امام خمینی بحیثیت ایک عظیم لیڈر | ||
امام خمینی بحیثیت ایک عظیم لیڈر ڈاکٹر علی بیات ایرانی عوام اپنی ہزاروں سالہ تاریخ میں ہمیشہ آزادی پسند اور آزاد واقع ہوئے ہیں۔ جب بھی مستبد و ظالم بادشاہ اور اس کی مسلط کردہ حکومت کی طرف سے مورد ِ ظلم و ستم واقع ہوئے ہیں ،اسی عوام هی میں سے کوئی عالم فرزانہ اور رہبر یگانہ اٹھ کر ان کو ستم کی اندھیری رات کی گہری نیند سے جگاکر آزادگی کی صبح روشن کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اخیر دور میں انقلاب مشروطیت کی قیادت مذہبی رہنماؤں نے کی۔ قاجاری خاندان کی سلطنت کا تختہ انہی کی وجہ سے الٹ گیا۔ گووہ انقلاب انگریزی سیاست کی وجه سے پہلویوں کی بھینٹ چڑھی ،لیکن بیداری کی جو لہراسلامی و مذہبی رہنماؤں کے ذریعےاٹھی تھی ، چند عشرے کے بعد، ایک اور عظیم دینی و مذہبی قائد،یعنی امام خمینی(رح) کے ذریعے ساحل پیروزی کو چھونے لگی۔ 11فروری 1979ٍء، ایران کی تاریخ میں ایک ایسا یادگار دن ہے، جس کو اس ملک کی تاریخ میں ہونے والے آزادی کے تمام انقلابات کانچوڑاور ثمر کہنا سب سے مناسب بات ہے۔ آئیےاس عظیم الشان انقلاب کے بزرگ رہنما کی ،اپنےانقلاب کی کامیابی کے لیے ، قربانیوں کا مختصر سا جائزہ لیں۔ امام خمینی21ستمبر1902ءکو صوبہ مرکزی کے ایک شہر، خمین کےایک مذہبی اور ملجأ خلایق گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم آیتاللہ سید مصطفی موسوی اس شہر کے عالم دین اور مذہبی رہنماتھے۔ وہ خمین میں غریبوں اور مظلوم عوام کی پناہگاہ تھےاور بالاخر انہی مظلوموں کے حق و حقوق کے دفاع میں ،ان کو اپنی جان دیناپڑی۔ والد محترم کی شہادت کے بعد، امام خمینی(رح)کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ، ان کی والد ہ مکرمہ جو خود ایک بڑے مذہبی گھرانے کی بیٹی تھیں ، نےسنبھال لیا۔ اپنے خاندان کے بزرگوں کےعلمی نقش قدم پر چلتے ہوئے، مارچ 1921ءکوآپ(رح) نے قم کا سفر کیا،جہاں آیتاللہ العظمی حائری یزدی نے اس شہر کے مذہبی مدرسے کی سرپرستی قبول فرماکر مدرسہ فیضیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس مدرسے میں امام خمینی نے بہت سے اہل علم و فضل اساتذہ سے کسب فیض کرکے خود اس مدرسے کے جید اور عالم مدرس بن گئے ۔ آپ اپنی علمی نشستوں میں فقہ، اصول و فلسفه و عرفان و اخلاق و غیرہ کی تعلیم دیتے رہے اور ان موضوعات میں وہ اس مدرسے کے بہترین اساتذے میں شمار ہونے لگے۔ اس زمانے میں ملک میں سیاسی اور اقتصادی حالات، مجبور عوام کے لیے ناگفتہ بہ تھی۔ استعماری اور سامراجی قوتیں ، شاہ کے ساتھ مل کر ، قومی ذخائر کی غارت کے ساتھ ساتھ ، اس ملک کی اسلامی ثقافت کی بیخکنی میں بھی مصروف تھیں۔چونکہ امام خمینی (رح)کو باطل کے سامنے اٹھ کھڑے ہونے کی جرأت، ان کے آبا واجداد سے ورثے میں ملی تھی، اس لیے ان ظالموں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ قومی اسمبلی میں وزیراعظم اسداللہ علم نے8 اکتوبر 1962ءکوایک ایسا قانون نافذ کرنے کی تجویزپیش کی،جس کی رو سے قومی اسمبلی کے امیدواروں کے لیے مرد ہونے اور مسلمان ہونے کی شرط عائد نہیں کی جاتی اور اسمبلی کے ممبر بن جانےکےبعد ان کوقرآن کریم کی قسم کھانے کی شرط بھی مسترد کردی گئی تھی۔ا س قانون کی رو سے ایسے امیدواروں کو میدان میں آنے کی فرصت ملتی جو اسلام اور اسلامی ثقافت کو ناکارہ بنانا چاہتے تھے۔ امام خمینی(رح) نے بہت جلد اس مکارانہ اور غدارانہ سیاست کا مقصد بھانپ لیا۔ دیگر مذہبی رہنماؤں کی صف اول شامل ہوکر عوام کو اس منحوس اور خفتآمیز قانون سے آگاہ کرنے کے لیے، بہت کوششیں کیں اور بالاخر، شاہ اور اس کےآقا، امریکی حکومت کو اس مقدس احتجاج کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا اور وہ قانون کن لم یکن ہوگیا۔ ایرانی عوام کو نہ صرف نامناسب قانون کے مضرات سے رہائی ملنے کا موقع ملا بلکہ ایک اور مزید فایدہ یہ ہوا کہ ان کو یہ معلوم ہوگیا کہ ان کی قدیم پناہگاہ، یعنی مذہبی و دینی علما کی قیادت میں وہ ہر ظالم کے سامنے اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ اس زمانے سے امام خمینی(رح) کی عزت ، احترام اور مقبولیت میں ہر روز اضافہ ہوتا گیا۔ انہوں نے اس زمانے سے، ایک عالم دین کی عظیم مرتبت سے بھی ترقی کرکے ملک کی زعامت و قیادت کا مقام حاصل کیا اور سب لوگ آپ کو امام و رہبر کا نام دےدیا۔ لیکن اس قیادت کے قبول کرنے کی وجہ سے آپ کو بڑے عرصے کے لیے کٹھن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شاہ اور اس کے پٹھونے امام خمینی کو ایذاپہنچانے اور آپ کی آزادی کی طرف اس راستے کو سدّ باب کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے لگے۔ امریکی سامراج کسی بھی طریقے سے اپنے ناپاک عزائم کو جامہ عمل پہنانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس دفعہ شاہ نے "چھ اصلاحی اصول" کا لائحہ عمل پیش کیا اور اس کا نام انقلاب سفید رکھا۔ اما م خمینی نے دوبارہ اس سیاہ قوت کا راز طشت از بام کیا۔ اس کے بدلے میں قم میں بہت سے مذہبی علوم کے طالب علم شہید کردیئے گئے۔ امام خمینی (رح)نےشہدای فیضیہ کے یوم چہلم پر اسی سال کے یوم عاشورا میں ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔اس تقریر میں آپ(رح) نے شاہ اور اس کےحامیوں کی بھرپور مذمت کی۔ مقابلے میں اس کے دوسرے دن، اما م خمینی (رح)کے بہت سے قریبی دوست و احباب پکڑے گئے اور بعد کے دن صبح کے وقت آپ(رح) کو صبح کی نماز کے وقت مصلّا سے گرفتار کر کے،قم سےتہران منتقل کیا گیا۔ اس کی خبر لوگوں میں پھیل گئی تو اکثر بڑے شہروں میں سڑکوں پر آگئے۔ شاہ اوراس کی فوجیوں نے امریکی ماہرین کے مشورے پر مشتعل عوام کے خون کے دریا بہادیئے۔ امام خمینی(رح) کو جیل بھیجا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد آزادی ملی ،لیکن آپ(رح) نے عوام کی ہر حال میں قیادت کی اور شاہ اور امریکی سیاست کو فاش کرتےرہے۔ بالاخر وہ 4نومبر1964ءکوگرفتار ہوکر جلاوطن کردئیے گئے۔ پہلے ترکی چلے گئے اور اس ملک میں گیارہ مہینوں کی رہائش کے بعد عراق کو منتقل کردئیے گئے۔ عراق میں 13سال کا طویل قیام، آپ کے لیےنجف اشرف کے مذہبی مدرسوں میں درس و تدریس کا ایک نیا باب تھا۔ نجف سے ایران کے سیاسی حالات کی نگرانی کرتے رہے اوروقتاًفوقتاً ضروری ہدایات سے شاہ اور اس کے امریکی آقاؤوں کی سازشوں سے قوم کو آگاہ کرتے رہے۔ اس کےساتھ ساتھ عالم اسلام میں رونما ہونے والے حالات کی بھی نگرانی کرتے رہے۔ فلسطین میں صہیونی ظالموں کے ظلم و ستم کی مذمت کرتے رہے۔ 22نومبر1977ء میں آپ(رح) کے صاحبزادہ آیت اللہ مصطفی خمینی شاہی حکم سے شہید کردئیے گئے۔ لیکن اما م خمینی(رح) نے ہمت نہ ہاری اور اپنا ارادہ اور پکّاکردیا۔ اگلے سال نیویارک میں ایرانی اور عراقی وزرائے خارجہ کی ملاقات میں یہ طے پایا کہ اما م خمینی (رح)کو عراق سے بھی باہر کردیا جائے۔ اس وجہ سے1978ءکے اکتوبر کی 6 تاریخ کو آپ(رح)پیرس روانہ ہوگئے۔ لیکن ایران میں آپ (رح)کی غائبانہ قیادت میں انقلاب اپنے زوروں پر پہنچ گیا تھا۔ قوم نے ہر ممکن کوشش اور قربانی سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے دریغ نہیں کیا۔ آپ (رح)نے اسی سال کےجنوری میں اسلامی انقلابی کونسل کی تشکیل کی۔ شاہ 16جنوری کو ملک سے باہر فرار ہوگیا۔ملک میں حالات امام خمینی(رح) کی اس طویل مفارقت کے بعد وطن واپسی کے لیے آمادہ تھا۔ ہجر کا طویل عرصہ ختم ہوا۔ ظلمت کا دیو چلاگیا، نور وسفیدی کا فرشتہ واپس آگیا۔ یکم فروری 1978ءکو قوم نے اپنے معظم رہنما کا ،اللہ اکبر خمینی رہبر کی بلند نعروں کے ساتھ ،بے مثال استقبال پیش کیا۔ مہرآباد ائیرپورٹ سے مزار بہشت زہرا کے طویل راستے کو پھولوں کا انبار لگادیاگیا تا کہ آپ کا مرکب ان پھولوں پر سے گزر ے ۔ یوں لگتا تھا کہ لوگوں کے دلوں پر قدم رکھتے ہوں۔ آپ کی آمد سے انقلاب نے اور زور پکڑا اور 10 دنوں کے اندراندر11 فروری کو قوم کی قربانیاں اور نذرانے درگاہ حق میں قبول ہوگئے اور ان کی ان تھک جد وجہد کا جواب ملا۔قوم کو آزادی ملی۔ ایسی آزادی جو اسلام اور اسلامی تعلیمات واحکامات کی روشنی میں تمام دنیا کے سامنے حق طلبی اور ظلم ستیزی کا ایک بہترین نمونہ پیش کیاجاسکا۔ | ||
Statistics View: 2,099 |
||