حج ابراہیمی، اسلامی انقلاب کا ترقی پسند نظریہ | ||||
PDF (1268 K) | ||||
حج، اسلامی انقلاب کے عظیم تعلیمات اور افکار پر مبنی ایک عمل ہے، جس کی بنیاد مذہبی اور قرآنی تعلیمات پر مرکوز ہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرکے استکبار کے خلاف جذبے کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ یہ ظلم کے خلاف تبلیغ اور دشمن کے باپاک منصوبوں کو خاک میں ملانے کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اسلامی انقلاب نے دنیا کے سامنے خالص محمدی اسلام کا ایک حقیقی اور ترقی پسند نمونہ پیش کیا ہے، انقلاب نے استکبار کے بکھرتے جسم کو مذید دہشت اور خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام ایران کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں۔ حج ایک ترقی پسند نظریے کا نام ہے جس میں فلسطین سمیت سمیت عالم اسلام کے بحرانوں اور چیلنجوں کے حل کے لیے منصوبہ سازی کی جاتی ہے۔ سعودی حکام نے حالیہ برسوں میں اس حقیقت کی بنا پر عازمین حج کے لئےمناسب سہولتیں اور پلیٹ فارم مہیا کیے ہیں۔ مسلمانوں کے اتحاد اور ہم آہنگی اور دنیائے اسلام کے مشکلات کے حل کےلئےبہترین موقع فراہم کیا گیا ہے۔ فلسطین عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ اور مسلمانوں کے اجتماع، اتحاد اور ہم آہنگی کے اہم عوامل میں سے ایک ہے؛ لہذا یہی وجہ ہے کہ استکباری دنیا حج کے بڑے اجتماع سے سخت خوفزدہ ہے اور حج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتی نظر آتی ہے۔ انڈونیشیا کی آزادی میں حج کا کردار! حج کے سیاسی کردار کی ایک تاریخی مثال انڈونیشیا کی آزادی ہے۔ سعودی عرب میں مقیم انڈونیشی باشندوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد حج کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے انڈونیشیا کے مسلمانوں کو بیدار کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے انڈونیشیا کے معاشرے میں بیداری آئی؛ یہاں تک کہ بالآخر 1946 میں انہوں نے ہالینڈ کو مجبور کردیا کہ وہ انڈونیشیا کو ایک آزاد مملکت کے طورپر قبول کرے۔ حج کے ایام میں اسرائیل مظالم کے پرچار ان مثالوں میں سے ایک ہے جس نے دنیا بھر کے آزاد خیال انسانوں کو فلسطین کی حمایت پرمجبور کردیا؛ یہاں تک کہ بیس سال سے کم عمر فوٹبال ٹیم نے فلسطین کی آزادی کا مطالبہ کیا اور فلسطین کے جھنڈے کوایک عالمی تحریک کی شکل میں لہرایا۔ ان تاریخی واقعات اور اسی طرح کی بے شمار تاریخی مثالوں کا جائزہ لینے سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ استکبار کی دنیا سیاست سے مذہب کی علیحدگی کے تبلیغات کیوں کر رہی ہے؟ بدقسمتی سے کچھ لوگ لاعلمی یا دشمنوں کے ساتھ مل کر اس متکبرانہ نعرے کو دہراتے ہیں۔ لیکن اس اتحاد اور سیاسی عبادت کا ثمر، ایک دوسرے کو سمجھنے اور اپنے موقف کی وضاحت ہونا چاہئے۔ درحقیقت اگر عالم اسلام حج کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے کسی ایک گفتگو تک نہیں پہنچ سکتا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے اس منفرد صلاحیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حج کا نظریہ ایک ترقی پسند سیاسی نظریہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے منفرد اجتماع میں مسلمانوں کے اہم مسائل اور چیلنجوں کے علاوہ مرکزی مسائل پر بحث کی جانی چاہیے۔ اس وقت کے اہم ترین محوروں میں سے ایک ایران کے سیاسی اور سماجی حالات ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بین الاقوامی خاص طور پرمغربی ایشیائی خطے میں ایک بااثر ملک بن چکا ہے، ایران کی تمام سیاسی، سماجی اور اقتصادی ترقی پر دشمنوں کی نظر ہے اور ایران کی اس ترقی کو نقصان پہنچانے کےلئے اربوں ڈالر خرچ کرکے ایرانی عوام کو اسلامی انقلاب سے دور کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، ایرانی عوام کے ذہنوں میں جھوٹ پھیلا کر مایوسی اور پریشانی کا سبب بنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان منفی تبلیغات میں سے ایک ایرانی خواتین پرظلم، جبر اور حدبندی کے جھوٹے دعوئے کئے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایران میں خواتین پرظلم کیا جاتاہے، خواتین کو چاردیواری میں بند کیا جاتا ہے وغیرہ؛ لہذا حج کے موسم میں ایران کے سیاسی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام دشمن عناصر کے من گھڑت اور بے بنیاد تبلیغات اور سازشوں سے پردہ ہٹانا ضروری ہے:
اس وقت اسلام دشمن عناصر ایک اور منفی تبلیغ کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں کہ ایران میں اہل سنت پر ظلم کیا جارہاہے۔ من گھڑت اور جھوٹی خبریں پھیلا کر شیعہ سنی فسادات کروانے کی کوشش کی جارہی ہے؛ حالانکہ دیکھا جائے تو انقلاب اسلامی کے بعد اہل سنت علاقوں سے ایک بہت بڑی تعداد ملک کے مرکزی شہروں کی طرف ہجرت کرچکی ہے اور ملک کے مختلف اداروں میں بغیرکسی روک ٹوک کے ملازمت کررہے ہیں۔ اہل سنت جوانوں پرکسی قسم کا کوئی قدغن نہیں ہے وہ پوری آزادی کے ساتھ کسی بھی ادارے میں قوم و ملت کی خدمت کرسکتے ہیں۔ اس مذہبی اقلیت کا کردار کھیلوں کے میدانوں میں بھی پر رنگ ہے، اہل سنت جوان بین الاقوامی مقابلوں میں ایران کی نمایندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حج کے موسم میں چند ایک نکات کی وضاحت ضروری ہے:
مختلف ممالک خاص کرمسلمانوں کے ساتھ ایران کی فعال اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی مشارکت نیز مغربی ایشیا کے استحکام، امن و آشتی میں فعال اور وسیع کردار ظاہر کرتا ہے کہ ایران دنیا میں امن و امان چاہتا ہے اور تمام اقلیتوںکے حقوق کا علمبردار ہے۔ ایران نے ہمیشہ مختلف قبیلوں اور نسلی گروہوں کو مضبوط کیا ہے اور ان کے تحفظ کی کوشش کی ہے اور مختلف زبانوں اور لہجوں کی حمایت بھی اس طرح کی ہے کہ جس سے مختلف قومیں خاص کر، کرد، لور، گلیک، بلوچ اور ترکمان دنیا میں مشہور ہو گئی ہیں۔ حج کی منفرد صلاحیت کو بروئے کار لا کر اس مسئلے پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے اور مسلم ممالک کو آگاہ کر کے دشمنوں کو پسپا کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ | ||||
Statistics View: 408 PDF Download: 101 |
||||