نسل جوان جدیدیت اور ماڈرن ازم | ||
نسل جوان جدیدیت اور ماڈرن ازم انسانی زندگی کو بنیادی طور پر تین ادوار یعنی بچپن ، جوانی اور بڑھاپے میں تقسیم کیا جاتا هے لڑکپن اور ادھیڑ عمر بھی زندگی کےحصے هیں لیکن لڑکپن جوانی کا آغاز اور ادھیڑ عمر جوانی کا خاتمه اور بڑھاپےکے دروازے پر دستک دینا هے۔ ایک بچه جب لڑکپن سے جوانی کی دهلیز پر قدم رکھتا هے تو گویا وه ایک ایسے دو راهے پر پهنچتا هے جهاں اس نے آئنده کے راستے کا انتخاب کرنا هوتا هے ان میں ایک راسته بلندی اور عروج کا راسته هے جبکه دوسرا تنزلی اور زوال کا راسته ۔عروج اور زوال کے بارے میں مادی اور روحانی مکاتب اپنی اپنی نظر رکھتے هیں ۔ مادی مکاتیب میں ترقی و عروج ، علم و مقام اور مرتبے و منصب کا حصول صرف ذات اور مادی آسائشوں کے لئےهوتا هے جبکه الهی مکاتیب میں انسان کی خلقت سے لیکر انسان کی ترقی و پیشرفت تمام تر چیزیں الهی اهداف اور قربت خداوندی کے حصول کے لئے هوتی هیں یهی وجه هےکه جوانی کے بارے میں دونوں مکاتب اپنی اپنی نظر اور فلسفه رکھتے هیں ۔ نوجوان کسی بھی معاشرے کا طاقتور اور متحرک ترین طبقه هوتا هے یهی وجه هے که اس معاشرے کا دوست اور دشمن دونوں اسی کوشش میں هوتے هیں که نوجوان طبقه کو جذب کرکے انهیں اپنے اهداف کے لئے استعمال کریں اس میں کوئی شک و شبه نهیں کہ نوجوان هر معاشرے کا انتهائی قیمتی سرمایه هوتے هیں اگر کسی معاشرے کا نوجوان صحیح انداز سے تربیت پا جائے تو وه اس معاشرے کی زینت ، عزت ، غیرت اور جرات و بهادری کی علامت بن جاتا هے اور اگر خدا نخواسته کسی قوم ، ملت یا معاشرے کا نو جوان طبقه بے راهروی کا شکار هو جائے تو وه قوم ، ملت اور معاشره نه صرف اپنے بلند و بالا اهداف سے محروم هو جاتا هے بلکه زوال اور انحطاط اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا هے ۔ نوجواں کی اهمیت کے پیش نظر دین اسلام نے نوجواں نسل کو بهت زیاده اهمیت دی هے۔ اور اس کی تربیت کو دو نسلوں کی تربیت قرار دیا هے۔ قرآن حکیم و مجید میں بهت سے آیات اور معصومین علیهم السلام کے حکیمانه فرامین میں بارها بلواسطه یا بلاواسطه نوجوانوں کو مخاطب کرکے، ان کو ان کی عزت و منزلت ،اہمیت نیز ان کی ذمه داریوں سے آگاه کیا هے ۔ رسول اکرم حضرت محمد صلی الله علیه و آل وسلم کی سیرت طیبه کا مطالعه کرنے سے پته چلتا هے که آپ نے جب اپنی بعثت کا اعلان کیا تھا تو آپ کے ابتدائی ساتھیوں میں اکثریت نوجوانوں کی تھی آپ نےعلی ابن ابی طالب کو ابتدائی جوانی میں اپنا وصی اور ولی بناکر گویا ثابت کردیا که اس عظیم مشن کو انجام دینے کے لئے صرف عمر میں بڑا هونا کافی نهیں اسی طرح آپ نے مکه مکرمه کے باهر جس کو اپنا نمائنده مقرر کیا تھا وه کوئی بوڑھا ، تجربه کار اور جهاندیده سفید ریش شخص نهیں بلکه اکیس ساله جوان مصعب بن عمیر تھا اسی طرح فتح مکه کے بعد اکیس ساله عتاب بن اسیر کو مکه مکرمه کا فرمانروا مقرر فرمایا ۔ روم جیسی اس زمانے کی سپرپاور کے مقابلے میں اٹھاره ساله اسامه کو امیر اور کمانڈر مقرر فرمایا ۔ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق نے اپنے ایک صحابی کو جب وه تبلیغ کے لئے بصره کی طرف جا رها تھا نصیحت کرتے هوئے فرمایا : نوجوانوں کی طرف زیاده توجه دو ! کیونکه نوجوان نیکی کے کاموں میں دوسروں سے آگے هوتے هیں ۔ امام صادق علیه السلام نوجوانوں کی عبادت کو عام افراد کی عبادات سے افضل و برتر قرار دیتے هوئے فرماتے هیں : جب کوئی مسلمان نوجوان قرآن مجید کی تلاوت کرتا هے تو قرآن اس کے گوشت اور خون میں رچ بس جاتا هے اور خداوند عالم اسےاپنے عظیم و بلند مرتبت انبیا میں شمار کرتا هے اور قرآن قیامت کے دن خود اس کا حامی و دفاع کرنے والا هوگا ۔ اسلام جهاں ایک طرف نوجوانوں کی اهمیت بیان کرتا هے وهان نوجوانوں میں الهی صفات کو بھی دیکھنا چاهتا هے ۔ قرآن پاک میں سوره لقمان میں حکیم لقمان اپنے بیٹوں کو جو حقیقت میں تمام دنیا کے بیٹوں اور نوجوانوں کی علامت ہیں نصیحت کرتے هوئے کهتا هے : "اے بیٹا الله کے ساتھ کسی کو شریک نه ٹھہرانا ۔ یقیناً شرک بهت بڑا ظلم هے ۔ حضرت لقمان ایک اور مقام پر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے هوئے کهتے هیں :"ا ےبیٹے نماز قائم کرو اور نیکی کا حکم دو اور بدی سے منع کرو اور جو مصیبت تجھ پر آئے اس پر صبر کرو اور یقیناً یه امور همت طلب هیں قرآن مجید میں هماری تربیت کے لئے انبیا کے جو واقعات بیان کیے گئے هیں ان میں اکثر انبیا کے جوانی کے ایام سے متعلق هیں مثلا ًحضرت موسی (ع) جوانی میں فرعون کے خلاف قیام شروع کرتے هیں ، حضرت ابراهیم کو قرآن نے ایک نوجوان کی حیثیت سے مخاطب کیا هے جب وه بتوں کو پاش پاش کرکے هتھوڑے یا کلهاڑے کو بڑےبت کی گردن میں ڈال دیتا هے ۔ حضرت یوسف جب زلیخا کے تمام تر شیطانی حربوں کے مقابلے میں اپنی عفت و پاکدامنی کا دفاع کرتے هیں تو وه اس وقت عین شباب اور جوانی کے مرحلے میں تھے ۔ حضرت داوود نے جوانی میں جالوت کو شکست فاش دی گویا قرآن ان انبیا کی مثالیں د ےکر نوجوانوں کو جرات و بهادری ، صبر و شکیبائی ، عفت و پاکدامنی ، حق پذیری و استقامت اور عبادت و توسل کا سبق دینا چاهتا هے ۔ قرآن ان هستیوں کو نوجوان نسل کا آئیڈیل بناکر پیش کر رہا هے ۔ آسمانی ادیان اور اسلامی تعلیمات نے هر دور کی نوجوان نسل کو انبیا میں ابراهیم ، اسماعیل ، یوسف ، داوود اور موسی اور انبیا کی ذریت میں حضرت علی اکبر اور حضرت عباس جیسے آئیڈیل روشناس کرائے هیں ۔ کتنے افسوس کی بات هے که آج اسلامی معاشرے کا نوجوان ان عظیم مثالی شخصیتوں کو فراموش کرکے کرکٹ و فٹ بال کے کھلاڑیوں اور فلمی اداکاروں کو اپنا آئیڈیل بناتاہے علامه اقبال نے اس طرف متوجه کیا ہے : " ا ےپسر ذوق نگه از من بگیر سوختن در لا اله از من بگیر لا اله گوئی بگو از روے جان تا ز اندام تو آید بوے جان جدیدیت اور ماڈرن ازم یعنی انسان اپنی پاکیزه اقدار کو چھوڑ کر مغرب کی پست اور متعفن ثقافت کو اپنا لے جس سے ان کا اپنا دانشور طبقه خود بھی بے زار نظر آ رها هے۔ کیا یه سازش نهیں که مغرب اپنی گوناگون سازشوں ، تشهیراتی وسائل اور تعلیم و ترقی کے نام پر امت مسلم کی نوجوان نسل کو گمراهی اور بے راهروی کی اتھاه گہراهیوں میں دھکیلنے کے لئے سرگرم عمل هے ؟ کیا ترقی و پیشرفت ، مادرپدر آزاری اور انسانی اقدار کے انحطاط میں پوشیده هے؟ کیا جدیدیت اور ماڈرن ازم فحاشی و عریانی کا دوسرا نام هے ؟ امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو اپنی اسلامی اقدار اور قرآنی تعلیمات کی طرف پلٹنا هو گا اور جس دن مسلمانوں کا نوجوان طبقه مغربی کلچر اور مغرب کے بنائی گئی پست و گمراه کن مثالی شخصیات اور آئیڈیل کو چھوڑ کر حقیقی اسلامی تعلیمات کی طرف پلٹ آیا تو دنیا کا مستقبل امت مسلمه کے هاتھوں میں هوگا۔ اسی لئے تو شاعر مشرق علامه اقبال نے کها تھا : عهد نو برق هے آتش زن خرمن هے ایمن اس سے کوئی صحرا نه کوئی گلشن هے اس نئی آگ کا اقوام کهن ایندھن هے ملت ختم رسل شعله به پیراهن هے آج بھی هو جو براهیم کا ایمان پیدا آگ کر سکتی هے انداز گلستان پیدا | ||
Statistics View: 4,634 |
||