اسلامی انقلاب اور خواتین | ||
اسلامی انقلاب اور خواتین انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں خواتین کا کردار نہایت اہم ہے۔ معاشرے کی ترقی کا ذریعہ انسان کی صلاحیتوں کے نکھار اور افرادی قوت کی تربیت میں پوشیدہ ہے۔ سماجی ماہریں کی تحقیقات کے مطابق معاشرے کی افرادی قوت کی تعلیم و تربیت میں خواتین کا کردارسب سے نمایاں ہے۔ اسلام کے قانون اور تعلیمات انسان کی فطرت کے عین مطابق ہیں لہذا اسلام نے خواتین کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران میں دو سلسلے جاری تھے۔ دونوں سلسلوں نے عورت کی پہچان اور حیثیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک سلسلہ قاجاری دور سے متعلق ہے۔ اس میں دو خصوصیات یعنی جہالت اور کم مائیگی شامل تھیں جبکہ دوسرے سلسلے یعنی پہلوی دور میں معاشرے کی صورتحال مکمل طور پر بدل گئی اورمغرب کی سیاست و ثقافت ایران میں نافذ ہوگئی نئی صورت حال میں عورت کی طرف توجہ بڑھنے لگی لیکن ساتھ ہی وہ اپنی انسانی پہچان سے بھی دور ہوتی چلی گئی۔ ایران میں 1979ء میںعظیم اسلامی انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجے میں اس ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد معاشرے میں بنیادی تبدیلی آئی اس کے اثرات خواتین پر بھی پڑے عورت کے رجحانات میں تبدیلی آئی؛ وہ فکری، علمی، ثقافتی اور اجتماعی مسائل کی ترقی کے راستے پر گامزن ہونے لگی؛ حضرت امام خمینی (رہ)نے اسلامی انقلاب کے انہی ابتدائی دنوں میں معاشرے میں مسلمان خواتین کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاتھا : "اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ترقی کریں۔ اسلام نے عورت کو جاہلیت کی خرابیوں سے بچایا۔... اسلام یہ چاہتا ہے جیسے مرد اہم کاموں کو سرانجام دیتا ہے عورت اس طرح انجام دے ۔...اسلام یہ چاہتا ہے کہ عورت اپنی حیثیت اور قدر و منزلت کو محفوظ رکھے۔...اسلام نے عورت کی جو خدمت کی ہے اس کا سراغ کہیں اور نہیں ملتا ہے۔" حضرت امام خمینی (رہ) کے ارشادات نے ایرانی عورت میں ایک نئی روح پھونک دی اور اس نے سیاسی، اجتماعی سرگرمیوں میں شرکت کو اپنی مقبولیت کا ثبوت دینے کے لئے بہتریں طریقہ سمجھا۔ انقلاب کے دوران بھی خواتین نے بہت شاندار حصہ لیا۔ وہ اسلامی حکومت کے لئے بے چین تھیں۔ وہ اس دن کا انتظار کرتی تھیں کہ اپنے رہبر کی قیادت میں اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا اظہار کریں۔ اس دن کو پانے کے لئے وہ انقلاب کے جلوسوں میں نعرے لگاکر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی تھیں۔ خواتین نے اپنی صلاحیتوں کو وسعت دینے کے لئے اپنی اجتماعی سرگرمیوں کو علم و دانش کے چراغ سے سجایا اور یوں عورت کی الہی فطرت اور پہچان سب پہلوؤں میں نمایاں ہوتی گئی ۔ ایران کے اسلامی جمہوریہ کا آئین، اسلام کے قانون سے پھوٹا ہے۔ اسی بنا پر حکومت نے اپنے قوانین میں خواتین کے سارے اسلامی حقوق کو مدنظر رکھا ہے۔ ایران کی اسلامی قومی اسمبلی میں معاشرے میں خواتین کی سرگرمیوں کے بارے میں انتہائی مفید قوانین منظور کیے گئے ہیں۔ اس قانون سےخواتین کو کافی حمایت ملی۔ خاص طور پر بے کس اور بےسہارا عورتوں کے لئے کافی سہولتیں پیدا ہوئی ہیں۔ اسلامی ایران کے قانون میں عورت کی عزت و وقار کا اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ معاشرے یا گھر میں اس کا احترام ہر ایک پر لازم ہے۔اس کے نتیجے میں عورت کو تحفظ کا احساس ملا۔ اب عورت پورے اطمینان سے معاشرے کے ہر میدان میں اپنی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہے۔ قرآن پاک کی آیات میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی خدا کی مخاطب قرار پاتی ہیں۔ خواتین کی سرگرمیوں کی حد بندی میں جو فرق اسلام اور مغرب میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ مغرب یہ چاہتا ہے کہ عورت کو معاشرے میں ایک عیش پرستی اور اشتہارات و غیره کے لئے بروئے کار لائے۔ لیکن اسلام اور ایران اسلامی یہ چاہتا ہے کہ خواتین کو ان کی صلاحیتوں نیز جسمانی اور نفسیاتی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ذمہ داریاں سونپی جائیں۔ اسلام نے عورت کا مادی اور معنوی رتبہ متعین کیا ہے۔ اسی وجہ سے اس رتبے کے لئے کچھ شرائط بھی وضع ہوئی ہیں۔ جن میں سے ایک اہم مسئلہ پردہ ہے۔ پردہ معاشرتی مسائل میں سے ایک ہے جو معاشرے میں عورت کو اعلی مقام عطا کرتاہے۔ اسی طرح معاشرے میں عورت اور مرد کے اچھے تعلقات پر تاکید ہوئی ہے۔ یہ تاکید عورت اور مرد کی فطرت اور ان کی ذمہ داریوں کی نوعیت کے مطابق ہے۔ اچھے اور فطری تعلقات جہاںانسانی صلاحیتوں کی نشو ونما کا باعث ہوتےہیں۔ وہاں اس امر سے گھرانے اور بچوں کے لئے محبت اور امن کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسلامی تعلیمات میں عورت مہر و محبت کا مرکز ہے اور وہ وقار و تقوی سکھانے والی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اور یوں اس کی صلاحیتیں بے کار نہیں جاتیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں عورت کی وضع قطع اور رہن سہن اسلامی احکام کے مطابق ہونا چاہیے۔ انقلاب سے پہلے ایران کے ایک طبقے میں مغربی کلچر کا رجحان عروج پر تھا جس سے عورت کی ایک ایسی تصویر بنتی تھی جو بردگی، جہالت، شکوک و شبہات، وہم اور مظلومیت کی تصویر تھی۔ اگرچہ اس تصویر میں مغربی عورت نے اپنے لئے آزادی اور مردوں سے برابری کا ظاہری مقام پایا تھا لیکن انہوں نے اپنی حقیقی عزت کو کھودیا تھا۔ اگر عورت کا وقار نظرانداز کیا جائے تو ہر میدان میں جتنی بھی ترقیاں حاصل ہوجائیں وہ بیکار ہوں گی۔ گھرانا، ثقافت کے منتقل کرنے میں ایک اہم اوزار کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت ،خاندان میں اپنی ذمہ داریسنبھالنےکےساتھساتھاجتماعمیںمفیدحصہ ڈال سکتی ہے۔ آجکل پردو مسلمان عورت کی نشانی ہے۔ دنیا میں ہر عورت جو پردے کے ساتھ سامنے آتی ہے تو اس کا پردہ گویا اسلام کا پرچم ہے۔ وہ یہ دکھاتی ہے کہ اس نے مغربی زندگی کو چھوڑدیا ہے۔وہ مغربی برہنگی کو پسند نہیں کرتی ہے۔ وہ اپنی آزادی کو صحیح معنوں میں اپنانا چاہتی ہے۔ اسی وجہ سے مغربی لوگ اسلامی پردے سے گھبراتے ہیں۔ ایرانی چادر یا پردہ، انقلابی عورت کے وقار کا مظہر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے عظیم رہبر حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں:"اسلام نے عورت پر پردے کو فرض قراردیا ہے کیونکہ وہ ایک آزاد انسان ہے اور اس طرح وہ پاک و صحت مند ماحول میں اپنے معاشرتی فرائض کو انجام دے سکتی ہے۔" آج کی ایرانی خواتین کے لئے مثالی نمونہ مغربی عورت نہیں بلکہ سب سے بہترین آئیڈیل حضرت فاطمہ زہرا(س) ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں پچھلے تینتیس سال سے خواتین کی طرف جتنی توجہ دی گئی ہے اور ان کے مسائل کے مطالعات اور ان کے حل کے بارے میں جتنی تجاویز پیش کی گئی ہیں اور اس موضوع پر جتنا کام ہوا ہے اس کا اس سرزمین کے کسی تاریخی دور سے ہرگز موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی انقلاب جو ثقافتی اور تہذیبی تبدیلی لایا ہے اس کے نتیجے میں خواتین کی اہمیت اور عظمت کے بارے میں لوگوں کے خیالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ حکومت اور ملک کی مختلف تنظیموں اور اداروں نے خواتین کے حقوق کے حامی بن کر اسی راستے میں اہم قدم اٹھائے ہیں۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد خواتین کی سرگرمیوں کو وسعت دینے کے لئے علمی، سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی میدانوں میں سرکاری اور نجی اقدامات انجام دیئے گئے جن کی چند مثالیںذیل ہیں: سرکاری وزارتوں میں خواتین کے مسائل کے جائزہ کے لیے ایک یونٹ جس کا نام "بسیج خواہران" ہے(خواتین کے اجتماعی اور ثقافتی رضاکار کمیٹی جو ثقافتی انقلاب کے اعلی سنٹرل کمیٹی سے وابستہ ہے۔)۔ تمام صوبوں میں خواتین کے مسائل سے متعلق کمیٹیاں، صدارتی دفتر میں خواتین سے متعلق آفیس، وزارت خارجہ میں خواتین کا بین الاقوامی آفیس، اعلی عدالت میں خواتین کے مسائل کا جائزہ لینے کے لئے خصوصی یونٹ، قومی اسمبلی میں خواتین سے متعلق ایک مرکزی یونٹ یہاں خواتین کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اگر قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہو تو اس کا جائزہ لیا جاتا ہے، خواتین کے مذہبی مراکز، ایران کی اسلامی جمہوریہ میں "جمعیت زنان" کی تشکیل، خواتین کے مسائل سے متعلق مطالعات اور تحقیقات کا مرکز، خاندان کو محفوظ رکھنے کے لئے عدالتوں کی تشکیل، دیہاتی اور بے سہارا خواتین کے مسائل حل کرنے کے مراکز۔ ان کے علاوہ بہت سے ایسے مراکز ہیں جہاں نہ صرف خواتین کے مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ خود خواتین ہی ان کو چلاتی ہیں۔ اسی طرح خواتین کی سیاسی اور علمی سرگرمیاں ہیں: خواتین کی انجمن یعنی "جمعیت زنان" کے ذریعے حضرت امام خمینی (رہ) کے علمی اور فکری سیرت کا مطالعہ، ایران کے اکثر صوبوں میں ثقافتی اور فنی کارناموں کی نمائش، اسلامی معاشرے اور گھرانے میں خواتین کے کردار اور اسلام میں عورت کے حقوق سے متعلق مختلف سمینار، قومی انتخابات میں خواتین کے ووٹ کی نگرانی، قومی اسمبلی میں خواتین کے امیدواروں کی تعداد میں اضافہ، نماز جمعہ میں خواتین کی بھرپور شرکت، ملک کی خواتین کو معلومات بہم پہنچانے کے لئے اہم مراکز کا قائم کرنا۔ ایرانی خواتین نے انقلاب کے میدان میں قدم رکھ کر اسلامی حکومت کو مضبوط بنانے میں بھرپور اور اہم کردار ادا کیا۔ انقلاب میں خواتین کا کردار ناقابل انکارہے۔ سائنس و ٹیکنولوجی کی ترقی اور وسعت دینے میں بھی عورتوں کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اسلامی انقلاب اور اس کے بعد آٹھ سال مسلط کردہ جنگ کے دوران خواتین کی کارآمد موجودگی ان کے احساس ذمہ داری کی نشاندہی کرتی ہے۔ جنگ کے دوران بہت سی بہادر خواتین نے اپنے ملک کا دفاع کیا ہے اور اپنے ہم وطن بھائیوں کا ساتھ دیا۔ وہ ڈاکٹر یا نرس کی حیثیت سے محاذ پر موجود رہیں اور اپنے مجاہدیں کو ہرطرح کی مدد بہم پہنچائی۔ ایران میں ایسی خواتین بھی ہیں جو ایک یا ایک سے زیادہ حتی تین یا چار شہید بیٹوں کی ماں ہیں۔ ایسی خواتین بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کے شوہر جنگ میں شہید ہوگئے اور انہوں نے اپنی اولاد کو ایسے پالاہے کہ وہ تعلیمی میدان میں دوسروں سے بھی آگے نکل گئے۔ چھٹی قومی اسمبلی میں الیکشن میں امیدوار خواتین کی تعداد 351 تھی اور ساتویں قومی اسمبلی میں یہ تعداد 504 تک بڑھ گئی۔ یعنی 43 فیصد اضافہ ہوا۔ بعض سرکاری اداروں میں خواتین اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ وہ اپنی مہارت کی وجہ سے قابل تحسین ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں لڑکیوں کی شرح خواندگی 95 فیصد ہے۔ یونیورسٹی میں داخلے کی امیدوار لڑکیوں کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔ فی الحال یونیورسٹی کے طالبعلموں میں، 63 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں اور یونیورسٹی میں گذشتہ حکومت کی نسبت، خواتین اساتذہ کی تعداد میں بھی تیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب کے بعد زبان و ادب کے شعبے میں خاص طور پر داستانی ادب کے میدان میں تخلیقی کام سامنے آیا ہے۔ کھیل کے میدان میں بھی خواتین کا کردار قابل توجہ ہے، اس سلسلے میں مختلف مقابلوں میں عورتوں نے حصہ لےکر اعلی اعزازات حاصل کیے ہیں۔ علمی میدان میں بین الاقوامی کانفرنسوں میں ان کی شرکت بھی قابل تعریف ہے۔ ایرانی خواتین صرف کھیل کے ان مقابلوں میں شرکت سے انکار کرتی ہیں جہاں اسلامی پردے کے بغیر منظر عام پر آنا پڑتا ہے ایران میں لوگوں کا ایک اہم ذریعۂ آمد و رفت ٹیکسی ہے۔ یہ شعبہ سرکاری نگرانی میں اپنا کام کرتا ہے اس سلسلے میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ تہران اور کچھ دوسرے بڑے شہروں میں خواتین مسافروں کے لیے خواتین ٹیکسی چلاتی ہیں۔ یہ حکومت کا ایک مثبت قدم تھا۔ ایران کی ایک چوتھائی آبادی دیہاتی عورتوں پر مشتمل ہے۔ یہ عورتیں اپنی اولاد کی پرورش کے ساتھ ساتھ مسلسل کوششوں سے زرعی اور مویشی پالنے اور دستکاری کی صنعت سے بھی وابستہ ہیں اور یوں اپنے خاندان اور ملک کی معاشی کی خوش حالی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایران کی دستکاری کی صنعت میں ایک بڑا حصہ دیہاتی خواتین کا ہے۔ حکومت کی طرف سے دیہاتی خواتین کے لئے مختلف تربیتی کورسز رکھے جاتے ہیں تا کہ دستکاری اور چھوٹی صنعت کی ترقی میں خواتین کو بہتر مواقع مل سکیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد سینما میں اچھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ موجودہ فلمیں انقلاب سے پہلے کی فلموں سے قابل قیاس نہیں ہیں۔ ان میں ایک اہم تبدیلی خواتین سے وابستہ ہے۔ خواتین پردے کے ساتھ کیمرے کے سامنے آتی ہیں۔ ان کی اداکاری بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہے۔ اس شعبے میں خواتین اتنی کامیاب ہوئی ہیں کہ ان کو بین الاقوامی سطح پر بھی ایوارڈ ملے ہیں۔ ایران میں کئی خواتین فلم دائرکٹر ہیں جن کی بنائی ہوئی فلمیں دنیا میں بے مثالہیں۔ اسلامی انقلاب ایک ایسا روشن ستارہ بنا جو مسلم خواتین کی مظلوم تاریخ میں امید کا چراغ بن کرچمکا۔ خواتین کو اپنی صلاحیتوں پر یقین آیا۔ وہ ایمان اور ایثار سے سرشار، مردوں کے شانہ بشانہ ملک کو آباد کرنے کے لئے میدان عمل میں اترگئیں۔ عورت کا گھر اور معاشرے میں مقام اور اس کی سرگرمیوں کی حدبندی اسلامی افکار کے سانچے میں تشکیل پائی ہے۔ یہ نظریہ ایسا چراغ تھا جو معاصر تاریخ کے عظیم انسان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) کے ہاتھوں سے روشن ہوا۔ یہ الہی اور حیات بخش فکر امام خمینی کے بعد حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: (حضرت آیت اللہ خامنہ ای):"اس دور کا سب سے ضروری کام یہ ہے کہ خاندان اور سماجی نظام میں خواتین کا مقام، ان کی قدر و منزلت کے مطابق تعین ہو۔" | ||
Statistics View: 3,432 |
||