اسلامی فن تعمیر اور مساجد | ||
اسلامی فن تعمیر اور مساجد مصوّری، خطاطی، فنِ تعمیر اور موسیقی کو فنونِ لطیفہ کہا جاتا ہے۔مسلم دورِ حکومت کے دوران جنوبی ایشیاء(برصغیر پاک و ہند) میں یہ فنون خوب پھلے اور پھولے۔یہ کامیابیاں اور کامرانیاں پاک و ہند کا قومی ورثہ ہیں۔ برصغیر میں مصوّروں نے اعلیٰ پائے کی مصوّری کی۔خطاطوں نے قرآن پاک کی آیات کو نہایت خوبصورت انداز میں رقم اور اسلامی اور قرآنی خطاطی کے اعلیٰ نمونے تخلیق کیے ہیں۔ سنگ تراشی، نقاشی اور دھاتوں اور لوہے سے زیورات سازی، ظروف سازی اور اسلحہ سازی میں بہترین اور شاہکار نمونے تخلیق کیے گئے ہیں۔خوبصورت عمارت میں بھی مسلمانوں کا روایتی فنِ تعمیر کا عکس نظر آتا ہے۔ معماری کا لفظ عربی کے عمر سے ماخوذ ہے جس کے متعدد معنوں میں سے ایک معنی سکونت اور رہائش یا رہنے کے ہوتے ہیں اسی سے عربی میں عمارۃ بنایا جاتا ہے یعنی وہ جگہ کہ جہاں رہائش اختیار کی جاسکتی ہو اسی عمر سے معمار بنا ہے یعنی وہ شخص جو رہنے کی عمارت کو بناتا ہو اور اسی سے اس بنانے کے عمل کا نام یعنی معماری بھی اخذ کیا جاتا ہے۔ مسلم فن تعمیر کا ایک شاندار نمونہ مسجد تھا۔مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ 'مسجد' عربی الاصل لفظ ہے جس کا لغوی مطلب ہے ' سجدہ کرنے کی جگہ'۔عموماً اسے نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر یہ کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع کے لیے، تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد (مسجد کی جمع) سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ مثال کے طور پر جامعہ الازہر، جامعہ زیتونیہ ، اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر نے بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔ سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ دوسری مسجد 'مسجد قباء' تھی جس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب وہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے۔ تیسری مسجد 'مسجد نبوی' تھی جس کی بنیاد بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا۔ مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا۔ آج مسجد الحرام اور مسجد نبوی مسلمانوں کی مقدس ترین جگہیں ہیں۔ دنیائے عرب سے باہر اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی مساجد تعمیر ہو گئیں۔ا یرانکی فتح کے بعد ایران، عراق اور موجودہ افغانستان میں اسلام پھیلا تو وہاں مساجد تعمیر ہوئیں جن میں سے کچھ تیرہ سو سال قدیم ہیں۔ ہندوستان میں پہلے سندھ اور بعد میں دیگر علاقوں میں آٹھویں صدی عیسوی سے مساجد تعمیر ہوئیں۔ بعد میں مغلوں نے بڑی عالیشان مساجد کی تعمیر کی جن میں سے بہت سی آج موجود ہیں مثلاً (جامع مسجد دہلی) دہلی، بھارت (بادشاہی مسجد) لاہور، پاکستان۔ مساجد مسلمانوں کے مراکز ہیں جن کے مقاصد صرف مذہبی نہیں رہے بلکہ مسلمانوں کا معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مرکز بھی مسجدیں رہی ہیں۔ باجماعت نمازیں مسلمانوں کے آپس کے تعلقات، میل جول اور حالات سے آگاہی کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد جنگوں اور دیگر ہنگامی حالات میں ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلمین کو پناہ دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں مثلاً مسجدِ پیرس دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔ مساجد کا سیاسی کردار بھی تاریخی طور پر شروع سے جاری رہا ہے۔ صدیوں تک مساجد میں انقلابی تحریکوں نے جنم لیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے رابطہ کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ جدید دور میں بھی مساجد کا سیاسی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی واضح مثال لال مسجد اسلام آباد کی ہے۔ حکومتیں بھی مساجد اور مساجد کے ذمہ داروں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ابتدائی مساجد بہت سادہ تھیں اور ایک منزلہ سادہ عمارت پر بھی مشتمل ہوتی تھیں جس کے ساتھ کوئی مینار یا گنبد ضروری تھا۔ اسلام میں مسجد کے لیے صرف جگہ مخصوص ہوتی ہے مگر اس کے طرزِ تعمیر پر کوئی قدغن نہیں۔ ابتدا میں مسجد نبوی کھجور کے تنوں کے ستونوں اور اُس کے پتوں کی چھت سے تعمیر ہوئی تھی۔ کعبہ پتھروں سے بنی تھی جس کے اردگرد کھلے احاطے میں عبادت ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے وسائل بڑھتے چلے گئے اور انہوں نے اپنی ضرورت اور علاقے کی ثقافت کے مطابق مساجد تعمیر کیں۔ وقت، ضرورت اور ثقافت کی عکاسی کی وجہ سے مساجد میں کئی چیزیں تقریباً ضروری ہو گئیں جیسے مینار، گنبد، مسجد میں ایک صحن، وضو کے فوارے (یا تالاب یا نلکوں والی جگہ)، نماز کے لیے ہال، کتب خانے، مطب اور بعض مساجد کے ساتھ مدارس، تحقیقی مراکز یا باقاعدہ جامعات شامل ہیں۔