ایران کی اقتصادی ترقی 1979ء کے بعد | ||
ایران کی اقتصادی ترقی 1979ء کے بعد ڈاکٹرسکندر عباس زیدی جو قوم اپنے مایہ ناز ماضی اور مقامی اقدار سے آشنا ہوتی ہے اس کا مستقبل درخشاں ہوتا ہے اور ایران کےاسلامی انقلاب کی سب سے بڑی اور عمدہ خصویت یہی ہے کہ اس نے ایرانی قوم کو اپنے درخشاں ماضی ، اپنے تشخص ، اپنی تاریخ اور توانائیوں سے آگاہ کیا اور دشمن کے باطل اور مایوس کن پروپیگنڈوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے۔آج پوری دنیا میں جہاں سامراجی طاقتیں لوٹ مار اور دھونس دھاندلی میں مصروف ہیں وہیں پر کمزور اقوام بھی سامراجیّت کے چنگل سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں سامراج نے مستضعفین یعنی کمزور اقوام کے بیچ میں اپنے پٹھو رہنما اور وظیفہ خور دھڑے قائم کر رکھے ہیں جو مختلف عنوانات کے ساتھ مختلف علاقوں میں سامراجی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں جس طرح سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح سامراج کے جاسوس حکمرانوں اور وظیفہ خور ٹولوں سے بھی ہوشیار رہنے کی بھی اشدضرورت ہے۔ انقلاب جب تک اوراق پر رہے فقط لفظ رہتا ہے۔ اور جب انقلاب عملی زندگی میں وارد ہوتا ہے تو ہر چیز نئے انداز سے نظر آتی ہے۔ چشم بینا نئے افق کی تلاش کے لئے بے چین رہتی ہے۔ خیالات اوج ثریا کے ہم دوش ہونے لگتے ہیں۔ قلب ونظر میں نئے جہاں سما جاتے ہیں پھر اپنی دنیا آپ پیدا کی جاتی ہے۔ اسلام ایک ایسے انقلاب کا نام ہے جس کا آغاز عرب کے صحرا سے کی خاک پر پوری آب و تاب سے انسانی افق پر طلوع ہوا اور اس کے ثمرات ایران سے ہوتے ہوئے تیونس، مصر، بحرین، اردن، یمن اور لیبیا سمیت دیگر مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کی ریاستوں پر مرتب ہوئے۔ یہ اسی انقلاب اسلامی ہی کی بدولت ہے کہ مغرب کی نئی نسل بھی بہت تیزی سے لادینیت اور رہبانیت کے نظریات سے بد دل ہو کر سکون اور طمانیت حاصل کرنے کے لیے دائرہ اسلام میں داخل ہو رہی ہے، جو کہ یقناً خوش آئند ہے مگر یہ عظیم انقلاب یورپی اور مغربی سامراجیت کو بری طرح سے کھٹک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار مسلمانوں میں انتشار اور بدنظمی پھیلا کر اپنی نوجوان نسل کے اذہان میں اسلام کے خلاف نفرت پیدا کر رہا ہے۔ اب یہ ہم مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم اسلامی انقلاب کو اپنے اعمال سے پوری دنیا پر آشکار کریں اور اسکے اصل مقصد کو تمام ذاتی مفادات اور تعصب سے بالاتر ہو کر زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں- یہی وجہ ہے کہ مغربی استعماری طاقتوں نے اپنے سفلی مفادات کی تکمیل کے لیے عالم اسلام کو جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے اپنی تمام تر مشینری اور ممکنہ وسائل جھونک رکھے ہیں، تاکہ وہ اسلامی تعلیمات جو سرکار دوعالم ص نے پیش کی تھیں اور جن اسلامی شعائر کو امام عالی مقام ع نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے بچایا تھا، سے مسلمانوں کو منحرف کر دیا جائے اور ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا تسلط قائم کر لیا جائے۔ ان دنوں جب ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ منائی جا رہی ہے، ان ایام میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی کارکردگی اور انقلاب ِ اسلامی کی کامیابیوں کا جائزہ لینے کا بہترین موقع ہوتا ہے، انقلاب ِ اسلامی کے ثمرات کا سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور سائنسی میدانوں میں جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ انقلاب نشیب و فراز سے گزرا ہے لیکن مختلف شعبوں میں اس کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، ۱۹۷۹ء کےانقلابِ ایران سےقبل یورپی ممالک دوطرفہ بنیاد پر ایران کےساتھ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات کےمزےلےرہےتھے۔ تب بھی ان کےتعلقات کا مرکزی نکتہ تیل اور گیس ہی تھا۔ ایرانی انقلاب کےمابعد اثرات اور ایران کے’نہ مشرق نہ مغرب‘ کےمؤقف کےباعث یہ متوازن تعلقات اختلافِ رائے، فقرےبازی اور سیاسی خلفشار کےہنگاموں میں گم ہوگئے۔ تاہم اس کےبعدعراق کی کویت پر جارحیت اور ایران کےحریف ملک کےخلاف مغربی ممالک کےاتحاد نےتناؤ میں کچھ کمی کر دی۔ چنانچہ ۱۹۹۰ء اور۲۰۰۰ء کےابتدا میں ان کےتعلقات میں کچھ بہتری نظرآئی۔ اس دوران دونوں طرف کی قیادت نےتعاون کو مزید پھیلانےکےلیےباہمی دلچسپی کےاُمور پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز کیا۔ پھر۲۰۰۱ء میں یورپی مشن نےبھی اپنےرابطےبحال کیےتاکہ ایران کےساتھ قریبی تعلقات کو پروان چڑھانےکےلیےحالات و واقعات کےتناظر میں منصوبہ بندی کا آغاز کیا جا سکے۔ ایک مقصد تو یہ تھا کہ ’’تجارت و تعاون کا معاہدہ‘‘ (Trade and Cooperation Agreement) یعنی TCA حتمی طور پر طےکیا جا سکے، اس کےلیےمذا کرات کا آغاز دسمبر۲۰۰۲ء میں ہوا۔ اگرچہ تجارت گہرےاور قریبی تعلقات کی راہ ہموار کرسکتی تھی لیکن ایک بار پھر سیاسی خوف و ہراس اور وسوسوں نےبہتری کی جانب بڑھتےاقدامات کا راستہ روک دیا، اس دفعہ اس کا سبب امریکہ کا ایران پر یہ دباؤ تھا کہ وہ اپنےایٹمی منصوبےپر کام روک دے۔ امام خمینی نے اس وقت اسلام کا نام لیا جب سب امریکہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز تھے اس وقت دنیا دو طاقتوں کے درمیان تقسیم تھی لیکن امام خمینی نے نہ تو روس کو قبول کیا اور نہ ہی امریکہ کی دھمکیوں میں آئے۔ انہوں نے کہاکہ امام خمینی نے اسلام کے نظریہ سیاست کو زندہ کیا، استعمار اس سازش میں تھا کہ مسلمانوں کو گمراہ کیا جائے اور کہا جائے کہ دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن امام نے رول ماڈل پیش کرتے ہوئے ثابت کیا کہ یہ دونوں چیزیں آپس میں بہترین انداز میں چل سکتی ہیں۔ دین اور سیاست الگ الگ چیزیں نہیں، یہ امام خمینی نے ثابت کیا۔ امام خمینی(رح) کی تعلیمات اور قائد انقلاب اسلامی کی بصیرت نے ایران کی اسلامی اور انقلابی قوم میں ایسی روح پھونک دی کہ آج اسلامی جمہوریۂ ایران ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے اور ایران کے سائنس دانوں اور علمی ماہرین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اس پر انگشت بہ دندان ہیں ۔اقتصادی شعبے میں ایرانی قوم کے غیرمتزلزل عزم و ارادے اور سائنسی و ثقافتی میدانوں میں حاصل ہونے والی نمایاں کامیابیوں کی وجہ سے معاشرے کو بنیادی ضروریات فراہم کی جا رہی ہیں اور عوام بڑی حد تک آرام دہ اور جدید وسائل سے بہرہ مند ہو رہے ہیں ۔