2011ء ایک اجمالی جائزہ
ڈاکٹر سید عباس نقوی
گذشتہ سال اپنے واقعات اور تاریخی بہاؤ کے حوالے سے نہایت ہنگامہ خیز اور تبدیلیوں کا سال تھا۔ یہ تبدیلیاں اُس وقت انقلابی لہروں کی شکل اختیار کر گئیں جب تیونس کے پسماندہ اور بپھرے ہوئے عوام گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ گئے۔ پھر کیا تھا ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلاب کے تھپیڑوں نے شاہی محلات کے دروازوں پر دستک دینا شروع کر دی۔ تیونس کے آمر کو جب ان کے آقاؤں نے پناہ دینے سے انکار کر دیا تو سعودی شاہی خاندان نے اپنے دوست کو اپنی آغوش میں لے لیا۔ جیسے کسی زمانے میں مصر کے ڈکٹیٹر سادات نے ایران کے ٹھکرائے ہوئے بادشاہ کو پناہ دی تھی۔
تیونس کے عوام سے حوصلہ پا کر مصر کے عوام بھی بپھر گئے۔ قاہرہ کا میدان تحریر حریت پسندوں سے چھلکنے لگا۔ اسرائیل اور امریکہ کا پسندیدہ اور عوام کا دھتکارا ہوا بوڑھا آمر حسنی مبارک مصری عوام کی نظروں میں منفور ترین شخص قرار پایا۔ علاقے کے دیگر آمروں سمیت اس کے عالمی سرپرستوں نے اسے بچانے کی بہت کوشش کی، لیکن اب تاریخ اس کو مزید مہلت دینے کو تیار نہ تھی۔ اقتدار کے ڈولتے ہوئے سنگھاسن سے آخر وہ بھی لڑھک گیا۔ لیبیا کا آمر بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
یمن میں طوفانی ہوائیں ابھی تھمی نہیں۔ بحرین کے عوام اپنی انقلاب پسندی کی بھاری قیمتیں ابھی ادا کر رہے ہیں۔ مراکش کے بادشاہ کو آخر کار اپنے بعض اختیارات سے دستبردار ہونا پڑا ہے، اسلام پسند جماعت نے وہاں انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی ہے۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے اپنی تجوری کا کچھ منہ کھولا ہے، تاکہ انقلابی لہروں کے آگے کچھ بند باندھا جا سکے۔ اردن کے عوام کے دلوں میں بھی انقلاب کروٹیں لے رہا ہے۔ عراق سے رسوائیاں سمیٹ کر امریکی اور برطانوی افواج نکل چکی ہیں۔ افغانستان میں ناکامی امریکی غرور پر خندہ زن ہے شام میں استعماری اور رجعت پسند قوتیں اپنی ہاری ہوئی جنگ کے آخری مورچے پر قسمت آزمائی کر رہی ہیں تاکہ اسرائیل کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑا رہنے والا یہ مورچہ کسی صورت جانباز مجاہدوں کے قبضے سے چھڑوایا جا سکے۔ قاہرہ کا میدان تحریر پھیل کر وال اسٹریٹ آکوپیشن کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ میدان تحریر ہی کو انگریزی میں فریڈم اسکوئر کہتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کی علامتوں کے چراغ اک اک کر کے بجھ رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے بینک دیوالیہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اٹلی اور یونان کے داخلی قرضے تاریخی حدود کو پار کر چکے ہیں۔ ایسے میں ہم 2012ء میں داخل ہو رہے ہیں۔
2011ء پاکستان کے لیے اس لئے بھی طویل لگا کہ مسلسل مشکلات کا سامنا رہا جن میں خاص طور پر سیلاب، لوڈ شیڈنگ، ریلوے کی ابتری، سوئی گیس کا بحران، ، مہنگائی اور غربت میں بے پناہ اضافہ، بے روزگاری کا پھیلتا ہوا طوفان جس نے وارداتوں اور جرائم میں اضافہ کیا
اغواء برائے تاوان کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ، معصوم بچیوں بچوں سے زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا، چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں پولیس ملوث ہونے لگی، تھانے عقوبت خانے بن کر صوبائی حکومتوں کا منہ چڑانے لگے،بلوچستان میں بغاوت کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں اور دہائیوں سے آباد غیر بلوچی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے لگے، کئی ماہ تک کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا حشر برپا رہا اور ان مظالم کی چیخ و پکار کے سائے میں خفیہ ایجنسیاں اپنے کام میں مصروف رہیں اور لوگوں کو اٹھا کر گم کرتی رہیں۔
2011ء جاتے جاتے ہمیں کچھ خوشخبریاں بھی دے گیا اور کچھ حسین خواب بھی دکھا گیا جنہوں نے بہتر مستقبل کی امید دلائی۔ وطن کے چوبیس جوانوں کو شہید کروانے کے بعد حکومت نے نیٹو کی سپلائی بند کر دی۔ عوام کو حکومت کی یہ مزاحمت اچھی لگی اور انہیں یوں محسوس ہوا جیسے خودداری اور قومی حمیت کی رمق ابھی باقی ہے۔ حکومت پاکستان کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر امریکہ نے ڈرون حملے بند کر دیئے ہیں لیکن یہ خطرہ بہرحال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کہیں یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ نہ ہو۔
