جنرل قاسم سلیمانی کی سیاسی بصیرت، وزیرخارجہ حسین امیرعبداللھیان کے زبانی | ||||
PDF (784 K) | ||||
جنرل قاسم سلیمانی کی سیاسی بصیرت، وزیرخارجہ حسین امیرعبداللھیان کے زبانی مسیرنامی میگزین کے ایڈیٹرنے وزیرخارجہ حسین امیرعبداللھیان سے شہید سلیمانی کی سیاسی بصیرت کے بارے میں کچھ اہم سوالات کئے ہیں جس کا ایک حصہ پیش خدمت ہے: سوال: شہید جنرل سلیمانی کسی بھی اہم کام کے انجام دہی میں کس طرح فیصلہ کرتے تھے؟ کیونکہ جتنا کام پیچیدہ اور مشکل ہوتا ہےاتنا ہی بروقت فیصلہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ وزیرخارجہ: دیکھیئے مثال کے طور پر خطے میں امن وامان کے لئے عسکری اعتبارسے عراقی حکومت کی مدد کرنا نہایت ضروری سمجھا گیا؛ اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ کسی بھی صورت عراق جانا ہی ہوگا۔ جنرل سلیمانی کسی بھی فیصلے سے قبل کئی گھنٹے سوچ بچار کرتے، مشاورتی اجلاس بلاتے اور اس کے بعد ہی کوئی اہم فیصلہ کرتے تھے۔ سچ کہوں تو جب ایرانی وزارت خارجہ کے حکام عراق کے مختلف شہروں میں قونصل خانے کھولنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ تب جنرل سلیمانی اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ عراق کے مخلتف شہروں میں ایرانی قونصل خانے کھولنا ضروری ہے؛ تاکہ ایرانی اور عراقی شہری ایک دوسرے کے ممالک میں آسانی سے رفت و آمد کرسکیں؛ یہی وجہ تھی کہ کردستان کےشہراربیل اور سلیمانیہ میں دو نئے قونصل خانے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جنرل سلیمانی نے اسی موضوع پر کافی سوچ بچار اور بحث و مباحثہ یعنی مشاورت کیا کہ ہمیں کردستان میں قونصل خانہ کھولنا چاہیے کہ نہیں؟ کیا سلیمانیہ میں قوںصل خانہ کھولنا ضروری ہے؟؟ ہمارے بعض سیاستدانوں کا خیال تھا کہ ہمیں صرف کردستان کے مرکزی شہراربیل میں ہی قونصل خانہ کھولنا چاہیئے باقی شہروں میں نہیں!۔ یہ جاننا دلچسپ ہے کہ جنرل سلیمانی کہہ رہے تھے کہ شمالی عراق میں کرد معاشرے کی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے، ہمیں سلیمانیہ میں بھی قونصل خانہ کھولنا چاہیئے؛ کیونکہ کردستان میں دو سیاسی جماعتیں ہیں، ہمیں ان دونوں کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ہم ان دونوں سے برابری کے سطح پر تعلقات چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک کو انتخاب کرکے دوسرے گروہ کو ناراض نہیں کرانا چاہئے؛ لہذا ہم نے جس طرح کربلائے معلی اور نجف اشرف میں قونصل خانے کھولے ہیں اسی طرح کردستان میں بھی ہمیں الگ الگ قونصل خانوں کی ضرورت ہے۔ جنرل سلیمانی سیاسی طور پر اس قدر پختہ تھے کہ حتی عراق کے اہل سنت علاقوں میں بھی ایرانی قونصل خانے کھولنے کے حق میں تھے۔ جنرل سلیمانی کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اقوام متحدہ نےعراق میں انتخابات کرانا چاہا توعراقی عوام بشمول قبائل اور دیگر اقوام انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار تھے؛ تاہم وہ اقوام متحدہ کے قوانین پر بالکل اعتماد نہیں کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب عراق میں پہلے انتخابات ہونے والے تھے توعراقی بھائیوں نے ہمارے ساتھ مشاورتی میٹنگ اور بات چیت کی تھی؛ کیونکہ عراقیوں کو محفوظ اور غیرمتنازعہ انتخابات کرانے کے لیے اہم مشوروں کی ضرورت تھی؛ لہذا جنرل سلیمانی نے اپنے تجربات ان کو فراہم کئے اور بڑے کارساز ثابت ہوئے۔ عراق سےمختلف وفود جن میں شیعہ، سنی، کرد، عیسائی اور ترکمان شامل ہیں،ایران آئے یہاں کے انتخابی نظام کو دیکھا۔ عراقی، اقوام متحدہ کے انتخابی طریقہ کار کے بارے میں خدشات رکھتے تھے؛ کیونکہ انہیں شک تھا کہ امریکی اس بہانے اپنے پسندیدہ افراد کو اقتدار میں لانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ عراقی عوام ایسا بالکل نہیں چاہتے تھے؛ وہ نہیں چاہتے تھے کہ امریکا نواز افراد ملک پر مسلط ہوجائیں؛ لہذا اسلامی جمہوریہ ایران نے جنرل سلیمانی کے توسط سےعراقی عوام کی امنگوں کومد نظر رکھتے ہوئے حقیقی انتخابات کے لئے راہ ہموار کیا۔ سردار سلیمانی کا خیال تھا کہ عراقی بہت ذہین اورباشعور لوگ ہیں؛ لیکن افہام و تفہیم کے لیے وقت چاہئے اور ہمیں صبر وتحمل سے کام لینا ہوگا اوران تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عراقیوں سے صبر اور حوصلے کےساتھ بات چیت کی ضرورت ہے۔ جنرل سلیمانی کی بصیرت کا ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے کافی دیرتک سوچ بچار کرنے کے عادی تھے۔ مشاورت کیا کرتے تھے اس کے بعد ہی کوئی اہم فیصلہ کرتے تھے؛ جیسے کہ عراقی، انتخابات کے انعقاد کے بارے میں سخت فکرمند تھے۔ جنرل سلیمانی کی مدبرانہ بصیرت نے ان کی بہت مدد کی اور ہرقسم کے ابہامات کو دور کردیا۔ جنرل سلیمانی اس معاملے کے بارے میں دوکام انجام دے سکتے تھے: مثال کے طور پر وہ کہہ سکتے تھےکہ وزارت خارجہ کے حکام کو اگر افریقہ، افغانستان یا کسی اور جگہ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی انتخابات کرانے کا تجربہ ہے تو عراق اور ایران میں موجود اقوام متحدہ کے دفتر کو اپنے تجربات فراہم کریں اور وہ عراقی وزارت خارجہ کو منتقل کردیں گے؛ لیکن جنرل سلیمانی نے ایسا نہیں کیا؛ بلکہ عراقی عوام سے کہا انتخابات پر نظررکھیں اور انہیں ہرقسم کی رہنمائی سے دریغ نہیں کیا اور مدد فراہم کرتے رہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل سلیمانی نے ایران میں انتخابات کرائے تھے؟ بالکل نہیں! جب عراق میں انتخابات کا مسئلہ سامنے آیا تو جنرل سلیمانی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے شورائے نگہبان۔ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کے ذمہ داران سے کئی ملاقاتیں کیں؛ کیونکہ انہیں اندرون اور بیرون ملک انتخابات انعقاد کرنے کے تجربات تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے امور میں ماہر مسئولین سے مشاورت کیا؛ تاکہ وہاں اقوام متحدہ کے زیرنگرانی ہونے والے انتخابات کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جنرل سلیمانی نے اپنے گرانقدر تجربات عراقی بھائیوں تک پہنچایا اور عراقیوں نے ان کے فراہم کردہ تجربات کے متعلق تجزیہ و تحلیل کیا اور آخرکار عراق میں انتخابات منعقد ہوئے۔ جنرل سلیمانی کی ایک اور اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ کبھی اپنا نکتہ نظر دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے؛ دوسروں کی رائے کا بھرپور احترام کرنے کے قائل تھے۔ وہ کہتے تھے: ہماری زندگی کے تجربات یہ ہیں آپ دیکھ لیں؛ اگر پسند ہیں تو آپ بھی استفادہ کریں۔ | ||||
Statistics View: 1,257 PDF Download: 209 |
||||