موجودہ ایران، عالم سطح پر علمی میدانوں میں پوری طرح سرگرم ہے اور بہت سے ایرانی دانشوروں اور محققوں کو ممتازترین مقام حاصل ہے یہ علمی ترقی و برتری زمانہ قدیم کی مانند ایرانیوں کے درمیان ازسرنو علم و دانش کے احیاء کے مترادف ہے اور بہت ممکن ہے جس طرح ایک زمانے میں مغربی دنیا ایرانیوں کی محتاج و مرہون منت تھی مستقبل قریب میں دوبارہ ایرانی علوم مغربی علوم پر سبقت حاصل کرلیں۔لیزر، نانو ٹیکنالوجی اور مائیکرو الیکٹرانیک کی مانند نئے علمی میدانوں میں ایران کے مسلم و دیندار جوانوں کی پیش قدمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ایران روز افزوں علمی فروغ کی طرف گامزن ہے ۔ حیاتیاتی سائنس کے شعبے میں بنیادی خلیوں کا انکشاف، ایٹمی ایندھن پیدا کرنے کی صلاحیت، یورینئم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز کی ساخت اور ایٹمی ایندھن سے متعلق دیگر معاملات پر دسترس، ایسے نمایاں کارنامے ہیں جن کی وجہ سے اسلام دشمن طاقتیں، اسلامی جمہوریہ ٴ ایران کی مخالفت اور مقابلے پر اتر آئی ہیں۔ حال ہی میں ایران نے مقامی طور پر تیار کیا جانے والا پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا ہے، جس پر بعض استعماری ممالک سیخ پا ہو کر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔جب کہ انقلاب ِ اسلامی سے قبل شاہی دور میں سائنسی اور علمی تحقیقات کے میدان میں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں بلکہ ایرانی سائنس دانوں پر پابندیاں عائد کی جاتیں یا اُن کو ہلاک کیا جاتا تھا اور یا وہ عالمی طاقتوں کے سائنسی و تحقیقاتی مراکز میں چلے جاتے تھے، اس کے برعکس آج سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی اور سائنسی میدانوں میں تحقیق و انکشاف کے عمل کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ آج ایران دنیا کے ان چار ترقی یافتہ ملکوں میں کی صف میں شامل ہو چکا ہے جو ایک ایٹمی عنصر اسفنجی زیرکونیوم پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی کے ساتھ یورینیم کی افزودگی کی ٹیکنالوجی پر مکمل دسترسی حاصل کر چکا ہے۔اسی طرح جسم کے بنیادی خلیوں کی پیدائش پر دسترسی،طرح طرح کے ٹیکے یا ویکسینیشن تیار کرنے میں خود کفالت اور گردے کی پیوند کاری کے عمل میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین ملکوں کی صف میں شمولیت بتاتی ہے کہ ایرانی جوان علم اور ٹیکنالوجی کی آخری چوٹیوں کو سرکرنے پر پوری طرح کمربستہ ہیں۔ڈیموں کی تعمیر و توسیع اور دوسرے ملکوں میں فنی اور آبادیاتی خدمات میں بھی آج ایران دنیا کا چوتھا ملک شمار ہوتا ہے جو ایرانی مسلمانوں کی علمی و فنی کی ارتقاء کا ایک زرین باب ہے۔چھوٹے بڑے ہر قسم کے ہیلی کوپٹر اور ہوائی جہازوں کی تیاری اور،کوثر،فجر تین،شہاب تین اور دونور،اسکیڈبی،ذوالفقار تہتر،فاتح 110 اور تھری زیڈ( z ۔