صیہونزم اور بین الاقوامی ،بین المذاہب حوالوں سے حضرت ابراہیم ؑ کے نام کا غلط استعمال | ||||
PDF (2239 K) | ||||
مذہبی صیہونزم یا دینی صیہونزم ،سرزمین اسرائیل اور یہودیوں کی نسبت عرفانی تفسیر کا حامل ہے۔صیہونزم نے یہودی مذہبی ا حساسات،قومی تعصب اور کچھ ممالک کے یہودی دشمن ہونے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہودیوں کو اسرائیل کی جانب ہجرت پہ ابھارا۔اصل میں یہ عقیدہ تھا کہ یہودی جلاوطنی میں حقیقی پہچان سے دور ہیں لہذا اسرائیلی سرزمیں میں ان کی دوبارہ آبادکاری ، یہودیوں کی زندگی اور دنیا میں مؤثر ہو سکتی ہے ،کیونکہ خدا کی خواہش اس برگزیدہ قوم کے ذریعے ظہور کرے گی۔[1]صیہونزم جس نے یہودیت کے قلب سے جنم لیا ،اس یقین کے ساتھ وہی یہودیت ہے ، خدا کی برگزیدہ قوم ہے۔وہ وجوہات جن کی وجہ سے یہودی خود کو صاحب امتیاز سمجھتے آرہے ہیں اور اس پہ یقین رکھتے ہیں ، ان میں سے ایک ان کی نسل ہے۔وہ اپنے کو جناب یعقوب ابن اسحاق کی نسل سے سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے اپنے نسب کو خدا کے اولوالعزم پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ تک پہنچا کے اس پہ فخر کرتے ہیں۔ اور اس طرح دوسری قوموں کو خود سے پست اور حقیر تر سمجھتے ہوئے ان کے لئے کسی احترام کے قائل نہیں ہیں۔قرآن کریم نے نسب پرستی اور بے جا فخر ومباہات کے خلاف آواز اٹھائی اور خدا سے قربت اور برتری کو نہیں بلکہ اطاعت اور پیروی کو معیارسمجھتا ہے۔ «ما کان إبراهیم یهودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین* إن أولی الناس بإبراهیم للذین اتبعوه وهذا النبی والذین آمنوا والله ولیالمؤمنین؛ "ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ خالص موحد اور مسلمان تھے اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھے۔لوگوں میں سے سزاوار ترین لوگ ابراہیم کیلئے وہ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور یہ پیغمبر اور وہ لوگ جو ایمان لائے سب سے زیادہ سزاوار ہیں اور خدا مومنوں کا ولی اور سرپرست ہے۔" (سورہ آل عمران / آیہ 67-68)[2] یہودیت اور مسیحیت کے پیروکار ایک دوسرے سے ملاقات اور گفتگو کے وقت ہمیشہ اپنے خیالی اور خود ساختہ امتیازات گنواتے تھے۔دونوں گروہ اپنے آپ کو خدائی پیغمبروں اور حضرت ابراہیم ؑ سے منسوب کرکے اس پہ فخر ومباہات کرتے تھے۔قرآن کریم نے اس کام پہ انہیں سرزنش کی اور بیہودہ گفتگو سے منع کیا ہے۔(سورہ آل عمران 65-66؛ سورہ بقرہ آیہ 144) یہودی اور مسیحی ادیان کے حوالے سے قرآن مجید میں کچھ روشن نکات دکھائی دیتے ہیں: ۔1ان کی زیادہ تر گفتگو دو بدو یا بلاواسطہ نہیں تھی ،بلکہ اس گفتگو میں تبلیغی پہلو تھا ایک دوسرے سے کہی اور سنی جانے والی باتوں کی نفی اور انہیں بے بنیاد ثابت کرتے تھے۔ ۔2یہ گفتگو اور دعوے زیادہ تر بغیر کسی دلیل اور سامنے والے کو جواب دینے کیلئے ہوتے تھے۔ 