اسلامی انقلاب کی کامیابی | ||
اسلامی انقلاب کی کامیابی ڈاکٹر محمد کیومرثی عشرۂ فجر کے پہلے دن یعنی 11 فروری سن 1979 ءمطابق 12 بہمن 1357 ھ ش کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کئی سال جلا وطنی کے بعد ایران واپس آئے ۔ آپ کی وطن واپسی متعدد برکات کا موجب بنی جن میں سے ایک یہ ہےکہ اسلامی بیداری میں فروغ آیا۔ حضرت امام خمینی (رح) کی تعلیمات کے نتیجے میں اسلامی بیداری میں تیزی پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ عالمی سطح تک پھیل گیا ۔اسلامی بیداری کی تاریخ تقریبا ایک سو سال پرانی ہے ۔مسلمانوں کے درمیان مختلف رجحانات کے باوجود اسلامی بیداری تاریخ کو ایک ہی پیغام دیتی ہے اور وہ ہے اسلامی تعلیمات کے سائے میں عزت ، سربلندی اور خود مختاری کی طرف بازگشت کا پیغام ۔ تقریبا ایک صدی قبل عالم اسلام کے دانشوروں کے بہت چھوٹے گروہوں میں اسلامی بیداری پیدا ہوئی ۔ آج ساری امت اسلامیہ تک اس کا دائرہ پھیل چکا ہے ۔ عصر حاضر میں ساری دنیا میں سیاسی بیداری کا نیا دور شروع ہو چکا ہے اسلامی دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ایسا ہوگا جہاں مثبت تبدیلیاں دکھائی نہ دیتی ہوں اسلامی دنیا کے خلاف یورپی ممالک خصوصا امریکہ کی دھمکیاں در حقیقت دنیا کے مختلف خطوں میں پیدا شدہ اسی بیداری کا ردعمل اور اس بیداری پر لاحق ان ممالک کی تشویش کا نتیجہ ہیں۔ آگہی و معرفت پر مبنی بیداری بہتر زندگی کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور یہ بہتر زندگی دینی تعلیمات کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے ۔ خدا تعالیٰ اور پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات انسان کو زندہ اور سعادت مند بناتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی بیداری کے معنی اس دین کے احیاء کے ہیں جو انسان کو خودمختاری ، عدالت ،آزادی اور دوسری گرانقدر اقدار سے ہمکنار کرتا ہے ۔ قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سمیت بہت سے مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ عصر حاضر میں دینی حیات کی تجدید کا آغاز ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے ہوا ہے ۔ آسٹریا میں رہائش پذیر مسلمان دانشور محمد حسین کہتے ہیں کہ اگر عصر حاضر میں دینی تشخص کے احیاء کے لئے کوئی تاریخ مقرر کی جائے تو وہ 1979 ء کا سال ہوگا ۔یعنی جس سال ایران میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور تمام ادیان کی تعلیمات کے سلسلے میں عظیم تحریکوں کا باعث بنا انقلاب اسلامی نے دنیا میں دین فکر کا احیاء کیا ہے ۔بی بی سی نے اکیسویں صدی کے آغاز کی مناسبت سے ایک ڈاکومنٹری نشر کی جس میں دینی فکر کے احیاء کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (رح) کے عظیم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اسلامی انقلاب صرف ایرانی عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ادیان کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ساری دنیا میں کروڑوں لوگوں میں مذہب کا رجحان پیدا ہوا دنیا بھر کے عیسائیوں ، یہودیوں اور حتی ہندوؤں نے اپنے اپنے دین و مذہب کا رخ کیا ۔ ساٹھ سال قبل 1947 ء میں برطانیہ کے معروف مورخ آرنولڈ ٹوین بی نے اپنی کتاب تہذیب آزمائش کی کسوٹی پر میں لکھا تھا کہ اسلام پسندی کا رجحان ختم ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود یہ یاد رکھنا چاہیےکہ اگر دنیا کے مستضعف یورپ کے تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے یورپ مخالف قیادت کا مطالبہ کردیا تو اسلام پسندی کا رجحان پھر سے زندہ ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک انقلابی اسلام سامنے آجائے اور ایک بار پھر وہ اپنا تاریخی کردار ادا کرے ۔ ٹوین بی کی پیش گوئی انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کی صورت میں درست ثابت ہوئی ۔ یہ انقلاب عوامی حمایت اللہ اکبر کے نعروں اور خالص اسلامی اقدار کی جانب بازگشت کے ذریعے تمام بڑی طاقتوں کے مقابلے میں ڈٹ گیا۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد انقلاب سے متاثر ہونے والے لبنان کے باایمان اور غیرت مند لبنانی جوانوں نے لبنان میں امریکہ اور فرانس جیسی بڑی طاقتوں کوگھٹنے ٹیکوا دیئے ۔ اہم بات یہ کہ حزب اللہ نے بہت کم جنگی سازوسامان کے ساتھ صیہونی حکومت کو شکست دی اور 33 دنوں کی مزاحمت و استقامت کے ساتھ ایک بڑے دشمن پر فتح حاصل کی ۔آج افغانستان برطانیہ اور روس کو نکالنے کے بعد اب امریکہ کا مقابلہ کررہا ہے ۔ترکی ، الجزائر اور دوسرے اسلامی ممالک میں دوسری ہر آواز سے زیادہ اسلام پسندی کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ مقبوضہ فلسطین میں انتفاضہ نے صیہونی فوج کو شدید مشکلات میں مبتلاء کردیا ہے ۔ یورپی مبصرین کا کہنا ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری دکھائی دیتی ہے اور یہ ممالک انقلاب کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ بعض مبصرین اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ امریکہ نے مسلمانوں کی بیداری پر ضرب لگانے اور اس کی روک تھام کرنے کے لئے عراق پر قبضہ کیا ہے ۔ گذشتہ صدی میں سید جمال الدین اسدآبادی ، سید قطب اور حسن البناء جیسے مصلحین نے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی لیکن جس چیز سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔وہ امت اسلامیہ کی بیداری کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (رح) کا کردار ہے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام خمینی (رح) دنیا میں عظیم اسلامی تحریک کے علمبردار ہیں ۔ امریکی مسلمان دانشور پروفیسر حمید مولانا ،حضرت امام خمینی (رح) کے اس کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپ میں حالیہ صدیوں میں عالم اسلام میں صدر اسلام کے بعد کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی جس کی تحریک ، افکار، کارکردگی اور تعلیمات عالمی سطح پر مؤثر ہوئی ہوں ۔امام خمینی (رح) نے اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ روشنی پھیلائی ۔آپ کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوئے آپ نے اپنی سادہ زندگی اور تقوی و اخلاق کے ساتھ عالمی سطح پر طاقت کا مفہوم ہی بدل دیا اور طاقت کے مادی اور ظاہری پہلوؤں کو کوئی اہمیت نہ دی ۔حضرت امام خمینی (رح) کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل تھی ۔جبکہ گذشتہ چھ سات صدیوں میں کوئی ایک بھی دینی و علمی شخصیت ایسی نظر نہیں آتی جس نے انقلاب برپا کیا ہو اوراس کو اس کے مخالفین نے بھی سراہا ہو ۔امام خمینی (رح) کی دینی و سیاسی قیادت کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا اور حالیہ صدیوں میں آپ کی قیادت کی کوئی مثال بھی نہیں ملتی ہے ۔ پروفیسر حمید مولانا امت اسلامیہ خصوصا مستضعفین کے ساتھ حضرت امام خمینی (رح) کے تعلق کو مسلم اقوام کی بیداری کے سلسلے میں امام خمینی (رح)کو ایک اور بے مثال صلاحیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران کوئی بھی انقلابی لیڈر لوگوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم نہیں کرسکا ۔حضرت امام خمینی (رح) نے قرآنی تعلیمات کو انتہائی عام فہم زبان میں لوگوں تک پہنچا دیا اور یہ بجائے خود انقلاب اسلامی کی کامیابی کا سبب تھا ۔اقوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں دوسری تہذیبوں اور قوموں کے ساتھ آپ کا طرز گفتگو بھی مؤثر تھا ۔حضرت امام خمینی (رح) نے سابق سوویت یونین کے آخری رہنما گورباچوف کے نام خط اور ویٹکن کو اپنا پیغام بھیج کر اسلامی نظام کے سادہ اورانسانی رابطے کی عملی مثالیں پیش کیں ۔ حضرت امام خمینی (رح) ایسے واحد مفکر تھے جو نہ صرف نظریات پیش کرتے تھے بلکہ اپنے نظریات کو عملی جامہ بھی پہناتے تھے ۔آپ نے اپنے زمانے کی بڑی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طاقتوں کی بنیادیں ہلا دیں اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور مستضعفین کو موضوع بنا دیا ۔آج افریقہ کے دور دراز علاقوں میں بھی حضرت امام خمینی (رح) کے اس کردار کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ نے اسلامی بیدار ی کے سلسلے میں ادا کیا ہے۔ | ||
Statistics View: 2,208 |
||