شہید سلیمانی۔۔۔ کچھ یادیں۔۔۔ کچھ باتیں! | ||||
PDF (923 K) | ||||
شہید سلیمانی۔۔۔ کچھ یادیں۔۔۔ کچھ باتیں!شہید سلیمانی کی زندگی مختلف تلخ و شیرین خاطرات اور یادوں سے بھری پڑی ہے، ان سے متعلق کچھ اہم یادیں قارئین کی خدمت میں حاضر ہیں۔ رہبرمعظم کا متعدد شہریوں کے قاتل کو رہا کرنے کا حکم!شہید سلیمانی کہتے ہیں صوبہ سستان بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایک شخص مطلوب تھا، جو متعدد شہریوں کے قتل، اسمگلنگ، منشیات اور دیگر غیرقانونی اقدامات میں ملوث تھا، قانونی طور پر وہ کم سے کم ۵۰ بارپھانسی کا مستحق تھا۔ ایک دن ہم نے ایک نہایت پیچیدہ کارروائی میں «ان کو پتہ کرائے بغیر کہ ہم کون ہیں»! کسی جگہ بطور مہمان دعوت دی اور انہیں گرفتار کرکے جیل منتقل کردیا۔ ہم سب بہت خوش تھے کہ اتنے بڑے مطلوب دہشت گرد کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ چند دنوں بعد تہران میں رہبرانقلاب سے ہماری ملاقات ہوئی اور انہیں میں نے نہایت خوشی اور مسرت سے اس شخص کی گرفتاری کا قصہ سنایا، رہبرمعظم سنتے رہے،اچانک میں نے احساس کیا کہ ان کے چہرے پر خوشی کے بجائے ناراحتی کے آثار نمودار ہو رہے ہیں! جیسے ہی میں نے قصہ ختم کرکے سکوت اختیار کیا رہبر معظم نے بغیر کسی وقفے کے فرمایا: فون کریں اور متعلقہ حکام سے کہیں ملزم کو فوری طور پر رہا کریں!۔ میں نے بھی بغیرکسی سوال کےاسی وقت جیل حکام کو فون کرکے رہا کرنے کا کہا۔ پھر مجھ سے رہا نہ گیا اور آخرکار بڑی جرئت کے ساتھ سوال ہی کیا، آقا آخر اتنے بڑے مجرم کو رہا کرنے میں کیا مصلحت ہے؟؟؟!! رہبرنے میری طرف دیکھا اور فرمایا: مگرآپ نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے انہیں دعوت دی اور مہمان بنا کر لایا پھرگرفتار کیا؟؟؟!! شیعوں کا نصب العین یہ ہے کہ جس شخص کو آپ بطور مہمان مدعو کرتے ہیں اسے ستانے کا آپ کو کوئی حق نہیں؛ کیونکہ وہ آپ کا مہمان ہے، چاہے وہ آپ کے والد کا قاتل ہی کیوں نہ ہو۔ رہبرمعظم نے فرمایا: مجرم کو بیشک گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائیں؛ لیکن طریقہ کار مختلف ہونا چاہئے۔ بہرحال مجرم آزاد ہوا اور کچھ عرصہ بعد ایک اور کارروائی میں گرفتارکیا گیا[1]۔ والدین کی خدمتقرآن مجید میں چار جگہ پر اللہ تبارک و تعالی نے اپنی عبادت و اطاعت کے ساتھ ساتھ والدین کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے، یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ والدین کا احترام، والدین کی اطاعت، والدین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی دین مبین اسلام میں کتنی اہمیت ہے؛ یہی وجہ ہے اسلام کے سچے سپاہی جنرل قاسم سلیمانی نے پوری زندگی والدین کی خشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی اور جب بھی وہ کرمان جاتے تو سب سے پہلے والدین کے پاس جاتے اور ان کی احوال پرسی اور دست بوسی کے بعد ہی دوسرے کاموں میں مشغول ہوجاتے۔ جب تک زندہ ہوں یہ بات کسی کو مت بتائیے!جنرل سلیمانی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اپنی ایک یاد داشت کا ذکر کیا اور تاکید کرتے ہوئے کہا کہ جب تک زندہ ہوں یہ بات کسی کو مت بتائیے گا!۔ ایک نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جب ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل قاسم سلیمانی کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا ہے تو ہم نے صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ تعزیت کےلیے گاؤں «قنات ملک» جانے کا فیصلہ کیا؛ جب ہم گاؤں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنی والدہ کی قبر کے پاس بیٹھے ہیں اور فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے میں گھر جا رہا ہوں، آپ فاتحہ پڑھ کر گھرتشریف لائیےگا۔ فاتحہ خوانی کے بعد ہم ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے والدہ کا مقام ومرتبہ کے بارے میں کچھ احادیث اور روایات سنایا اور کہا: میں جو کہہ رہا ہوں اسے کہیں شائع نہ کریں۔ میں ہمیشہ اپنی ماں کے قدم چومنا چاہتا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں کامیاب نہیں ہوپا رہا تھا۔ آخری بار جب میں اپنی والدہ کے انتقال سے پہلے یہاں آیا تو مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی اور اپنی ماں کے قدم چومنےمیں کامیاب ہوگیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہاکہ اب میری زندگی کے آخری لمحات ہوں گے، اللہ تعالی نے میری آرزو پوری کردی اور ماں کے قدم بوسی نصیب ہوئی، سلیمانی کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے، سلیمانی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ میرا آخری بوسہ ہوگا اور میری والدہ مجھ سے پہلے ہی داغ فرقت دے کر چلی جائے گی[2]۔ امریکی صدر اور کتاایک باغبان اپنے کتے کو امریکی صدر کے نام سے پکارتے تھے، جب جنرل سلیمانی کو معلوم ہوا ہےکہ باغبان نے اپنے کتے کا نام «بش» رکھا ہے تو سخت نارض ہوئے اور کہا: یہ سچ ہے کہ وہ ہمارا دشمن ہے اور ہم ان سے اختلاف رکھتے ہیں؛ لیکن وہ بھی ہماری طرح ایک انسان ہے۔ کتے جیسے جانور پر کسی قوم کے صدر کا نام نہیں رکھنا چاہئے۔ باغبان شرمندہ ہوا اور ان سے وعدہ کیا آج کے بعد کتے کو کتا کہہ کرپکارا جائے گا[3]۔ اکیلے میدان جہاد کی طرف جاناشہید کا ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ حاج قاسم نے مجھ سے کہا ہمیں ہر حال میں حرم کے دفاع کےلئے جانا ہے۔ اس وقت تقریباً ۷۰ فیصد عراق داعش کے کنٹرول میں جاچکا تھا اور دشمن چاہتا تھا کہ بغداد کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ میں اور حاج قاسم بغداد پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں اس جگہ کو مکمل طور پر جنگ کےلئے آمادہ کرنا ہےلہذا اہم علاقوں میں دھماکہ خیز مواد نصب کرنا پڑے گا۔ عراق کے مقدس شہر سامرہ سے بغداد کا پورا راستہ دشمن کے کنٹرول میں تھا؛ اس علاقے کو کسی بھی صورت میں آزاد کروانا ہے۔ ہم نے جواب میں کہا حاجی یہ پورا علاقہ داعش کے قبضے میں ہے اور ہمارے پاس جوانوں کی مناسب تعداد بھی نہیں ہے؛ شہید قاسم سلیمانی بغیر کسی جواب کے خود ہی گاڑی میں سوار ہوئے اور دشمن کی جانب چل دیئے۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ حاج قاسم دشمن کی جانب بڑھ رہے ہیں اگر وہ شہید ہوگئے تو دشمن کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور سمجھیں گے کہ کوئی کارنامہ انجام دیا ہے۔ کچھ دیر بعد ہم بھی قاسم سلیمانی کے پیچھے نکلے۔ جب ہم شہید قاسم سلیمانی تک پہنچے تو دس کلومیٹر کا علاقہ آزاد کروا چکا تھا۔ میں نے حاج قاسم سے کہا: تمہیں تمہاری ماں کی قسم پیچھے آجاو۔ آپ کو کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ آپ زندہ رہیں ہم اپنی جان دینے کے لیے تیارہیں۔ میں نے دوستوں سے کہا حاج قاسم کا خیال رکھو، یہ نڈر اور بے خوف انسان ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں کہ سامنے دشمن ہے۔ ہنسی مذاقجنرل سلیمانی کے ایک اور قریبی ساتھی کا کہنا ہے کہ بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جنرل سلیمانی ایک سنجیدہ اور صرف دعا و گریہ کرنے والے افسران میں سے تھے؛ وہ بوقت عبادت ضرور گریہ وزاری کرتے؛ لیکن وہ ہنستے ہنساتے بھی تھے۔ ایک دفعہ ہم کچھ بموں کو ناکارہ بنا رہے تھے کہ داعشی دہشت گردوں نے ہم پر حملہ کردیا اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ کسی نے وائر لیس پر شہید قاسم سے کہا کہ ان داعشیوں کے خلاف فوری طور پرجوابی کاروائی کی جائے تو حاج قاسم سلیمانی دوسری جانب سے کہنے لگے: کیا ہے؟ اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے۔۔؟! سپاہی نے جواب دیا کہ حاجی صاحب دشمن ہم پر گولیاں برسا رہا ہے۔ حاجی نے مسکراتے ہوئے لہجے میں جواب دیا کہ تم کون سے ان پرپھول برسارہے ہو؟ تم بھی تو ان پر گولیاں ہی برسا رہے ہو نا! اگرانہوں نے کچھ گولیاں چلائیں تو کیا ہوگیا۔۔۔؟ ایسے سخت حالات میں اس قسم کی گفتگو سے تمام سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوتے اور دشمن ذلت آمیز شکست سے دوچار ہوتا تھا[4]۔ [1]۔ علی اکبری مزدآبادی، ذوالفقار، ص 132۔ برشهایی از خاطرات شفاهی حاج قاسم سلیمانی، خاطره مرام شیعه https://www.delgarm.com [2]۔ خاطرهای از سردار شهید حاج قاسم سلیمانی که در زمان حیاتش اجازه نداد منتشر شود۔ https://www.isna.ir/news/98101410142/ [3]۔ فقط برای خدا، خبرگذاری دانشجو۔ www.snn.ir [4]۔ یادوں بھری رات کا ۳۱۱ واں پروگرام – تیسرا حصہ۔ مزید تفصلات کے لئے دیکھیئے: http://www.oral-history.ir/ | ||||
Statistics View: 1,403 PDF Download: 200 |
||||