مطالعۂ قرآن کا اساسی اصول | ||||
PDF (252 K) | ||||
مطلوبہ الفاظ | ||||
قرآن | ||||
مطالعۂ قرآن کا اساسی اصول ڈاکٹر راشد عباس نقوی
مطالعۂ قرآن کا ایک بنیادی اصول جو اِس فن کے بعض اساتذہ نے بیان فرمایا ہے، یہ ہےکہ قرآن کریم اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب ہے۔ یہ کلام، اللہ تعالی کا کلام ہے، لہٰذا اس کی شناخت کا ایک اساسی اصول یہ ہے کہ قرآن کا جو تعارف اللہ تعالی نے کروایا ہے، اُس سے تجاوز نہ کیا جائے۔اس حوالے سے استاد آیۃ اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: خدای سبحان کہ متکلم قرآن و نازل کنندہ آن است، از ہر موجود دیگری قرآن را بھتر می شناسد و در تعریف او شایستہ تر از ھر صاحب نظر دیگر است ( ) یعنی: " اللہ تعالی جو کہ قرآن کریم کا متکلم اور اس کا نازل کرنے والا ہے، دیگر تمام موجودات سے قرآن کو بہتر سمجھتا ہے اور قرآن کی تعریف میں ہر صاحب نظر سے زیادہ شائستہ اُسی کی نظر ہے۔" دوسرے الفاظ میں کسی قاری کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے مزاج یا اپنی بشری توقعات کی بنیاد پر قرآن کریم کے بارے میں مثال کے طور پر یہ فیصلہ دے کہ قرآن فلکیات کی کتاب ہے یا طبیعیات کی کتاب۔ یہ تاریخی داستانوں کا بیان ہے یا اس کے مضامین میں ریاضیات اور ہندسہ و حساب کے فارمولے ڈھونڈے جائیں۔ قرآن کریم کے بارے میں اپنے حدس و گمان کی بنیاد پر ایسی کوئی بھی رائے قائم کرنا، نادرست ہے۔ بلکہ قرآن شناسی کی صحیح روش یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ خود اللہ تعالی نے قرآن کریم کو کس قسم کی کتاب قرار دیا ہے۔ دراصل مطالعۂ قرآن کے مذکورہ بالا اصول کے پس پردہ بعض مفسرین کی وہ روش ہے جو انہوں نے قرآن کی تفسیر اور قرآنی مطالب میں غور و خوض میں اپنائی ہے۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیات میں افراط کی حد تک نیچرل سائنسز اور بشری علوم ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن جو کہ کتاب تدوین ہے، اس میں وہ سب حقائق بیان ہوئے ہیں جو عالم تکوین میں پائے جاتے ہیں۔ گویا کتاب ِتکوین اور کتاب ِتدوین میں بالکل برابری پائی جاتی ہے۔لہذا ان کے زعم میں عالم ہستی کے تمام حقائق کا راز قرآنی آیات میں کشف کیا جا سکتا ہے؛ تمام بشری علوم کے نتائج قرآنی آیات سے اخذ کیے جا سکتے ہیں اور تمام سائنسی علوم اور انکشافات کو بھی قرآنی آیات و مطالب سے لیا جا سکتا ہے۔ اس روش کی عمدہ مثالیں طنطاوی کی تفسیر "الجواہر فی تفسیر القرآن" میں پائی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُس سے منسوب ہے کہ ہوائی جہاز کی ایجاد کا راز بھی " فبعث اللہ غرابا بیحث فی الارض "( ) جیسی آیات میں پایا جاتا ہے۔( ) البتہ یہ نظریہ کوئی جدید نظریہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں بعض اصحاب پیغمبر اکرم ﷺ کے بیانات میں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر " الاتقان" میں سیوطی نے جہاں قرآن کریم کی جامعیت پر کئی اصحاب و احباب کے اقوال نقل کیے ہیں وہاں وہ ابن عباس سے یہ قول نقل کرتے ہیں: لو ضاع لی عقال بعیر لوجدتہ فی کتاب اللہ تعالی ( ) یعنی:"اگر میرے اونٹ کے پاؤں باندھنے کی رسی بھی گم ہو جائے تو میں اُسے اللہ کی کتاب میں پا لوں گا۔" مذکورہ بالا روش کےمقابلے میں جو روش اپنائی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو ایک ایسی آسمانی کتاب قرار دیا جائے جو تنہا سُپرنیچرل مسائل کے بیان کےلیے ہے اور اور اس کا ہدف انسان کی آخرت آباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ لہذا قرآنی تعلیمات میں دنیاوی علوم اور سائنسی انکشافات و ایجادات کے راز ڈھونڈنا سراسر غلط ہے۔ یقینا قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے مطالب میں غور و خوض کے دوران اگر ایک قاری کا عقیدہ یہ ہو گا کہ قرآن میں سائنس و ٹیکنالوجی، تاریخ و فلسفہ اور ریاضیات و عمرانیات جیسے علوم کے تمام مسائل کا حل پایا جاتا ہے تو ایسا قاری قرآنی مطالب میں غور و خوض کے دوران قرآن کو نیچرل سائنسز کے مطالعہ کی عینک لگا کر تلاوت کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر ایک قاری کا عقیدہ یہ ہو گا کہ قرآن کریم میں فقط حلال و حرام، صوم و صلاۃ، قبر و برزخ اور بہشت و دوزخ کے موضوعات پر بحث ہوئی ہے تو وہ دُنیاوی مسائل کے حل و فصل میں قرآن سے رہنمائی لینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرے گا۔ لہذا یہ طے کر لینا بہت ضروری ہے کہ قرآن کریم کو کس نگاہ سے دیکھا جائے اور اِسے کس قسم کی کتاب قرار دے کر اس کے مطالب میں غور وخوض کیا جائے۔ اس حوالے سے استاد ِ قرآن، آیۃ اللہ جوادی آملی کا کہنا ہے کہ ہم قرآن کے بارے میں اپنے حدس و گمان اور بشری توقعات کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کریں بلکہ یہ دیکھا جائے کہ خود اللہ تعالی نے اپنی کتاب کا کیا تعارف پیش کیا ہے۔ اگر ہم اس سوال کا جواب خود کلام الہی میں ڈھونڈنا چاہیں کہ قرآن کیسی کتاب ہے تو یقینا جواب یہی نظر آتا ہے کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: 1. ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ ( ) یعنی:"یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شبہ نہیں؛ اس میں صاحبان تقوی کےلیے ہدایت ہے۔" 2. فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِـاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ یعنی: " اُس (جبرائیل) نے اس کتاب کو اللہ کے اذن سے آپ کے قلب پر نازل کیا؛ جو اُن (آسمانی کتابوں) کی تصدیق کرنے والا ہے جو پہلے سے موجود ہیں اور (یہ قرآن) ایمان والوں کےلیے ہدایت اور بشارت ہے۔"( ) 3. شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ یعنی: " رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کےلیے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت ہیں اور حق و باطل میں امتیاز ڈالنے والے ہیں۔"( ) 4. نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ مِنْ قَبْلُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ( ) یعنی: " (ائے رسول!) اس نے آپ پر حق پر مبنی ایک کتاب نازل کی جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس نے اس سے پہلے انسانوں کی ہدایت کےلیے تورات اور انجیل کو نازل کیا اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والا (قانون)نازل فرمایا۔" مذکورہ آیات میں ادنیٰ تأمل سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ نہ فقط قرآن کریم، بلکہ تمام آسمانی کتب کا اصل موضوع، بنی نوع انسان کی ہدایت ہے۔ قرآن کریم انسانی سعادت اور شقاوت کے اسباب کا بیان ہے۔ قرآنی تعلیمات کا اساسی محور عقیدہ اور عمل کے میدان میں انسان کی رہنمائی ہے۔ قرآن بنیادی طور پر کائنات کے آغاز و انجام (مبداء و معاد) کی شناخت کی کتاب ہے۔ یہ انسانی فطرت اور انسانی ماہیت کا بیان ہے اور انسان کو یہ بتاتی ہے کہ اُس کی ابتداء اور انتہاء کیا ہے، زندگی کے سفر میں اس کا رہنما کون ہے اور اسے کس کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں، کن راستوں پر چلتے ہوئے زندگی کا سفر طے کرنا چاہیے۔ پس قرآن کریم کو سائنس اور ٹیکنالوجی یا صنعت اور Skills کی کتاب قرار دینا قرآنی مطالب میں غور و خوض کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ اِس سے بڑی کجروی یہ ہے کہ قرآن کریم کی اُن آیات کی تفسیر بھی نیچرل سائنسز کی کشفیات کے معیار پر کی جائے جو سپرنیچرل (مابعد الطبیعی) حقائق کا بیان ہیں۔ علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ تفسیر المیزان کے مقدمہ میں بعض مفسرین کی اِسی کجروی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں: و أنت بالتأمل فی جمیع هذه المسالک المنقولة فی التفسیر تجد: أن الجمیع مشترکة فی نقص و بئس النقص، و هو تحمیل ما أنتجه الأبحاث العلمیة أو الفلسفیة من خارج على مدالیل الآیات. . . و لازم ذلک (کما أومأنا إلیه فی أوائل الکلام) أن یکون القرآن الذی یعرف نفسه (بأنه هدى للعالمین و نور مبین و تبیان لکل شیء) مهدیا إلیه بغیره و مستنیرا بغیره و مبینا بغیره، فما هذا الغیر! و ما شأنه! و بما ذا یهدی إلیه! و ما هو المرجع و الملجأ إذا اختلف فیه! ( ) یعنی: " قرآن کریم کی تفسیر میں وجود میں آنے والے مختلف مکاتب اور روشوں میں دقت اور تأمل سے آپ پر یہ حقیقت آشکار ہو جائے گی کہ یہ سب ایک نقص میں باہم مشترک ہیں اور یہ نقص کتنا ہی بُرا اور بڑا نقص ہے۔نقص یہ ہے کہ قرآنی آیات کے معانی پر وہ علمی قاعدے اور قانون ٹونسے جائیں جو سائنسی اور فلسفی مباحث کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں... اس انحراف کا نتیجہ(جیسا کہ ہم نے اس بحث کی ابتداء میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے) یہ ہے کہ قرآن جو خود کو "ھدی للعالمین"، "نور مبین" اور تبیان لکل شیئ" قرار دیتا ہے، اُس سے ہم اس وقت تک نہ ہدایت پا سکیں اور نہ ہی نورِ ہدایت حاصل نہ کر سکیں جب تک کہ ہم اس کے غیر (نیچرل سائنسز وغیرہ) کے دروازے پر نہ آ جائیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ غیر ہے کیا! اور اِس کی حیثیت کیا ہے! اور یہ لے کہاں جاتا ہے کرتا ہے؟ اور اگر خود اسی غیر میں اختلاف رونما ہو جائے تو پھر چارۂ کار کیا ہو گا۔ " عظیم محقق اور مفسر قرآن، علامہ سید مصطفی خمینی نے بھی طنطاوی جیسے مفسرین کی قرآنی آیات کو سائنسی علوم کےقوانین کی روشنی میں دیکھنے کی روش پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے: وأما ما قد یقال : إن الابتکارات الطبیعیة حصلت من الآیات الإلهیة والقرآن الکریم، فهو من الجزاف جدا، و لاینبغی للقرآن ذلک، فإن القرآن یعرف نفسه و یعلن خاصته، و یظهر و یعرب عما هو علیه من المعنویات، و لو کانت الآیات رمز تلک المسائل، و لکن هذا العرض العریض المشهود فی العصر فی ناحیة الاختراعات والحضارة الأروبیة، لیس مستندا إلیه بالقطع والیقین. فما صنعه بعض المفسرین فی العصر الأخیر،( ) ظنا أن الأمر کذلک، ومستشعرا من الآیات بعض الحوادث الیومیة و المصنوعات الجدیدة، خال عن التحصیل جدّا. ( ) یعنی: " جہاں تک اس دعوی کا تعلق ہے کہ سائنسی انکشافات کا سرچشمہ آیات الہیہ اور قرآن کریم ہے، تو یہ سراسر غلط ہے۔ یہ بات قرآن کے شایان شان ہی نہیں ہے۔ یقینا قرآن اپنا تعارف خود کرواتا ہے اور اپنی ماہیت کا اعلان کرتا ہے اور قرآن جن معنوی امور کے بیان کےلیے نازل کیا گیا ہے، انہیں واضح بیان اور صاف آشکار کرتا ہے۔ اگر قرآنی آیات ان مسائل کا رمز مان بھی لیا جائے، تب بھی عصر حاضر میں سامنے آنے والے سائنسی انکشافات اور یورپی تمدن میں منظر عام پر آنے والی اختراعات کا سرچشمہ یقینا قرآنی آیات نہیں ہیں۔لہذا آخری دور کے بعض مفسرین نے (قرآن کریم کی جو سائنسی) تفسیریں اس زعم میں مبتلا ہو کر کی ہیں کہ قرآن سائنسی انکشافات کا بیان ہے اور انہوں نے بعض روزمرہ حوادث اور جدید اختراعات کا سرچشمہ قرآنی آیات کو قرار دیا ہے، اُن کی یہ روش تحقیق کے سراسر منافی ہے۔" لہذا قرآن کریم کے مطالب میں غور و خوض کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اس کتاب کو ہدایت کی کتاب قرار دے کر اس کا مطالعہ کیا جائے۔