مساجد میں مہنگے کام اور بلند مینار اور گنبد بعد میں بننا شروع ہوئے۔ مینار مسجد کی بنیادی پہچان ہے جس سے مسجد دور ہی سے نظر آسکتی ہے۔ بنیادی طور پر مینار پر چڑھ کر اذان دی جاتی تھی جس سے آواز دور تک جاتی تھی مگر اب اذان مسجد کے اندر سے دی جاتی ہے کیونکہ لاوڈ سپیکر سے آواز کو دور دور تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ مسجد کے مینار کی اونچائی پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ بہت چھوٹا بھی ہوسکتا ہے اور بہت اونچا بھی۔ یورپ میں چھوٹی مساجد میں تو مینار ہی نہیں ہوتے کیونکہ وہ اکثر ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ شروع میں مساجد کے مینار نہیں تھے اور وہ بہت سادہ تھیں مگر جلد ہی مینار مساجد کا تقریباً لازمی حصہ بن گئے۔ مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ مینار کلیساووں کے مینار دیکھ کر بنائے گئے مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ عرب تعمیرات میں پہلے ہی سے مینار بنتے تھے خصوصاً مختلف دفاعی قلعوں کے ساتھ مینار دور تک دیکھنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ مساجد میں میناروں کی تعداد ایک سے لے کر چھ تک ہوتی ہے۔ اکثر مساجد میں چار مینار ملتے ہیں۔ ترکی کی کئی مساجد میں چھ مینار ہیں۔ مسجد الحرام میں کل نو مینار ہیں جو مختلف اوقات میں تعمیر ہوئے ہیں۔ مسجد نبوی کے دس مینار ہیں جن میں سے چھ 99 میٹر اونچے ہیں۔مینار کے اوپر جانے کے لیے دو سو چار سیڑھیاں ہیں۔ مسجد حسن ثانی کا مینار، بادشاہی مسجد کا مینار اور مسجد الحضر کا مینار دنیا کے لمبے ترین میناروں میں سے کچھ ہیں۔میناروں کی اشکال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔ پاکستان، بھارت اور ایران میں مینار عموماً گول ہوتے ہیں اور کافی موٹائی رکھتے ہیں۔ ترکی میں عموماً مینار گول مگر کم موٹائی والے ہوتے ہیں۔ شام اور مصر میں بہت سے مینار چورس(مربع شکل کے) ہوتے ہیں۔ مصر میں ہشت پہلو مینار بھی ملتے ہیں۔ مگر ان تمام مذکورہ ممالک میں دوسری اقسام کے مینار بھی ملتے ہیں۔ میناروں کے اوپر سرخ، فیروزی یا دیگر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جن سے ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایران اور عراق میں بعض مینار سنہری رنگ کے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپری حصے میں اصلی سونے سے ملمع کاری کی گئی ہے۔ گنبد آج کل کی مساجد کا تقریباً جزوِ لازم ہیں۔ گنبد کا بنیادی مقصد صرف خوبصورتی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے خطیبِ مسجد کی آواز پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ اس کے علاوہ اب گنبد مساجد کی پہچان بن چکی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا روضہ مبارک مسجدِ نبوی میں ہے جس کا سبز گنبد بہت مشہور ہے۔ روضہ مبارک کی تصاویر میں سب سے نمایاں یہی گنبد ہے۔ فلسطین میں حرم قدسی الشریف میں واقع الصخرہ بھی تحریکِ آزادیِ فلسطین کی پہچان ہے۔ یہ مسلمانوں کا شاید سب سے پرانا قائم گنبد ہے۔ ایران میں مساجد کے بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر ہوئے ہیں۔ مثلاً مسجدِ امام، اصفہان کا گنبد یا مسجد گوہر شاد، مشہد کا گنبد۔ برصغیر پاک و ہند کے گنبد بھی قابلِ دید ہیں۔ سندھ میں عربوں کی آمد کے بعد کئی مساجد تعمیر ہوئیں جن کے ساتھ سادہ مگر بڑے بڑے گنبد تھے مگر بعد میں مغل بادشاہوں نے بڑی شاندار مساجد تعمیر کیں مثلاً بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کے سفید گنبد بہت ہی خوبصورت اور بڑے ہیں۔ مغلوں کی تعمیر کردہ بابری مسجد کے گنبد بھی بہت بڑے تھے ۔ جدید دور میں تعمیر ہونے والی کراچی، پاکستان کی مسجد طوبیٰ کا گنبد یک گنبدی مساجد میں سب سے بڑا ہے جو 72 میٹر (236 فٹ) قطر کا ہے اور بغیر کسی ستون کے تعمیر ہوا ہے۔ گنبدوں کے اندرونی حصوں پر بڑی خوبصورت نقاشی بھی ہوتی ہے اور اکثر قرآنی آیات بھی لکھی جاتی ہیں۔ بعض گنبدوں میں شیشے لگے ہوتے ہیں جس سے روشنی بھی اندر آسکتی ہے۔ گنبد کی اندرونی نقاشی زیادہ تر گہرے نیلے، فیروزی یا سرخ رنگ میں کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ رنگ اونچے گنبدوں میں بھی گنبد کے نیچے کھڑے افراد کو بخوبی نظر آ سکتے ہیں مساجد میں مثلاً برصغیر میں مغلوں کی تعمیر کردہ مساجد، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں منگولوں اور صفویوں کی تعمیر کردہ مساجد ، مراکش، تیونس، مصر وغیرہ میں تعمیر کردہ مساجد اور عراق اور دیگر عرب علاقوں کی مساجد سب ہی کے نقش و نگار ایسے ہیں جو صدیوں سے آب و تاب سے قائم ہیں۔ صحراء کی گرم ریتلی ہوا یا بارش ان رنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بگاڑا تو حملہ آور افواج نے ذرہ بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ | ||
Statistics View: 4,605 |
||