علامہ اقبال کی شاعری میں قرآنی رنگ آمیزی | ||||
PDF (278 K) | ||||
مطلوبہ الفاظ | ||||
علامہ اقبال | ||||
علامہ اقبال کی شاعری میں قرآنی رنگ آمیزی
ڈاکٹرعلی کمیل قزلباش مدیر ، مجلہ پیغام آشنا ، اسلام آباد پاکستان
قرآن وہ کتاب ہے جو روز ازل ہی سے انسانیت کے لیے سرچشمہ ہدایت رہا ہے .ایسا کوئی بھی اہل نظر جو حق کی شناخت سے بہرہ ور ہوا ہے قرآنی نور سے بے بہرہ نہیں رہا ۔ حتی وہ مفکرین بھی جو باقاعدہ حلقه بگوش اسلام نہیں تھے لیکن حرف حق سے آشنا تھے اس کتاب عظیم قرآن سے بهره ور تھے. جب کہ مسلمان مفکرین توالهام قرآنی کے بنا تکلم تک بھی نہیں کرپاتے. وہ شعرا جواهل معرفت اور تلامذه رحمن کے قبیلے میں سے ہیں، قرآن ان کے پہلو میں رہا ہے . ان کے اشعارمیں قرآنی حوالے موجود ہیں. جیسا که مثنوی مولوی کے بارے میں مولانا جامی سے منسوب ہے کہ: مثنوی معنوی مولوی سندھی زبان کے عظیم صوفی شاعرشاہ عبداللطیف نے بھی فرمایاتھا کہ میرے سرہانے ہر وقت قرآن اور مثنوی مولوی رہتی ہے۔ اقبال کا تو تمام کلام کلیات فارسی اور اردوقرآنی تعلیمات کے زیر اثر ہے, جبکہ ان کے اشعار میں قرآنی عظمت و تعلیم کے بارے میں اشعار بکثرت دیکھے جا سکتے ہیں. ان کی نظر میں قرآن حقیقت آدم شناسی اور آدم پروری میں اہم ترین کردار کا حامل ہے. وہ فرماتے ہیں: نقش قرآن تا درین عالم نشست
جان چون دیگر شد جهان دیگر شود (کلیات اقبال (فارسی)، ص317) ان کی وابستگی قرآن سے بے حد و بسیار تھی. بچپن ہی سے بلند آواز میں قرآن پڑھتے تھے. قرآن پڑھتے وقت شدت سے اس کے زیر اثر ہوتے۔ اواخر عمری میں جب ان کی آواز میں گرفتگی پیدا ہوئی تو ان کا تمام تر دکھ یہی تھا کہ وہ بلندآواز میں قرآن نہیں پڑھ سکتے . ایام بیماری میں جب ان کے سامنے کوئی قرآن بلند آواز میں تلاوت کرتاتو ان کے اشک جاری ہوتے اور ایک لرزہ اور اهتزار کی حالت ان پر حاوی ہوجاتی.( اقبال اور قرآن، ص 11)
ا نہوں نے اس درد کو اس شکل میں منظوم کیا ہے که،
نغمه ی من در گلوی من شکست
اقبال نےوالد کی نصیحت کے زیر اثر تمام زندگی قرآن کی روشنی میں گزاری ۔ وہ قرآن کو کتاب سمجھ کر یا نیکی اور بہشت کے حصول کا ذریعہ جان کر نہیں پڑھتے بلکہ وہ اس کا مکمل ادراک رکھتے تھے۔ والد کے الفاظ کے مطابق وہ کلام اللہ کو اپنے دل پر اترتا محسوس کرتے اورتلاوت کے دوران رو پڑتے تھے۔ ‘‘ مطالب قرآن پر ان کی نظر ہمیشہ رہتی۔ قرآن پاک کو پڑھتے تو اس کے ایک ایک لفظ پر غورکرتے۔ بلکہ نماز کے دوران جب وہ باآواز بلند پڑھتے تو وہ آیات قرآنی پر فکر کرتے اور ان سے متاثر ہو کر رو پڑتے’’ (ملفوظاتِ اقبال، ص۱۲۱)
شاید اسی مناسبت سے انہوں نے فرمایا تھا کہ
تیرے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ گشا ہے رازی نہ صاحب کشاف (کلیات اقبال(اردو)ص۔207)
اقبال کے مستقل خادم علی بخش کہتے ہیں ’’ قرآن اس خوش الحانی کے ساتھ پڑھتے تھے کہ جی چاہتا تھا بس سارے کام چھوڑ کر انہی کے پاس بیٹھا رہوں۔ اس زمانے میں کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا۔ صرف شام کو تھوڑا سا دودھ پی لیا کرتے تھے۔،،(اقبال نامہ،ص18)
اس شاعر کےاشعار میں قرآنی آیات، احادیث رسول خدا (ص) بطور تلمیح نظر آتے ہیں .ان کے نزدیک مهم ترین اور مستند ترین کتاب یہی ہے۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا کلام مستند اور معتبر تر ٹہرے اس لئے اس کتاب کو ان رہنما بنائے رکھا. اقبال نے چھوتے پارے کی پہلی آیت سے اپنی بات کو مدلل و معتبر ٹہرایا ہے:
چیست قرآن خواجه را پیغام مرگ دستگیر بنده ی بی ساز و برگ هیچ خیر از مردک زرکش مجو لن تنالو البر حتی تنفقو !