قرآنی مطالب میں غور و خوض کا یہ بنیادی اصول، یقینا ایک مسلمہ اصول ہے اور ا س میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر سورہ اپنے اندر انسانی ہدایت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ لیکن یہاں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کریم نے (اگرچہ ہدایت کی غرض و غایت سے) کئی مقامات پر جہانی حقائق پر بحث کی ہے۔ قرآن نے جہاں اپنی تشریعی آیات Lageslative / Canonized Verses میں بنی نوع بشر کو راستہ دکھایا ہے، وہاں اپنی توصیفی آیات Descriptive Verses میں کائناتی حقائق بیان کیے ہیں۔ یقینا قرآن کریم کی یہ آیات ، عینی یا Concert حقائق کا بیان ہیں۔ لہذا جہاں قرآن کریم نے جہانی حقائق بیان کیے ہیں اور جس حد میں بیان کیے ہیں، ان حقائق سے بعض سائنسی کشفیات تک پہنچنا بھی عین ممکن ہے۔لہذا ہماری نظر میں جہاں تمام قرآنی آیات کو نیچرل سائنسز کے قوانین کے تناظر میں دیکھنا افراط ہے، وہاں قرآنی آیات سے ہر قسم کے سائنسی استفادہ کو ممنوع قرار دینا بھی تفریط ہے۔ اگر ہم خود قرآن کریم کی بعض آیات میں غور کریں تو ان کا ظاہر یہی ہے کہ قرآن ہر شئے کا بیانگر ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: 1. مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰى وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًى وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ( ) یعنی:" قرآن گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اپنے سے پہلے نازل شدہ کلام کی تصدیق ہے اور اس میں ہر شئے کی تفصیل موجود ہے اور یہ ایمان لانے والوں کےلیے ہدایت اور رحمت ہے۔" 2. وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَہُدًى وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِیْنَ ( ) یعنی: "اور ہم نے آپ پر یہ کتاب (قرآن) نازل کی ہے جو ہر شئے کا بیان ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے اور مسلمانوں کےلیے بشارت ہے۔" 3. وَ مَا مِنْ غَاۗىِٕبَۃٍ فِی السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ( ) یعنی: " آسمان و زمین میں ایسی کوئی غائب چیز نہیں ہے کہ جس کا بیان اس کھلی کتاب میں نہ ہو۔" 4. وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ ( ) یعنی: " اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر یہ کہ اس کا علم اللہ کو حاصل ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ اور نہ کوئی خشک و تر ایسا ہے کہ جس کا علم کھلی کتاب میں موجود نہ ہو۔" 5. مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ یُحْشَرُوْنَ ( ) یعنی: " ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی؛ پھر سب اپنے پالنے والے کے پاس جمع کیے جائیں گے۔ " ان آیات کا ظاہر یہی ہے کہ قرآن کریم میں ہر خشک و تر کا تذکرہ موجود ہے۔ اگر ان آیات کے عموم کو قید نہ لگائی جائے تو یقینا ان سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ قرآنی آیات میں تمام کائناتی حقائق، منجملہ سائنسی حقائق کا بیان موجود ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن کا یہ تعارف خود قرآن سے نہیں لیا گیا۔ لیکن اگر بعض ماہرین قرآنیات کا اصرار ہو کہ قرآن میں ہر خشک و تر کے تذکرے سے مراد فقط وہ خشک و تر ہے جو انسانی ہدایت کے راستے میں کام آ سکتا ہے یا اگر بعض کا اصرار ہو عام انسان یہ صلاحیت اور لیاقت نہیں رکھتے کہ قرآن سے ہر خشک و تر کے رمز و راز کشف کر سکیں تب بھی قرآنی آیات سے نیچرل سائنسز یا بشری علوم کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی مکمل مخالفت، قرین صحت نظر نہیں آتی۔ بالخصوص جب ایک مفسر کا دعوی یہ بھی ہو کہ قرآن کریم موجودات ہستی کی حقیقت کا بیان ہے اور اس میں نیچرل اور سُپر نیچرل (طبیعی و مابعد الطبیعی) سب موجودات کی حقیقت بیان ہوئی ہے۔ ایسے میں کس طرح قرآن کریم کی آیات اور اس کے مطالب کو عالم طبیعت کے حقیقتوں کے بیان سے بالکل بیگانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ لہذا ہمارے خیال میں اِس حوالے سے جلال الدین سیوطی کے " فی العلوم المستنبطۃ من القرآن" کے باب میں مؤقف کے صدر و ذیل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ان کا دعوی تو یہ ہے کہ: "اور میں یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی کی کتاب ہر شئے (کےبیان )پر مشتمل ہے۔ جہاں تک علوم کی انواع کا تعلق ہے تو کسی علم کا کوئی باب اور کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ جو طے شدہ ہو اور اُس پر قرآن کریم سے کوئی دلیل موجود نہ ہو۔" ( ) لیکن جب وہ قرآن سے اخذ شدہ علوم کی فہرست پیش کرتے ہیں تو اس میں اکثر رائج بشری علوم اور نیچرل سائنسز کا نام نہیں ملتا۔ خلاصہ یہ کہ قرآنی آیات سے نیچرل سائنسز یا بشری علوم کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ہر لحاظ سے مخالفت، قرین صحت نہیں ہے۔ ہاں! یہ امر اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ قرآن کریم کی غرض و غایت اور فلسفۂ وجودی، حقائق ہستی کا ایسا بیان ہے جس کے نتیجہ میں انسان ہدایت پائے اور سعادت مند ہو۔ لہذا اگر قرآن کریم میں کہیں نیچرل سائنسز کے مسائل بیان بھی ہوئے ہیں تو اِس غرض سے نہیں کہ انسان کہکشاوں پر کمند ڈال سکے اور چند روزہ زندگانی ِ دنیا آباد کر سکے۔ کیونکہ آخرت سے کٹ کر آباد شدہ دنیا، قرآنی منطق میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ستاروں پر کمند ڈال لینا، قرآن کی نظر میں انسانی سعادت کے مساوی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ انسان زمین کے دل میں اتر جانے اور کہکشاؤں کے راز کشف کر لینے کے بعد بھی شقاوت اور بدبختی کے عین دہانے پر کھڑا ہو۔ اور اس کے برعکس، زمین پر بوریا بچھائے، اور ستاروں اور سیاروں کے رازوں سے بے خبر رہتے ہوئے بھی انسانی سعادت کی اعلی منزلوں پر فائز ہو۔ پس قرآن کریم انسان کو تکوین کا آئینہ دکھا کر تشریع کے دروازہ پر لاتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ جہاں قرآن نے تکوین کی بحث چھیڑی ہے، وہاں قرآن کی رہنمائی نادرست ہو۔ اور جب ایسا ہے تو پھر کیا ہرج ہے کہ بعض دانشور، قرآنی آیات سے عالم طبیعت کے بعض رموز کشف کرنے کی تگ و دَو کر لیں؟ البتہ اس توجہ کے ساتھ کہ عالم طبیعت میں یہ انہماک انہیں قرآن کی اصل ہدایت سے دور نہ کر دے۔ ہمارے خیال میں اس حوالے سے استاد عباس علی عمید زنجانی کا یہ بیان کافی وزنی ہے کہ: بہ نظر می رسد امکان یا عدم امکان تفسیر علمی قرآن یک مسالہ کلامی نیست کہ بر اساس یک مبنای عقلی در دین پژوھی بتوان یکی از آن دو را اثبات و دیگری را نفی نمود۔ بی گمان قرآن باوجود کتاب ھدایت بودن ممکن است از بُعد عقلانی ھدایت بہ براھین عقلی و دلایل متکی بہ اصول علمی استناد نماید و یا از باب اعجاز بہ اصول علمی کی ھنوز بشر بہ آن دست نیافتہ است، استناد کند و ناشناختہ ھای علمی را بہ بشر تعلیم نماید۔ ( ) یعنی: " ایسا لگتا ہے کہ یہ سوال کہ آیا قرآن کریم کی سائنسی تفسیر ممکن ہے یا نا ممکن یہ کوئی ایسا کلامی مسئلہ نہیں ہے کہ دینی تحقیق کے باب میں عقلی بنیادوں پر ایک (شقّ) کو ثابت اور دوسری کو ردّ کیا جس سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کتاب ہدایت ہے لیکن یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ ہدایت کے عقلانی پہلو کے پس ِ منظر میں قرآن، فلسفی براہین اور سائنسی اصولوں کا سہارا لے یا اپنے معجزہ ہونے کے ناطے ایسے سائنسی اصولوں کو اپنے مدعی کی دلیل بنائے جن تک بنی نوع بشر کو ابھی تک رسائی نہ ہوئی ہو اور یہ عین ممکن ہے کہ قرآن انسانیت کو سائنسی دنیا کے انجانے رازوں سے آشنا کر دے۔" | ||||
Statistics View: 1,726 PDF Download: 540 |
||||