انقلابات ایران، فرانس اور روس کا تقابل | ||
انقلابات ایران، فرانس اور روس کا تقابل آنا حمیدی مشابہ حوادث کے تقابل سے ہمیں ان کو سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔ تاریخ انسانی میں بہت سے انقلابات رونما ہوۓ اور ممکن ہے کہ ان انقلابات کے درمیان بہت مماثلت پائی جاتی ہو ۔ کسی بھی انقلاب کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور یہ بات روس میں آنے والے انقلاب کے بعد مغربی محققین کی سمجھ میں آئی جب انہوں نے مختلف انقلابوں کے درمیان پائی جانے والی مشترک باتوں پر غور کرنا شروع کیا ۔ اس مکتبہ فکر کے لوگوں نے یہ معلوم کیا کہ ماضی میں رونما ہونے والے انقلابات میں بہت سے مشترکہ طور پر وجود آنے والے حوادث قدرتی ہیں جن کی حقیقت سے نہ تو انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے رونما ہونے سے بچا جا سکتا ہے ۔ "کرین برینتون" اور "ادوار دبتی" اس مکتب کے اہم مصنفین میں سے ہیں۔ لیکن انقلاب اسلامی نے اس مکتب کے نظریات کو بالکل مٹا کر رکھ دیا ۔ یہ اور بات ہے کہ اسلامی انقلاب اور ماضی کے مغربی انقلابات میں بہت سی باتیں مشترک ضرور تھیں لیکن ان کے سیاسی اور سماجی حالات کچھ مختلف تھے ۔ ہم نے روس اور فرانس میں آنے والے انقلابات کو اسلامی جمہوریہ ایران کے انقلاب کے ساتھ تقابلی جائزے کے لیے اس لیے انتخاب کیا ہے کیونکہ ان کے نظریات الگ ہیں ۔ وہ مشرقی اور مغربی نظام کی نمایندگی کرتے ہیں اور انقلاب اسلامی نے مذہبی اغراض کو مدنظر رکھ کر وعدہ کیا تھا کہ مستضعفین کی حاکمیت کو برقرار کرے گا۔ انقلاب فرانس میں سیاسی شمولیت کی سطح : دولتمندوں کے کچھ لوگوں کے علاوہ اور لوگوں نے اس میں حصّہ نہ لیا تھا اور ان کا دائرہ فعالیت صرف پیرس تک محدود تھا۔ انقلاب روس میں بھی صرف فیکٹری کے مزدور اور فوجیوں کی محدود تعداد نے تعاون کیا تھا۔ اور صرف مسکو والوں نے اس میں شمولیت کی تھی۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران میں سارے لوگوں نے مزدوروں سے لے کر ملازم، ماہرین تعلیم، تاجر اور روحانیوں تک ملک کے سارے حصّوں میں اور زیادہ تر شہروں میں حصّہ لیا تھا۔ سو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب ایران کی خصوصیات میں سے وسیع پیمانے پر عوام کی شرکت دوسرے انقلابات کے مقابلے میں کافی نمایاں ہے۔ انقلاب فرانس میں انقلاب کے اصلی قائد نے اچانک اس قیادت کو مان لیا۔ انقلاب روس میں بھی فروری 1917ء میں کوئی نام قیادت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے اور اکتوبر 1917 ءمیں لنین، تروتسکی وغیرہ دیکھے جاتے ہیں لیکن عام لوگ انہیں نہیں جانتے تھے۔ انقلاب اسلامی ایران کے قائد کو سارے ایرانی اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ انقلاب کے طراح، معمار اور منیجر تھے، جو انقلاب سے پہلے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی عناوین سے پہچانے جاتے تھے۔ انقلاب فرانس کا نظریہ لیبرالیزم نظریہ پر مبنی ہے۔ اگرچہ یہ نظریہ انقلاب کی کامیابی میں دخل انداز نہیں تھا لیکن آنے والے نظام کی تشکیل میں اس کا بڑا حصّہ تھا۔ اگرچہ لیبرالزم نے معاشی اور سیاسی اقدار کے بڑھانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی لیکن اخلاقی قدروں کی ترقی میں شکست مان لی تھی۔ روس میں انقلاب کی بنیاد مارکسیسم کے نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ لیکن انقلاب اسلامی ایران نہ انقلاب فرانس کی طرح صرف آزادی کے حصول کے لیے ، نہ انقلاب روس کی طرح مزدروں کا انقلاب تھا بلکہ انقلاب اسلامی میں اسلامی نظریے پر تاکید کی گئی ہے کہ آخر الامر نظام بادشاہی کے سقوط پر منتج ہوا۔ انقلاب اسلامی میں آزادی کا مفہوم مغربی آزادی سے بالکل الگ ہے۔ اسلام میں انسان آزاد ہے لیکن اس آزادی کا مفہوم لاقیدی تو نہیں بلکہ اس کا مطلب وہی مختار ہوناہے۔ اس مکتب میں انسان وہ موجود ہے جو اپنے آپ کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ حامد الگار نے اسی طرح لکھا ہے: انقلاب ایران اور انقلاب روس اور انقلاب فرانس کے مقابلے میں سب سے اہم فرق اس کی مذہبی جڑ ہے جو دوسرے انقلابوں میں موجود نہیں۔ ایران میں مذہب انقلاب کی سب سے اہم وجہ ہوتی ہے اور انقلاب کی آگ مسجدوں میں سے بڑھائی گئی اور آخر الامر انقلاب اسلامی کی کامیابی پر منتج ہوا۔ حامد الگار نے اور جگہ کہا ہے: انقلاب اسلامی ایران سارے انقلابوں کے خلاف اسلامی میراث کے تداوم کا ایک اہم حصّہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس میراث کا تعلق سترھویں صدی عیسوی کا ہے جب اسلام، ایران تک پہنچ گیا۔ جن چیزوں نے انقلاب اسلامی ایران کو دوسرے انقلابوں سے متفاوت بنایا ہے یہی گہری جڑیں ہیں کہ اس انقلاب کی تاریخ ماضی میں بھی موجود ہے ۔ برجینسکی کہتے تھے: سیکولرازم جو دنیا کے مغربی حصّے پر حکمرانی کرتا ہے اپنے اندر مغربی ثقافت کی تباہی کو پالتا ہے اسی لیے جو کچھ امریکہ کی تباہی کا باعث بنا ہے یہی سیکولرازم ہے۔ انقلاب اسلامی کا مقصد ایک انوکھی بات ہے چونکہ سارے انقلابوں کا مقصد یہ تھا کہ مادی لحاظ سے ایک اچھا معاشرہ لوگوں کے لیے بنائیں اور ان کا مقصد زیادہ مال پیدا کرنا اور اس مال کو لوگوں کے درمیان بانٹنا ہے لیکن انقلاب ایران کے اغراض و مقاصد ان باتوں سے آگے ہیں اور یہ ھدف اللہ کے نظام اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے۔ مجموعی طور پر انقلاب اسلامی کے اہداف: 1۔ اسلامی احکام کو پھر سے زندہ کرنا اور ان پر عمل کرنا 2۔ سماجی انصاف کا قیام 3۔ اسلام کے سیاسی نظام کا قیام 4۔ سماج کی علمی و فرہنگی تقویت احمد ہوبر کہتے ہیں: تمام دوسرے انقلاب ایک انسانی نظام کو زمین پر قائم کرنا چاہتے تھے مثلا ژان ژاک روسو کے نظام یا لنین کے نظام کو جبکہ انقلاب اسلامی اللہ کے نظام کو زمین پر قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے خیال میں انقلاب اسلامی اپنے راستے کو دنیاۓ اسلام کی طرف کھولے گا اور غیر اسلام کی دنیا پر بھی اثر مرتب کرے گا۔ امام خمینی (رح) نے فرمایا: ہمارا انقلاب اللہ اور معنویات پر انحصار کرتا ہے وہ لوگ جو ہم سے متفق ہیں وہ ہیں جو توحیدی راستے سے متفق ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران اور انقلاب روس اور فرانس کے درمیان ایک اور اختلاف یہ ہے کہ انقلاب فرانس ایک لبرل بورژوازی انقلاب ہے ان کے نتائج میں سے بادشاہت کا الٹ اور ایک پارلیمانی جمہوری کا قیام تھا اور انقلاب روس ایک اشتراکی انقلاب تھا ان کے نتائج میں سے تھزاری حکومت کا الٹ اور آخر الامر اشتراکی نظام کا غلبہ تھا لیکن انقلاب اسلامی ایک مذہبی انقلاب ہے اور اس نے اپنے آپ کو استبدادی حکومت کو مکمل طور پر الٹنے تک محدود نہیں کیا اور درحقیقت دنیا کے انقلابوں کی ثقافت میں کوئی تبدیلی لائی۔ انقلاب اسلامی نے بادشاہی نظام کا خاتمہ کرکے اسلامی حکومت کو قائم کیا اسی ضد سامراجی ماہیت کی وجہ سے پہلے ہی سے بڑی طاقتوں کی دشمنی اس کے سامنے تھی۔ مغربی لبرل کے انقلابوں میں آزادی و عدالت : افراد کی آزادی، انفرادی آزادی اور سماجی انصاف کی قربانی کی قیمت پر زیر بحث آتی ہے۔ لیکن اسلامی سیاسی نظام میں سماجی انصاف فردی آزادی کے ساتھ ساتھ متناسب طور پر جہاں تک ممکن ہو یکسانیت کے ساتھ ساتھ زیر بحث آتا ہے۔ اسلام لبرل آزادی کو نفی کرتا ہے چونکہ بے انصافی تک پہنچتی ہے یہ آزادی اس یکسانیت کو بھی نہیں مانتا جو فرد کی خصوصیات اور قابلیتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور جبری طور پر ہو۔ نہرو کہتا ہے: اسلامی یکسانیت کی بات نے ہندؤں کے ذہنوں پر خاص طور پر غریب ہندو لوگوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں چونکہ اسلام نے امتیازی نسل کو مٹا دیا ہے اور قوموں کے درمیان انصاف اور مساوات کی بنیاد پر اچھے تعلقات قائم کیے ہیں ۔ آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ انقلاب اسلامی کی ان نمایاں خصوصیات نے دنیا کے بہت سے لوگوں کی توجہ (خاص طور پر پڑھے لکھے لوگ) اپنے آپ کی طرف دلائی ہے ۔ انقلاب اسلامی ، انقلاب فرانس کے ڈیموکریٹک پروگراموں کو انقلاب روس کے اشتراکی پروگراموں کے ساتھ مطابق عمل کرنے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ اس لیے آیا تھا تاکہ ایسا ماحول مہیا کرے جو نئے خیالات کی ترقی و خوشحالی کے لئے موزوں ہو اور بیسویں صدی کے آخری عشروں کی تبدیلیوں سے مطابقت رکھے اور اس کی کوشش ہو گی کہ مکمل اور زندہ مکتب اسلامی کے اصولوں پر باقی رہے۔
| ||
Statistics View: 2,384 |
||