(کلیات اقبال (فارسی)، ص 316)
انہی نکات کو اقبال کے مندرجہ ذیل اشعار میں بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں وہ زر اندوزی اور دنیا طلبی کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن پاک کو دلیل بناتے ہیں اور زکات کے فایدے اور حکمت کے بارے میں فرماتے ہیں .
حب دولت را فنا سازد زکات (همان، همان ، ص36)
یعنی شاعر ذخیره اندوزی اور مال پرستی کا مخالف ہے اوردست سخا پریقین اور اعتقاد رکھتاہے. اس نے یہ درس از قرآن سے حاصل کیا تھا. اقبال نے اس آیه سے, بال جبریل میں نظم’’ابلیس و جبریل‘‘ میں استفاده کیا ہے. وہ ابلیس کی زبانی کہتا ہے:
جس کی نو میدی سـے هو سوز درون کائنات اس کے حق میں «تقنطو» اچها ہے یا لا تقنطو
( کلیات اقبال اردو ، ص 474) جیساکه ذکر ہوا، اقبال کی شاعری ایک طرح کی قرآنی تعبیرہے. آیات کے انتخاب میں اور حتی احادث نبوی میں بھی جو کلمہ’’ لا‘‘سے آغازہوتے ہیں زیادہ تر استفادہ فرماتے ہیں. اقبال ایک شعر میں حمیت مسلمانی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ کردارمرد مومن کے لئے , لفظ ’’ لا تخف ‘‘ سے جو قرآن میں تکرار کے ساتھ آیا ہے استفاده کرتے ہیں, یعنی آیات نمبر11/17 – 20/21 – 27/10 میں پروردگارعالم، حکم لا تخف فرماتا ہے. اقبال حضرت موسی کے حوالے سے مرد مومن کےبارے میں فرماتے ہیں:
چون کلیمی سوی فرعونی رود
اقبال چاہتا ہے که اس کی ملت کا هر فرد موسی اور خلیل کی طرح کسی قسم کے بیم و خوف کا اسیر نہ ہو ۔وہ قرآنی آیات پرتکیه کر کے خدا کی کمک کی تلقین فرماتے ہیں اوراس نکتے کو جو سوره شعرا،کی آیتوں 65 – 66 میں مضمر ہے، که: و انجینا موسی و من معه اجمعین. ثم اغرقنا الآخرین. اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ:
درگذر مثل کلیم از رود نیل
آیه 28 سوره النجم، که جس میں فرمایا گیا ہے کہ: و ظن الظن لا یغنی عن الحق شیئا، ملاحظه فرمایں که مندرجہ ذیل شعر میں کس کمال سے بیان کرتے ہیں . حیات جاویدان اندر یقین است ره تخمین و ظن گیری، بمیری (همان، همان، ص 472)
حدیث رسول خدا (ص) ہے ’’ لا تحزن ان الله معنا‘‘ اس نکتے کو اقبال حزن و یاس سے دور رہنے کے لئے اکثر سمجھتا ہے اور فرماتا ہے کہ:
ای که در زندان غم باشی اسیر (همان، همان، ص 472) حقیقت یہ ہے کہ جب انسان اقبال کی طرح اس کتاب کبیر او خیر کثیر کی تہہ تک پہنچتا ہے وہ کسی بھی سطح پر ذلت اورخواری کے زیر اثر نہین رہتا جب کہ سر بلندی اور عظمت کے انسانی وقار تک پہنچتا ہے . کیونکہ اقبال کی نظر مین مسلمان اگر حقیقی مسالمان بن کر جینا چاہتا یے تو اسے قرآن سے جڑ کر رہنا پڑے گا ۔ ملاحظہ ہو :
گر تو می خواھی مسلمان زیستن نیست ،ممکن جز بہ قرآن زیستن (همان، همان، ص 211)
اور جب ایک مسلمان قرآن کو اپنا منشور بنا کر اس پر زندگی گزارنے لگتا ہے تو وہ سراپا قرآن بن جاتا ہے ۔ اقبال اسی نکتے کی جانب اشارہ فرماتے ہٰیں کہ :
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن (کلیات اقبال (اردو) ، ص 88)
اقبال قرآن پاک پرعمر کے آواخر میں انگریزی زبان میں کتاب لکھنا چاہتے تھے لیکن بیماری کے باعث فرصت میسر نہ ہوئی ۔سر راس مسعود کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس طرح میرے لئے ممکن ہوسکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو، نہ معلوم کیوں، ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی باقی گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر کوئی پیش کش مسلمانانِ عالم کو نہیں کر سکتا،،(اقبال اور قرآن، ص 17)
| ||||
Statistics View: 1,836 PDF Download: 591 |
||||