ایران اور برّصغیر کے پرانےتعلّقات | ||
ایران اور برّصغیر کے پرانےتعلّقات ڈاکٹر علی بیات برّاعظم ایشیا کے جغرافیائی نقشے پر ایک نظر ڈالنے سے ایسا کہنا شاید بہتر ہو کہ ایران اور برّصغیر قریبی ہمسایہ ممالک ہیں، جن کی کھڑکیاں آپس کے گھر میں کھل جاتی ہیں۔ اگر تھوڑی سی ہَوا ایک گھر میں چلے ، اس کا جھونکا، پڑوس کے صحن میں بھی محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے 14صدی پہلے جب دینِ مبین اسلام نے اپنا فاتحانہ قدم ایران میں جمایا، تو تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں کا پہلا گروپ، محمدبن قاسم کی سپہ سالاری میں افغانستان کے راستے قدیم ہندوستان کے شمال میں داخل ہوا۔ اس سے بہت پہلے عربوں اور جنوبی ہندوستانیوں کے تجارتی تعلقات زمانۂ ماقبل تاریخ سے برقرار تھے۔ عرب تاجر جنوب ہند کے ساحل تک آتے تھے اور اس خطے کے تجارتی اموال اور پیداوار کو بحیرۂ عرب، خلیج فارس اور خلیج عدن کے راستے اپنے ممالک میں لے جاتے تھے۔ ظہور اسلام سے، شمالی علاقوں کے ساتھ نئے روابط کا باب کھلا، جو صرف تجارتی اور اقتصادی مفادات کی بنابر نہیں تھا۔ بلکہ اس خطے میں اسلام کی آمد نے ایک انقلاب عظیم کے طور پر ، زندگی کے ہر شعبے کو متأثر کیا۔ بہت جلد مسلمان لوگ، جو حملہ آور فوجیوں میں شامل تھےیہاں کے ماحول کو زندگی کے لیے مناسب سمجھ کر ایران اور دوسرے ممالک سے یہیں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ وہ ہندوستان کے ہر گوشے میں بسنے لگے ۔ دین مبین اسلام کے عالمگیر پیغام نے ، جو تمام نوع انسانی کی برابری اور برادری کا سبق تھا ، ہندوستانی عوام و خواص میں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیا۔ محمد بن قاسم کےزمانے میں اور اس کی واپسی کے بعد ملتان کے علاقے تک ایک اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی۔ افغانستان کے راستے سے محمود غزنوی نے کئی بار ہندوستان پر حملہ کیا۔ اس نے 1005ء میں ملتان کو فتح کیا لاہور اور اس کے مضافات میں ایک غزنوی حکومت وجود میں آئی۔ محمود غزنوی بظاہر ایک ترک سپہ سالار تھا، لیکن اس کی فکر اور سوچ ایرانی تھی۔ اس کی حکومت کے تمام امور ایرانی وزراء و امراءکے ہاتھوں میں تھے۔ البتہ ہندوستان میں ایک اسلامی حکومت کا با قاعدہ آغاز سلطان محمد غوری کی آمد سے ہوا۔اس نے پرتھوی راج کو شکست دے کر دہلی اور اجمیر کو اپنی اسلامی حکومت میں شامل کردیا اور قطبالدین ایبک کو اپنا جانشین مقرر کرکے غزنہ کا سفر اختیار کیا۔ مغلوں کی سلطنت قائم ہونے تک، کم از کم پانچ خاندانوں نے مختلف عرصے میں ہندوستان میں اسلامی حکومتیں قائم کیں۔ 1857ء تک، برائے نام ایک اسلامی حکومت دہلی میں موجود رہی۔ اس سال، انگریز قوم نے ، اپنی منحوس سیاست کی مدد سے باقاعدہ طور پر اس خطے پر اپنا قبضہ جمالیا ۔ لیکن اس استعماری طاقت کا سورج اس قلمرو میں بہت جلد ہندوستانی لوگوں کی سالہا سال جدّوجہد سے، ڈوب گیا اور 1947 ء میں ہندوستان کی آزادی سے نہ تنہا یہ خطہ آزاد ہوا، بلکہ دو اسلامی ممالک، پہلا اسلامی جمہوریہ پاکستان اور کچھ عرصے بعد، بنگلادیش بھی نقشۂ عالم میں ظہور پذیر ہوئے۔ ان حکومتوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ہمیشہ سرکاری زبان فارسی رہی۔ فارسی ایرانیوں کی زبان تھی تو اس طرح کہنا مناسب ہے کہ اسلامی دور حکومت میں ،ہندوستانی لوگوں پر جسمانی حکومت ترکوں اور مغلوں کی تھی، لیکن فکری و ذہنی حکومت، اسلامی-ایرانی تھی۔ایران سے بہت سے عالم اور دانشور اس خطے میں وارد ہوئے۔ یہی نہیں خود ہندوستانی علماء اور دانشوروں نے فارسی میں طبعآزمائیاں کیں۔ ان میں مقامی مسلمان بھی شامل تھے اور ہندو لوگ بھی۔ سب اس زبان میں بات کرنےاور ادبی فن پارے کی تخلیق کو اپنی لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ یوں فارسی کا ایک بہت بڑا اور وسیع مرکز ہندوستان میں وجود میں آیا، جن کے اثرات اب تک باقی ہیں اور اس وجہ سے دشمنوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود، پھر بھی برّصغیر کے عوام، حکومتوں اور ایرانی عوام و حکومت میں ایک اٹوٹ رشتہ کے طور پر باہمی نزدیکی کا ایک بہت مضبوط ذریعہ ہے۔ اسلامی ایرانی تہذیب نے ہندوستانیوں کے مذہب، زبان اور صنعت کو بے حد متأثر کیا۔ مقامی ہندوستانیوں کے دل و دماغ اور روحانی خصائص میں اس وجہ سے بہت کچھ فرق آگیا۔ہندو مت میں اگر ذات پات اور نسلی و قومی فرق ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا جاتاتھا، اسلام جو کہ مساوات اور برابرای کا دین تھا، اس نے تمام ہندوستانی عوام کے دل میں اسی نعرے کی وجہ سے اپنا گھر بنالیا۔ مختلف اور متفرق قوم اور قبیلے متحد ہو کر ، توحید کے علم کے سائے میں اکٹھے ہوئے اور اس طرح امتیاز رنگ و بو مٹ گیا۔ اسلام اور عربی تہذیب سے متأثر ہوکر ایرانی تہذیب میں بھی بڑے تبدیلیاں آگئی تھیں۔ مغرب کے علمی مراکز سے مختلف علوم کا اسلامی دور میں ترجمہ ہواتھا۔ علم طب، نجوم، صنعت کے مختلف شعبے، علم نباتات و معدنیات و غیرہ کے سیکھنے سکھانے اور فروغ میں ایرانیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ ہندوستان میں اسلامی حکومت کے امراء و شرفاء میں اکثر ایرانی بھی شامل تھے۔انھوں نے ہندوستانیوں کو اپنے علم سے آگاہ کیا۔ ہندی تہذیب و فنون میں ، غرض زندگی کے ہر شعبے میں، اسلامی- ایرانی تہذیب کی جھلکیاں جلوہ افروز ہیں۔ اسلامی طرز تعمیرنے ہندوستانیوں کی عمارات اور گھروں کی شکلیں بدل ڈاالیں۔ جابجا مسجدیں اور امام باڑے بنائے گئے۔ مسلمانوں کے گھر ضرور اس تہذیب سے آراستہ تھے۔ورود اسلام سے اب تک اگر چہ مختلف زمانوں میں اسلامی طرز تعمیر نے مختلف شکلیں اختیار کیں، لیکن ان سب اختلافات کے باوجود، اسلامی۔ایرانی طرز تعمیر میں ایک تسلسل پایا جاتاہے۔ ہندوستان میں ایران سے آئے ہوئے فنکاروں کے ذریعے فنوں مصوری، موسیقی، خطاطی و غیرہ نے، حیرت کن حدّتک ترقی کی۔ | ||
Statistics View: 2,361 |
||