3 برتری طلبی ،ماضی کی میراث پہ فخر ، مالک ودولت کی موجودگی اور خدا سے قرابت داری اس گفتگو کا اصلی محور ہوتے تھے ،نمونے کے طور پہ جن کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے : اول : جنت کی اجارہ داری یہود ونصاریٰ دونوں اپنے لئے جنت کی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں : یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا (سورہ بقرہ،آیہ 111)۔مفسرین کے بقول یہ تعبیر ایجاز کے طور پہ آئی ہے اور ایسا ہی مقدر ہے۔ یہودیوں نے کہا : جنت میں یہودی کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا اور نصارا نے کہا : جنت میں نصرانی کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔بغیر کسی انکار کے دونوں کے درمیان گہرے اور شدید اختلاف کے باوجود ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے فائدے کی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔درحقیقت ان کا دعویٰ اپنے فائدے کیلئے تھا۔ دوم یہود و نصارا کی خاص ہدایت ان کے دوسرے دعووں میں سے ایک یہ ہےکہ خود کو ہدایت یافتہ اور انسانی سعادت اور ہدایت کو اپنے دین کی پیروی میں ہی جانتے ہیں۔کہا : یہودی یا نصرانی ہوجاؤ تاکہ راہ راست پہ آجاؤ (بقرہ ،آیہ 135) ۔یہ آیت بھی ایجاز کی شکل میں بیان ہوئی ،حقیقت میں یہودیت اور مسیحیت کا الگ الگ دعوا اپنے مذہب کیلئے ہے۔ سوم خدا کے بیٹے اوردوست دین یہود اور مسیحیت کے پیروکار افتخار اور امتیاز کے طور پہ اپنے کو خدا کے بیٹے اور دوست سمجھتے تھے (سورہ مائدہ /آیہ 1)۔علامہ طباطبائی اس آیہ کے ذیل میں لکھتے ہیں : " اس میں شک نہیں کہ یہودیوں نے خدا کیلئے حقیقی فرزندی کا دعوا نہیں کیا ہے اور سنجیدگی سے خود کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے ؛ جیسا کہ زیادہ تر عیسائی ،مسیح کو خدا بیٹا سمجھتے ہیں۔لہذا اس جملے میں جو حکایت بیان کی گئی کہ یہود ونصارا نے دعویٰ کیا کہ ہم خدا کے بیٹے اور دوست ہیں ،مراد حقیقی فرزند ہونا نہیں بلکہ ان کا مقصد مجازی طریقے سے ایک قسم کی فضیلت اپنے لئے تراشنا ہے۔"[3] فکسطین پہ صیہونزم کا تاریخی دعویٰ مندرجہ بالا نکتہ نظر پہ توجہ دیتے ہوئے جس بارے میں بیان کیا گیا ،صیہونی تحریک کے قائدین نے کوشش کی کہ یہودیت میں موجود چند نظریوں کو یہودیوں کی مقدس کتاب سے جوڑتے ہوئے اپنی زیادتیوں کی وجہ تلاش کرسکیں اور سعی کی کہ دوسرے ممالک کی حکومتوں اور عوام کو ایک طرح اپنا ہمنوا بنا سکیں۔ من جملہ اس دعوے میں خدا کے وعدے ،زمین موعود اور موروثی سرزمین کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ آگے چل کے ہر موضوع سے متعلق مختصر تفصیل اور صیہونیت کے دلائل اور اسناد پہ تنقید کے ساتھ اس مکتب کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ الف : خدا کا وعدہ سن 1897 میں سوئٹرزرلینڈ میں منعقدہ صیہونی کانگریس میں فلسطین پہ یہودیوں کے تاریخی حق اور ارض موعود پہ یہودیوں کی واپسی کیلئے خدا کے وعدے کے اثبات پہ زور دیا گیا۔ سن 1882 میں سابقہ روس کے شہر بیلو میں ایک جشن کے دوران بھی یہودیوں کو ابھارا گیا تاکہ خدا کے وعدے کے اثبات اور آبائی سرزمین پہ واپسی اور خدائی وعدے کے یروشلم (فلسطین ) میں پورا ہونے کیلئے کوششیں کریں۔ خدائی وعدے کے مطابق فلسطین کے قوم یہود سے متعلق ہونے کے اثبات میں وہ تورات کی چند آیات سے دلیل پیش کرتے ہیں جو ابراہیم ؑ و یعقوب ؑ کو خطاب کرتے ہوئے آئی ہیں۔ نیل سے فرات تک کا نعرہ یہ نعرہ غاصب صیہونی حکومت کی آئیڈیل سرحدوں کی جانب اشارہ ہے۔ دریائے نیل سے دریائے فرات تک گریٹر اسرائیل کا قیام صیہونزم کے اہم اہداف اور آرزوؤں میں سے ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین لایا جائے اور اسرائیل دریائے نیل سے دریائے فرات کی وسعت تک وجود میں آئے اور وہ یہودی جو اسرائیل ہجرت کریں گے اہل نجات ہو ں گے۔ سرزمین فلسطین پہ یہودیوں کی اجارہ داری کے ثابت نہ ہونے کیلئے کچھ دلائل اور وجوہات کی جانب مختصر اشارہ کیا جارہا ہے : 1۔ وہ تمام وعدے جو مقدس کتاب میں ابراہیم ؑ اور ان کی نسل کو دئیے گئے جن میں سے صرف یہودی ہی حضرت ابراہیم ؑ کی واحد نسل نہیں ہیں۔ 2۔تورات میں واضح طور پہ اشارہ ہے کہ اسماعیل ؑ بھی حضرت ابراہیم ؑ کی نسل ہیں اور فلسطین میں سکونت رکھنے والے عرب فرزندان اسماعیل ؑ سے ہیں اور ان آیات کی بنیاد پہ سرزمین فلسطین پہ یہودیوں کی اجارہ داری معتبر نہیں ۔ 3۔ معتبر تاریخی دستاویزات کے مطابق مذکورہ وعدے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کے وقت نازل کئے گئے اور اس وقت تک حضرت اسحاق ؑ(یہودیوں کے جد) دنیا میں نہیں آئے تھے لہذا فلسطین پہ یہودیوں کے تاریخی حق کی کوئی صحت نہیں ہوسکتی۔ 4۔ دوسرا بنیادی نکتہ یہ کہ پہلے تو فلسطین میں موجود اور ساکن یہودی دوسرے ممالک اور نسلوں سے آنے والے دین موسیٰؑ کے پیروکاروں کے مقابلے میں جوکہ یورپیوں کے اکسانے پہ فلسطین آئے ،بالکل بھی ابراہیم ؑ کی نسل سے نہیں ہوسکتے ۔اس طرح کہ مذکورہ بالا یہودی وقت گذرنے اور یورپ میں اپنی جائے سکونت کے اعتبار سے یقینی طور پہ حضرت ابراہیم ؑ کی خالص نسل سے نہیں ہیں۔[4]
یہودی اعتقادات اور صیہونی سیاست کی خدمت صیہونزم کی اسناد کے طور پہ اہم ترین یہودی عقائد درج ذیل ہیں ۔ 1۔ بنیادی دعوا " خدا کی برگزیدہ قوم " اس عقیدے کو تورات نے یہودیوں کی عقل اور انکے ضمیر کی گہرائی میں ڈالا ،اور ایک یہودی انسان کی ایسی تصویر کشی کی کہ گویا بقیہ انسانوں ،قوموں اور امتوں سے ممتاز اور مختلف ہے اسی تصور کی وجہ سے یہودی خود کو دنیا اور عالم انسانیت کے مالک سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے "گوییم" یعنی غیر یہود قوموں کے ساتھ جو زندگی کے قابل نہیں ہیں ،جنگ اور مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر میں وہ صرف چار پائے ہیں جو یہودی قوم کی خدمت کیلئے کام کرتے ہیں![5] وہ چیز جو یہودیوں کی نژاد پرستی کو ثابت اور اس پہ زور دیتی ہے ،مشہور یہودی دانشور " ایلف ہارنفن " کی وہ تحقیق ہے جو اس نے اکیسویں صدی میں اسرائیل کی حقیقت کے بارے میں انجام دی ،کہتا ہے کہ :" ہم یہودیوں کے دو نام ہیں ایک اسرائیل اور دوسرا یہود ،اور اسی لفظ یہود سے " یہودا" کی وجہ تسمیہ بنی اور ان دو ناموں کا رابطہ وہی خدا سے رابطہ ہے ، جس حال میں قومیں خدا سے رابطے کے بغیر صرف اپنے لئے زندگی گزار رہی ہیں لیکن ہم یہودی جن کا نام " اسرائیل" ہے ،لڑنے کیلئے جیتے ہیں اور اس چیز کیلئے جس کی لوگ ہم سے توقع رکھتے ہیں لڑ رہے ہیں لہذا بہت مشکل ہے کہ انسان " اسرائیلی" یا " یہودی " بنے اور اس سے بھی زیادہ مشکل ترین یہ کہ تم کسی دوسری قوم کے بیٹے ہو۔"