قرآن پاک کی اہمیت اور مسلم امہ کا اتحاد۔۔۔ اقبال کی نگاہ میں | ||||
PDF (214 K) | ||||
قرآن پاک کی اہمیت اور مسلم امہ کا اتحاد۔۔۔ اقبال کی نگاہ میں ڈاکٹر علی کاوسی نژاد، اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف تہران، ڈپارٹمنٹ آف اردو حکیم الامت علامہ محمد اقبال کی تربیت ان کے والد ماجد شیخ نور محمد کی نگرانی میں ہوئی چنانچہ ان کے والد یوں فرماتے ہیں: " بیٹے! تم قرآن کی تلاوت اس طرح کرو جیسے یہ اس وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔" علامہ محمد اقبال کی زندگی اور ان کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ نہ صرف مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور شان ماضی پر نالہ سنج ہیں بلکہ مسلمانوں کو قرآنی احکام پر عمل کرنے کی بھی تعلیم دیتے ہیں۔ علامہ اقبال اپنی عمر کے آخری دنوں میں دو کتابیں ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں ایک قرآن پاک اور دوسری مثنوی مولانا جلال الدین رومی۔ اقبال کی ہمیشہ یہ عادت رہی کہ وہ نماز فجر کے وقت قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تھے اور ساتھ ساتھ آبدیدہ ہو جاتے تھے۔ یوں انہوں نے اپنے والد مکرم کی نصیحت کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآنی آیات کو اس انداز سے تلاوت فرماتے جیسے اسی وقت ان پر نازل ہوتی تھیں۔ اقبال اپنے فارسی کلام میں بھی قرآن کی اہمیت کے حوالے سے یوں نغمہ سنج ہیں: گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی تصنیف " نقوش اقبال" میں علامہ اقبال کی شخصیت کی تشکیل کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں: " اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہے مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں، میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر اثر انداز ہوئی ہے اتنا نہ وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے۔" اقبال مسلمانوں کی عظمت رفتہ پر شکوہ سنج ہیں اور اسے مسلمانوں کی قرآن پاک سے روگردانی کو اصلی وجہ جانتے ہیں۔ علامہ اقبال قرآنی ہدایات کے تناظر میں مسلمانوں کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے اور قرآن مجید میں تدبر کرنے کی تلقین پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے خطبات میں لکھتے ہیں: " قرآن مجید کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر گوناگوں روابط کا ایک اعلی اور برتر شعور پیدا کرے جو اس کے اور کائنات کے در میان قائم ہیں" علامہ اپنے اردو کلام میں قرآنی آیات میں غور و فکر اور تفکر و تدبر کی یوں تلقین فرماتے ہیں: قرآن میں غوطہ زن اے مرد مسلمان اللہ کرے عطا تجھ کو جدت کردار علامہ اقبال ان بزرگ ہستیوں میں ہیں جو اپنے دور کی ملائیت اور خانقاہ نشینی اور بے عملی کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں ۔ در اصل وہ اس عجمی تصوف کے مخالف ہیں جو مسلمانوں کو بے عملی اور بے تدبیری کا سبق سکھاتا ہے۔ اقبال بڑے مفکر اور فلسفی کے طور پر مشرق میں سرزمین میں ابھرے اور ان کے خیالات اور افکار نے اپنے زمانے کے لوگوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کے فلسفیانہ افکار کی بالیدگی ان کی اردو فارسی شاعری میں ہمیں نظر آتی ہے۔ اقبال بیک وقت بڑے شاعر اور فلسفی کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ در حقیقت علامہ اس تصوف کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جن میں بنی نوع انسان کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کر سکتا اور انسان کو بے عملی اور سستی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اقبال اپنے دور میں وہ واحد مفکر ہیں جو سب چلنجز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کی حالت زار کو دیکھ کر انھیں ان کی شاندار ماضی کی یاد دلاتے ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو زندگی بسر کرنے کے لیے ایسی تعلیمات دیں جن کی بنا پر وہ اپنے مستقبل کو سنوار سکیں ۔ اقبال کا خیال ہے کہ جو تصوف مسلمانوں میں عام ہوا وہ در اصل ایرانی اور عجمی تصوف ہے جو ایرانی صوفیا کا دیا ہوا تحفہ تھا جو صدیوں تک مسلمانوں کے افکار پر سوار رہا ۔ یہ وہ خانقاہی تصوف ہے جس نے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل کر لوگوں کو بے عملی اور عزلت نشینی کے شکنجے میں قید کر رکھا۔ اقبال نے اس کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا اور بے باکی سے ملاؤں اور خانقاہی صوفیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی خراب کوشک سلطان و خانقاہ فقیر فغان کہ تخت و مصلی کمال رزاقی کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز کتاب صوفی و ملاّ کی سادہ اوراقی ( کلیات اقبال، ص 393) علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں میں بہت سے بنیادی اشتراکا ت ہیں۔ اللہ، اس کے رسول اور قرآن پاک ایک ہی ہے ۔ وہ سب ایک ہی کو اپنا اللہ سمجھتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ سب ایک ہی قبلے کی طرف نمازیں پڑھتے ہیں لیکن آج کے دور میں وہ مختلف فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور فرقہ بندی مسلمانوں کی ایک بڑی مصیبت بن چکی ہے۔ منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی،دین بھی،ایمان بھی ایک حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں (ایضاً، ص 230) علامہ اقبال کے لوح مزارپر درج ذیل فارسی اشعار کندہ ہیں جن میں وہ مسلمانوں کے آپس میں اتحاد اور اخوت کا سبق دیتے ہیں۔ علامہ اقبال سبھی مسلمانوں کو نسلی اور قومی تعصبات سے دوری اور ساتھ رہنے کی ہدایت دیتے ہیں ہر چند موجودہ دور کے عالم اسلام میں وحدت بین المسلمیں میں مختلف طرح کی فرقہ بندیاں شروع ہو گئی ہیں اور رفتہ رفتہ عالم اسلام کی اخوت اور برادری میں خلل پڑ گئی ہے۔ نہ افغانیم و نی ترک و تتاریم چمن زادیم و از یک شاخساریم تمیز رنگ و بو بر ما حرام است کہ ما پروردہ یک نو بہاریم (کلیات اقبال ، ص 52) | ||||
Statistics View: 1,860 PDF Download: 517 |
||||