3 ) قسم کے میزائل،آواز کی رفتار سے زیادہ تیز تارپیڈو،کندھے پر رکھ کر ساحل سے سمندر میں مارے جانے والے میزائیل ایف ایل،تین سو ناٹ کی رفتار سے حرکت کرنے والی فلائنگ بوٹس اور اسی طرح پائیلٹ کے بغیر اڑنے والے مختلف الاقسام جہازوں کی خود کفالت کی حد تک تیاری ایرانی ماہرین و محققین کی بہترین کارکردگی کو نمایاں کرنے کے لئے کافی ہیں اور علمی دنیا میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی ترقی اور پیشرفت کو نمایان کرتے ہیں۔ یورپی یونین کو امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں لڑی جانےوالی عراق جنگ میں امریکہ کےساتھ جذباتی دباؤ پر مبنی تعلقات اورپھر تفرقہ اورپھوٹ کا تجربہ ہو چکا تھا، اس لیےاس نےایران کےمسئلےمیں خارجہ تعلقات میں مضبوط کردار ادا کرسکنےکی ساکھ برقرار رکھنےکےلیےاپنےآپ کو جذبات کی رو میں بہنےنہیں دیا۔ چنانچہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس آگےآئےاور اختلافات کےباعث راستےجدا ہوجانےکےسابقہ تجربےکی بناء پر اس معاملےکو فاتر العقل بش انتظامیہ کی طرح محض طاقت کی زبان کی بجائےزیادہ واضح ایجنڈےکےساتھ حل کرنےکےلیےمذا کرات اور پُرامن طریقےاختیار کرنےکو ترجیح دی۔ اس سب کےباوجود یورپ کےممالک کو نہ تو انفرادی ملک کی حیثیت سےاور نہ ہی یورپی یونین کےپلیٹ فارم سےایٹمی ایران قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس لیےایک زیادہ معقول اور عملی قدم اُٹھایا گیا اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو یہ معاملہ ہاتھ میں لےکر اپنا کردار ادا کرنےکو کہا گیا۔ باقی کی کہانی مذا کرات اور پابندیوں اور پھر مذا کرات کی ہے۔ ضروری نہیں کہ ترتیب یہ ہی رہی ہو لیکن اہم بات یہ نوٹ کرنےکی ہےکہ ایران کےایٹمی پروگرام کےمعاملےمیں یورپی ممالک کی اجتماعی سوچ تادیرامریکی دباؤ اور اس کےایجنڈےکی یرغمال بنی رہی ۔ موجودہ حالات میں جبکہ امریکہ ایک دفعہ پھرسلامتی کونسل کےارکان اور اپنےیورپی اتحادیوں کو بہلا پھسلا کر ایران کےخلاف سخت رویہ اختیار کرنےپر آمادہ کر رہا ہےتو یورپی یونین حتیٰ کہ اس کےممبر ممالک کےلیےانفرادی طور پر بھی یہ مشکل ہوتا جا رہا ہےکہ وہ ایران کی انقلابی حکومت کےساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں ایسےمیں یورپی یونین کو انتہائی معقول طریقۂ کاریہ اختیار کرنا چاہیےکہ وہ ایران میں اپنےنفع اور نقصان کو سامنےرکھ کر پیش قدمی کےذریعےصورتِ حال پر قابو پانےوالا ایجنڈا بنائے، ساری صورتِ حال کو عقلمندی کےساتھ جانچے، محتاط رویہ اختیار کرتےہوئےاپنےمفادات کو مدّنظر رکھےاور اُن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بنائی ہوئی رپورٹوں کی طرف توجہ نہ دےجنہوں نےصدام حسین کےبڑےپیمانےپر تباہی پھیلانےوالےہتھیاروں کےذخیروں کا ثبوت پیش کیا تھا۔ لیکن اس سب کےلیےیورپی ممالک کو امریکی مقاصد پر مبنی پالیسی کےسحر سےباہر نکلنا ہو گا اور ایک متبادل اور کھری قیادت فراہم کرنا ہو گی۔ رہبر معظم نے فرمایا: کفر و استکبارکے محاذ پر اسلامی محاذ کی کامیابیوں میں اسلامی تحریک کا بہت بڑا حصہ رہا ہے اور بدامنی ، جنگ اور انسانوں کے لئے عدم آسائش کی اصل وجہ مغربی تمدن میں معنویت اور علم کی پیشرفت میں عدم توازن ہے جبکہ اسلامی تمدن میں مادی پیشرفت ایک دوسرے کے ساتھ پرامن رہنے، عوام کی فلاح و بہبود و آسائش اور امن فراہم کرنے پر استوارہے۔ | ||
Statistics View: 2,205 |
||