[6] اسی بارے میں ڈاکٹر " الشناق" ایلف ہارنفن کی گفتگو کے بارے میں کہتے ہیں : اگر ہم گہرائی اور توجہ سے گفتگو کو دیکھیں تو درج ذیل نتائج تک پہنچیں گے : ۔یہودیوں کی نسل پرستانہ طبیعت جو آخر میں " خدا کی برگزیدہ قوم " کی طرف پلٹتی ہے ،یہودی قوم سے مخصوص ہے اور دوسرے اس سے محروم ہیں۔ ۔انسانیت کا مستقبل یہودی قوم کے پاس ہے اور ان کاموں پہ منحصر ہے جو وہ دوسروں کیلئے انجام دیتے ہیں ۔ دینی اصطلاحات ،مفاہیم اور ناموں جیسے اسرائیل اور یہودا کا غلط سیاسی استعمال،اس طرح کہ ان میں کوئی خدائی رابطہ پوشیدہ ہے۔ ۔ یہودیوں کی دوسری قوموں پہ برتری کا تصور جو تلمود اور تورات سے نکلا ہے عملی طور پہ یہودی قوم کو مادی دنیا کی ملکیت کا حق دیتا ہے۔ یعنی دنیا میں ایک یہودی کی عقل میں یہ تصور وجود میں آتا ہے کہ وہ سب سے برتر ہے اور اس یقین تک پہنچنے کیلئے تیار ہے تاکہ اس تلمودی حقیقت تک پہنچنے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا محرک بن سکے نیز عقلانیت ،اسٹریٹجی اور اقتصادی لحاظ سے دوسری قوموں پہ حاکم ہونے کیلئے ایک آئیڈیل قوم کا بیرونی تصور ضروری ہے لہذا یہودی دنیا کا مرکز قرار پائیں گے اور ان کے زعم کے لحاظ سے ان کا دعوا ثابت ہوجائے گا۔" خدا کی برگزیدہ قوم "۔ اس رو سے " نیٹن ونسٹن" اپنی کتاب " صیہونزم اسرائیل کا دشمن " میں کہتا ہے:" اگر ہم " خدا کی برگزیدہ قوم " یا " سرزمین موعود" سے نکلے معانی کو مکمل طور پہ یہودیت کی ڈکشنری سے ہٹا دیں تو یقینا بنیاد سے ختم ہوجائے گی "۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فلسطین میں آنے والے اور اسرائیل میں سکونت پذیر بہت کم افراد وعدہ پورا ہونے کے منتظر ہیں اور " سرزمین موعود " کیلئے توریت کے وعدوں اور بشارتوں کیلئے کوشش کررہے ہیں۔[7] خدا کی حقیقی برگزیدہ اور منتخب قوموں کی صفات قرآن کریم اور عقل سلیم کی نگاہ میں درج ذیل ہیں : 1۔ یہ قوم خدا کی راہ وروش کو قبول کرے اور اس پہ عقیدہ رکھے لیکن اسی طرح جیسے انبیاء اور خدا کے رسول خدا سے لیتے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ 2۔ یہ قوم اس طریقہ کار پہ عمل کرے اور دوسروں کو بھی مختلف شکلوں میں اس کی جانب دعوت دے۔ 3۔ یہ قوم خدائی طریقہ کار کو ایمان اور عقیدے کے مراحل نیز عملی میدان میں بھی مستقل کوشاں رہے۔ اب اگر یہودیت کی تاریخ کو اس ذکر شدہ نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو کیا دیکھیں گے ؟ ہم دیکھیں گے کہ یہودی ہمیشہ انبیاء کی مخالف سمت میں حرکت کرتے تھے اور ہمیشہ خدا کے رسولوں کی راہ وروش ، خیرخواہوں کی نیکی کی دعوت اور اپنی پوری راہ میں ان کے مقابلے میں عاجز ،ذلیل اور تمام حوادث میں ناکارہ ہونے کے ساتھ سرکش اور عقب ماندہ رہ جانے کے علاوہ ان کے آگے بڑھنے والے عظیم کارواں کی راہ میں گرتے پڑتے چلتے تھے۔ کئی بار کوئی سوال کرتا ہے کہ اس قرآنی آیت کا کیا مقصد ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے :" وَ لَقدِ اختَرناهُم عَلی عِلمٍ العَالَمینَ، و آَتینَاهُم مِنَ الآیاتِ مَا فیه بَلاءٌ مُبینٌ» " ہم نے بنی اسرائیل کو علم و دانش کے ساتھ دنیا پہ منتخب کیا اور انہیں (موسی کے توسط سے) آیات دیں کی جن میں واضح اور روشن امتحان تھا ۔" شیخ رشید الخطیب کہتے ہیں ،ا س آیت کا مقصد کہ "ہم نے انہیں منتخب کیا ۔۔۔" یعنی کہ ہم نے قوم بنی اسرائیل کو تمام اقوام میں منتخب کیا انہیں مکلف کیا تاکہ اس زمانے کی قوموں میں خدا کی دی ہوئی رسالت کیلئے قیام کریں حالانکہ خدا ان کے حالات پہ ناظر و آگاہ تھا ( علیٰ علم" اور انہیں دنیا والوں پہ برتری دینے کے متعلق " قتادہ " اور " حسن " کہتے ہیں کہ ( علی العالمین) سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے مومنین نہ صرف اپنے زمانے ، بلکہ سب لوگوں اور زمانوں سے برتر اور افضل تھے ؛ جیسا کہ خدا نے بنی اسرائیل کو تورات کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے انتخاب کیا لیکن یہودی اس مقام کے لائق نہیں تھے۔ (حُمِّلُوا التَّوارهَ ثُمَّ لَم یَحمِلُوها..)[8] 2۔ (ارض موعود ) کا حقیقی دعوا اور ان کیلئے خدا ئی وعدہ دوسری چیز (ارض موعود) جو تورات نے یہودیوں کے دماغ میں ڈالی اور " کتاب مقدس " اور عہد عتیق (تورات) کے تحریف شدہ متون سے ملی ہے ،ایک صیہونی آئیڈیالوجی ہے جو بے بنیاد مفروضے پہ قائم ہے ۔تورات کے سفر پیدائش (18/15-21) میں یہ بات آئی ہے :" اس دن پروردگار نے (ایوام/ابرام،ابراہیم) کو ایک وعدہ / حکم صادر کیا اور کہا : آؤ چلیں اور میں دریائے نیل سے مصر اس بڑی نہر دریائے فرات تک تجھے دےدوں گا ۔"[9] صیہونیوں کا دعوا ہے کہ یہ خطاب خدا کی طرف سے ابراہیم خلیل اللہ ؑ کیلئے نازل ہوا لہذا سرزمین فلسطین (موعود) اس زمانے کی نسل ابراہیم ؑ کے یہودیوں کو دی گئی ہے۔ اس شبہہ اور دعوے کے جواب میں کہیں گے : بالفرض کوئی عہد وپیماں درکار اور یہ کام واقع ہوا ہو اسلئے خدا نے " زمین موعود " کا وعدہ ابراہیم ؑ اور ان کی نسل کو دیا ہے ۔اور ابراہیم ؑ کی نسل بنی اسرائیل میں منحصر نہیں ہے بلکہ اعراب بھی ان کی نسل سے ہیں ( فرزندان اسماعیل ؑ) اور ان میں سے حضرت محمد ﷺ ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں ۔ [1] - المسیری، عبدالوهاب. یهودیت و صهیونیسم. مؤسسه مطالعات و پژوهشهای تاریخ خاورمیانه [2] https://library.razavi.ir/quran/fa/41582
[3] https://lib.eshia.ir/10254/33/5. [4] http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=19983 [5] «الیهود و الصهیونیه و اسرائیل»، عبدالوهاب المسیری، ص24 [6] دکتر فاروق الشنّاق، ص 193
[7] «الأساطیر المؤسسه للسیاسه ال إسرائیله»، رجاء جارودی (روژه گارودی)، دارالعذ العربی، 1996م، القاهره، ص159. [8] سورہ جمعہ ، آیت 15 [9] رک. الآساطیرالموسسه، رجاء جارودی، ص155 | ||||
Statistics View: 430 PDF Download: 102 |
||||