شہید سلیمانی کےمکتب کا ایک ورق | ||||
PDF (1033 K) | ||||
شہید سلیمانی کےمکتب کا ایک ورق محسن پاک آیین: بین الاقوامی تعلقات عامہ کے محقق رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہای نے جنرل سلیمانی کے طورطریقے اور ان کےافکار کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: «حاج قاسم سلیمانی کو ایک فرد کی حیثیت سے نہ دیکھیں؛ اسے ایک مکتب، ایک تربیت گاہ اور ایک مدرسے کی حیثیت سے دیکھیں جہاں انسانوں کی تربیت ہوتی ہے»۔ جنرل سلیمانی یگانہ نظریات کے مالک تھے؛ جس کی وجہ سے انہیں اسلامی جمہوریہ ایران سمیت دنیا بھرمیں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ "علاقائی سلامتی کا نظریہ" شہید سلیمانی کےاہم ترین نظریات میں سے ایک خطے کے ممالک سمیت پوری دنیا میں امن و آشتی کا قیام ہے؛ جبکہ امریکا اور اس کے پیروکار مغربی ممالک کے حکمران سوائے اپنے ملک کے کہیں بھی امن پسند نہیں کرتے ہیں۔ سوویت یونین کے ٹکڑے ہونےکے بعد، مغربی ممالک نے امریکی ہدایات اور مشورے پر صہیونی حکومت کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے مشرق وسطی میں متعدد منصوبے تیار کیے۔ ان ناپاک منصوبوں میں سے ایک، انتشار پھیلا کر پورے خطے کو کمزوراور غیرمحفوظ بنانا تھا۔ اس کے علاوہ خطے کے ممالک کے درمیان سرحدی تنازعات پیدا کرنا، شیعہ سنی فسادات کروانا؛ قومی اور لسانی تعصبات کو فروغ دینا؛ حکومتوں اور اقوام کے درمیان مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت ایجاد کرنا اور کرد، فارس اور عرب جیسے نسلی تعصبات کو ہوا دیکر اس خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا ان کا اصل ہدف رہا ہے۔ انہی شیطانی اہداف کے حصول کے لئے"القاعدہ اور داعش جیسے تکفیری دہشت گرد گروہوں کی بنیاد رکھی گئی" مغربی ایشیا میں سیکورٹی کو کمزور کرنے کے لیے، کثیر الجہتی منصوبے تیار کئے گئے۔ سعودی عرب اور صہیونی حکومت کی مدد سے اس منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی ممالک کو مختلف چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں میں بانٹ کر جغرافیائی سرحدوں کا نقشہ ہی بدل کررکھ دیا جائے؛ تاکہ ان ملکوں کی قومی خودمختاری کا خاتمہ ہوسکے۔ مغربی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ عراق اور شام کو مختلف چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستوں میں تقسیم کرنے سے اسرائیل محفوظ ہوجائے گا؛ اس لئے انہوں نے متعدد اقدامات بھی کئے اور ان ممالک میں ہرقسم کے اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں کیں۔ شہید جنرل سلیمانی کو ان کے ناپاک منصوبوں کا احساس ہوا؛ لہذا خطے کو کسی بڑی مصیبت سے بچانے اور مغربی استکبار کی پالیسیوں اور ان کے منصوبے پر عمل درآمد کو روکنے کے لئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر نہ صرف میدان میں آئے؛ بلکہ ایک ایسا نظریہ دیا جس کے تحت خطے کے تمام ممالک اختلافات کے بجائے مشترکہ مفادات کے حصول کےلئے ایک ہوگئے۔ شہید یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ مغربی ایشیا میں اسلامی ممالک کی سلامتی اور خود مختاری نہ صرف ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے؛ بلکہ ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شام میں عدم تحفظ عراق کی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے اور عراق میں عدم تحفظ ایران کی سلامتی کو متاثر کرسکتا ہے؛ لہذا شہید نے مشرق وسطی میں سیکیورٹی مسائل پر توجہ مرکوز کردی اور امریکا اور اس کے حمایت یافتہ ممالک کی چالوں اور منصوبوں کو خاک میں ملانے کا منصوبہ تیار کرکے ہرقسم کی مزاحمت کے لئے آمادہ ہوئے۔ پہلا کام انہوں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف اہم اقدامات کا فیصلہ کرتےہوئے امریکی اور مغربی ممالک کے منصوبوں کے برخلاف خطے میں امن و امان، خاص کر خطے کے ممالک کو ایک دوسرے سے قریب کرنے کا منصوبہ تیار کیا اور یوں "محور مزاحمت" کی شکل میں ایک نیا اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ شہید سلیمانی کے کرامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مختلف اقوام یعنی شامی، لبنانی، ایرانی، پاکستانی، افغانی اور عراقیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے قریب لایا؛ بلکہ ان تمام اقوام کو یہ احساس دلایا کہ تمہارا دشمن ایک ہے اگر منقسم رہوگے تو مارے جاوگے اور ایک ہوجاوگے توفتح تمہاری مقدر بنے گی۔ انہوں نے کسی بھی ملک پر اپنا اور ایرانی نکتہ نظرمسلط کرنے کی کوشش نہیں کی؛ بلکہ ان ممالک کی روایات اور ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف متعدد جہادی گروہ تشکیل دیئے؛ جیسے حشد الشعبی، فاطمیون، حیدریون اور زنبیون۔ شہید سلیمانی کی دور اندیشی کی وجہ سےآج یہ تمام گروہ پوری طاقت کے ساتھ فعال ہیں اور کوئی بھی عنصر ان جہادی گروہوں کو کمزور یا ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ان کا اثر و رسوخ پورے خطے پر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ شہید سلیمانی نے خطے کے تمام ہمسایہ اور دوست ممالک کے حکمرانوں سمیت عوام کو خطرے کا احساس دلاکر، امریکا اور مغربی ممالک کے افکار، منصوبوں اور چالوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا اور خود مشرق وسطی میں دہشت گردی اور ظلم و جبر کے خلاف ایک ناقابل شکست کمانڈر کے طور پرنمودار ہوئے۔ انہوں نے ہرقسم کے مسلکی، لسانی، قومی تعصبات کو بے اثر کیا اور میدان نبرد میں حاضر ہوکر استعمار کے خلاف، سنی عرب فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیا اسی طرح شیعہ عرب حزب اللہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اسرائیل اور استمعاری طاقتوں کے ناپاک منصوبے خاک میں ملا دیا۔ سردار سلیمانی نے اسلامی مزاحمتی گروہوں کی مدد سے قومی خودمختاری اور خطے کے ممالک کی سالمیت کا نہ صرف بھرپور دفاع کیا؛ بلکہ ہرمیدان میں صہیونی غاصب حکومت کا گھیرا تنگ کرکے اس ناجائز ریاست کے حامیوں خاص کر امریکا اور بعض عرب ممالک کو رسوا کردیا اور خطے کے مظلوم عوام کے دلوں میں جینے کی امید پیدا کرکے عالم اسلام کا ہیرو بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ جنرل سلیمانی صرف جنگجو نہیں تھے؛ بلکہ وہ ایک سفارت کار، سیاست دان اور تھیوریسٹ بھی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ قومی سلامتی کو اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جا سکتا جب تک پورا خطہ محفوظ نہ ہو۔ ایران کی سلامتی اس کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت پر منحصر ہے؛ لہذا جب تک پورے خطے کے ممالک محفوظ نہ ہوں کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ شہید سلیمانی نے مشرق وسطی کو ہمیشہ کےلئے محفوظ بنانے اور عالمی استکبار کی جانب سے خطے کے عدم استحکام کے خطرات کا سد باب کرنے کےلئے متعدد اقدامات اٹھائے ان میں سے ایک ان ملکوں کی قومی خودمختاری کا احترام تھا اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ کسی بھی ملک کی منتخب شدہ حکومت کا احترام ضروری ہے؛ جبکہ امریکا اور اس کے حمایت یافتہ استکباری سوچ رکھنے والے ممالک اس کے برخلاف عوامی رائے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عوامی حکومت کو تسلیم کرنے سے نہ صرف انکاری ہیں؛ بلکہ بےجا مداخلت کرکے امن و سلامتی کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہورہے ہیں؛ یہی وجہ تھی کہ جنرل سلیمانی نے شام کی قومی خودمختاری اور منتخب حکومت کا بھرپور دفاع کیا؛ جس کی وجہ سے آج یہ ملک ایک بار پھر مستحکم ہوتا نظر آرہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل سمیت بعض عرب ممالک، عراق کو تین حصوں؛ یعنی کرد، شیعہ اور سنی میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد اس ملک میں علیحدگی اور تقسیم کی تحریکیں شروع کرائی گئیں تو شہید سلیمانی نے ان تمام خام خیالات کا سدباب کیا اورعراق واحد کے لئے نہایت اہم اقدامات کرکے اس ملک کو بھی ٹکڑے ہونے سے بچایا۔ ان کے نظریے کی ایک اور اہم خصوصیت خطے کے تمام ممالک کو ایک بلاک کی صورت میں متحد کرنا تھی اور انہوں نے خطے کے تمام ممالک کو متحد کرکے مزاحمت کا ایک طاقتوراتحاد بنانے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوئے۔ شہید سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے بزدلانہ قتل اور شہادت کی برسی کے موقع پر امریکا اور صہیونی حکومت کے خلاف ایک مضبوط علاقائی اتحاد بنانے اور مشرق وسطی میں امن و امان قائم رکھنے کےلئے شہید کے مشن کو جاری و ساری رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ شہید کا مشن اس وقت پورا ہوگا؛ جب خطے سے مکمل طور پر امریکی دہشت گرد مسلح افواج کا انخلا ہو جائے؛ کیونکہ شہید سلیمانی کا اصل مقصد امریکی دہشت گردوں کو خطے سے نکال باہرکرنا تھا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہای کا سخت انتقام کا مطلب بھی خطے سے امریکا کا انخلاء اوربیت المقدس کی آزادی ہی ہے اور یہ ہدف زیادہ دور نہیں۔ ان شاءاللہ اس ہدف کے حصول کے ساتھ ہی ایک نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی۔ | ||||
Statistics View: 1,057 PDF Download: 198 |
||||