تاریخ کے لیے کسی زیرو پوائنٹ کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔ ہر واقعے کے پیچھے واقعات کی ایک چین اور زنجیر ہوتی ہے۔
جس رفتار سے اور جس وسعت سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، وہ معاشرے کے حساب دانوں کو چونکاتی رہیں گی۔ ۔ افغانستان میں امریکہ کی آمد کے تقریباً دس سال بعد پاکستان کی فوج نے امریکہ کے بارے میں اپنی حکمت عملی میں جس تبدیلی کا عملی اظہار کیا ہے اسے پاکستان میں ایک پاپولر فیصلہ قرار دیا جائے تو بالکل بجا ہو گا۔ کھلے بندوں مطالبہ کر کے پاکستان نے امریکہ سے شمسی ائیر بیس جس طرح خالی کروایا ہے، اسے بھی ایک بڑا فیصلہ قرار دینا پڑے گا۔ اسی طرح اب کی مرتبہ نیٹو کو زمینی سپلائی کی بندش کی مدت گذشتہ بندش کی نسبت خاصی طویل ہو گئی ہے اور دفاعی وزارتی کمیٹی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں فی الحال اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکومت اور فوج کے مابین محاذ آرائی شروع نہ ہوئی ہوتی تو اس حوالے سے مزید پیشرفت بھی ہو سکتی تھی
تاہم جیسی تبدیلیاں عالم عرب میں دکھائی دے رہی ہیں ویسی پاکستان میں دکھائی نہ دینے کی متعدد اہم وجوہات ہیں، جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے
(1) عرب دنیا میں آمریتوں کا جیسا طویل سلسلہ رہا ہے نیز بعض ملکوں میں خاندانی بادشاہتیں قائم ہیں، پاکستان میں ویسی صورتحال درپیش نہیں ہے۔ پاکستان میں مختلف وقفوں سے منتخب جمہوری حکومتیں قائم رہی ہیں اور آمریتوں کا دورانیہ عرب دنیا کی نسبت کہیں کم رہا ہے۔
(2) عرب دنیا کے بیشتر حکمرانوں نے امریکہ اور اسرائیل کے حوالے سے جو طرزِ عمل اختیار کر رکھا ہے اس کی وجہ سے عوام میں ان کی عدم مقبولیت زیادہ ہو گئی، جبکہ پاکستان کی حکومتوں نے بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا، ویسے بھی عرب حکمرانوں کو جس طرح سے فلسطین کے مسئلے کا سامنا ہے، پاکستان کو نہیں ہے۔
(3) پاکستان کی کسی بھی حکومت نے امریکہ کی شدید مخالفت کے باوجود جوہری توانائی کے معاملے میں اور بعض دیگر امور میں امریکہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔
(4) پاکستان کا معاشرہ بالعموم موجودہ عرب معاشروں کی نسبت کھلاہے اور ناجائز پابندیوں کی شکایت کے باوجود اظہار رائے کی آزادی نسبتاً زیادہ رہی ہے۔ اس لیے حکمران طبقوں کے خلاف ویسا ردعمل منظم نہیں ہو سکا، جیسا عرب دنیا میں ہوا ہے۔
(5) پاکستان کا میڈیا پاکستان سے باہر کی خبریں بہت کم نشر کرتا ہے۔ اخبارات میں غیرملکی خبروں کا حصہّ اول تو کم ہوتا ہے، ثانیاً غیرنمایاں۔ الیکٹرانک میڈیا کا بھی یہی حال ہے۔ مشرق وسطٰی میں اسلامی بیداری یا بہارِ عرب ہو یا وال اسڑیٹ قبضہ کی تحریک، پاکستانی میڈیا سے وابستہ عوام کو اس کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ لہٰذا ان کے اثرات عوام پر کیونکر ہو سکتے ہیں۔
ان سب کے باوجود عالمی استعمار کے خلاف پاکستانی عوام کا موقف دنیا میں تبدیلیوں کے لیے اٹھنے والے عوام سے ہم آہنگ ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والے تغیرات کی رفتار کچھ مزید تیز ہوئی تو پاکستانی عوام کو ان کا ساتھ دینے میں کوئی فکری اور نظریاتی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ایسی قیادت کا منظر عام پر نہ ہونا ہے جو عالمی سطح کا شعور رکھتی ہو اور ان تقاضوں کی روشنی میں رائے عامہ کو منظم کر سکتی ہو، لیکن بظاہر ایسی قیادت مصر اور نیویارک میں بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں نئے انتخابات نزدیک ہیں اور عوام ایک ایسی جمہوری حکومت کا خواب ضرور دیکھ رہے ہیں جو عدل اجتماعی کے اصولوں کے مطابق اس ملک کو چلائے۔ کرپشن، بدانتظامی، نااہلی اور غیرملکی مداخلت کے خاتمے کے ایجنڈے پر پاکستان کے عوام متفق دکھائی دیتے ہیں۔ اس ایجنڈے پر اگر یہ اتفاق رائے باقی رہے تو اس ملک میں بھی ایک بڑی تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔ البتہ اس تبدیلی کی رفتار اور رخ کا تعین افغانستان میں موجود امریکی فوج کے مستقبل کے فیصلوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔
بہرحال آج جب ہم نئے عیسوی سال میں داخل ہو رہے ہیں تو تاریخ ایک طویل سفر طے کر کے ایک خاص مرحلے میں ہے۔ جیسے پیچھے سے آتی ہوئی دریا کی موجیں ہمارے سامنے سے آگے کی طرف گزر جاتی ہیں اسی طرح تاریخ گذشتہ سال کی روانی اور لہروں کے ساتھ اس زمین کے باسیوں کو اگلے سال کے لمحوں اور گھڑیوں کے حوالے کرنے لگی ہے۔اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