سمیت دیگر اشیاء پر تجارت کو بڑھا سکتا ہے جبکہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنائے گا ۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی شعبوں میں فروغ بھی ضروری ہے جبکہ انہوں نے ایرانی ہم منصب کو تجویز دی ہے کہ پرانے فارسی لٹریچر کو اردو زبانوں میں ترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری نوجوان نسل کو دونوں ممالک کی تاریخی اور ثقافتی تعلقات کے بارے میں آگاہی ہوسکے ملاقات میں دونوں ممالک نے پاک افغان سرحد پر کڑی نگرانی کیلئے نیا بارڈر کنٹرول نظام قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔ جبکہ ایرانی صدر احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ پورے علاقے میں غیر ملکی مداخلت کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو گیس کی فراہمی دگنی کرنے اور 75کروڑ کی بجائے ڈیڑھ ارب مکعب فٹ کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ افغان صدر حامد کرزئی نے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے قابل عمل پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ تینوں سربراہوں نے علاقائی صورتحال کا جائزہ لیا اور اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنے اپنے ملک کی آزادی، سلامتی اور خود مختاری کویقینی بنانے پراتفاق کرتے ہوئے عوام کیلئے تحفظ سلامتی، اقتصادی خوشحالی، کے حصول کیلئے تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ اعلامیہ کے نکات تینوں ملکوں کے مشترکہ مفادات اور عوامی فلاح و بہبود کیلئے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں اور اعلان کردہ مسائل کے حل کیلئے مشترکہ تعاون بھی بلاشبہ تینوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے طور پر سڑک، ریل اور پل کے ذریعے ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی شعبوں میں تعاون پر مکمل اتفاق رائے بھی تینوں ملکوں کے مفادات سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ دریں اثناء پاکستان سے واپسی پر تہران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی صدر نے کہا ہے کہ علاقائی ممالک کو دوطرفہ تعاون کے فروغ کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو روکنے کیلئے علاقائی ممالک کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ایرانی صدر نے کہا کہ اس وقت خطے کے ممالک کو جن مسائل اور بحرانوں کا سامنا ہے وہ ان ممالک کی سرحدوں کے باہر سے مسلط کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کے خاتمے کیلئے علاقائی ممالک کو ایک دوسرے پر اعتماد اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ تینوں ملکوں کے سربراہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے۔ تینوں سربراہوں کا اس امر پر بھی مکمل اتفاق تھا کہ مشترکہ کاوشیں ہی خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں مدد دےسکتی ہیں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ان ملکوں کے سربراہوں نے تینوں ملکوں کے عوام اور حکومتوں کے مفادات کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے تمام معاملات پر مکمل اتفاق رائے کا اظہا کیا ۔اس کانفرنس کے فیصلے ہمیشہ تینوں ملکوں کے عوام کے دل میں امید کے نئے چراغ روشن کریں گے اب اس امید افزا عمل کو جاری رکھنا تینوں ملکوں کے عوام اور حکمرانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہ بات بھی ان ملکوں کی قیادت کے ذمہ ہے کہ وہ معمولی باتوں کو تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں اور دوستی کے باہمی رشتوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کا کسی قسم کا دباؤ قبول کیے بغیر ان کے ساتھ بھی علاقائی اورعالمی امن کے قیام و استحکام کے لئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ | ||
Statistics View: 1,930 |
||