مامون کی سیاست کا اہم اصول | ||
مامون کی سیاست کا اہم اصول بادشاہی بانجھ ہے ڈاکڑ زاہد علی زاہدی استاد علوم اسلامی ،جامعہ کراچی ڈاکڑعباس حیدر زیدی استاد مطالعہ پاکستان،جامعہ کراچی بنو امیہ سے اقتدار چھینے کے بعد بنو عباس نے بظاہر ایسی سیاست حکمت عملی اپنائی کہ جس پر آج بھی پردہ پڑا ہوا نظر آتا ہے۔تاریخ سے ان حقائق کاپتہ لگانا بظاہر مشکل نظر آتاہےلیکن اگر جانب داری سے ہٹ کر تاریخ کوپڑہاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ بنو عباس نے اپنی سیاسی حکمت علمی میں بظاہر رواداری اور علم دوستی کو فروغ دیا لیکن در پردہ انہیں جب بھی اپنے مخلص ساتھیوں سے اقتدار پر قبضہ کر نے کے حوالے سے خطرہ محسوس ہوا ، انہیں موت کے گھاٹ اتار نے سےکبھی دریغ نہیں کیا۔ مامون نے بھی ایسی ہی سیاست کو فروغ دیا جس میں وہ عوام کے در میان نیک اور عادل بادشاہ کے طور پر نظر آتا ہے لیکن در پردہ وہ اپنی حکومت کو محفوظ مضبوط بنا نے کے لئے کسی بھی قسم کی کاروائی کر نے سے دریغ کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کی سیاسی پالیسی کا اہم اصول "الملک عقیم "تھا۔ یعنی " حکومت بانجھ ہوتی ہے۔" دوسرے معنوںمیں جو بھی اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کرے، یا حکومتی امور پر ایسا غلبہ حاصل کر نے کی کوشش کرے کہ اسے اپنی حکومت خطرے میںمحسوس ہوتو اسے فوراً اپنے راستے سے ہٹاد یا جائےخواہ وہ اس کی اولادہی کیوں نہ ہو۔ اس کادور اگرچہ علمی اعتبار سے ترقی کادور کہلاتا ہے اور اس دور میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر گروہوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے علماء بھی مامون کے دربار میں موجود ہتے تھے لیکن مامون کی سیاست حکومت عملی یہ تھی کہ جو بھی اس کی حکومت کا مخالف ہو، اس پر کڑی نظر رکھی جائے اور اگر بغاوت کا اندیشہ ہوتو اسے قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ مامون نے یہ روش در اصل اپنے باپ ہارون الرشید سے ورثے میں پائی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مامون کے باپ ہارون الرشید نےاپنے وزیر بر مکی اور اس کے دو بٹیوں کو اپنی حکومت کے ابتدائی دور میں اپنے قریب رکھا لیکن جب اسے یہ خدشہ ہوا کہ خاندان برامکہ اس کی حکومت کے خلاف بغاوت کر سکتاہے تو اس کو تباہ و برباد کردیا۔ اگر بنو عباس کی حکومت کے حوالے سے خاندان برامکہ کی کردار کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بر مکی خاندان نے بنو عباس کی حکومت کو مضبوط و مستحکم کر نے میں اہم کردار اداکیاتھا۔آل بر مک میں برمک کالڑکاخالد ایک داعی کی حیثیت سے بنو عباس کے خلیفہ ابومسلم خراسانی سے مل گیا۔ اس طرح جب عباسیون کی حکومت قائم ہوئی تواس کے پہلے خلیفہ سفاح نے خالد کو اپنا وزیر نامزد کیا۔ پھر منصور دوانیقی کے زمانے تک خالد وزارت کے عہدے پر فائز رہا۔ خالد کے بیٹے یحیی کی قابلیت سے متاثر ہو کر بنو عباس کی خلیفہ مہدی نےاسے ہارون الرشید کااتالیق مقرر کیا ، اس طرح یحیی سے ہارون الرشیدکے گہرے مراسم قائم ہو گئے۔ اس نے بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ، چنانچہ جب ہادی نے ہارون کو ولی عہدی سے محروم کرناچاہا تو یحیی نے اسےمنع کیا جس کے سبب ہادی نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ ہارون الرشید نے خلیفہ ہو تے ہی یحیی کو اپناوزیر مقرر کردیا۔ یحیی اور اس کے دو بیٹے فضل اور جعفر سلطنت عباسیہ کے تمام امور پر غالب آگئے۔ جب یحیی بوڑھاہوگیاتو پہلے فضل اور اس کے بعد جعفر ہارون الرشید کے وزیر مقرر ہوئی۔ ہارون الرشید نے یحیی کے بیٹوں سے متاثر ہو کر فضل کوا پنے بیٹوں میں سے امیں کااور جعفر کو مامون الرشید کااتالیق مقررکردیا۔ ہارون کے زمانے میں آل برامکہ حکومت کے بڑےبڑے عہدوں پر فائز ہو گئے۔ رفتہ رفتہ جعفر انتظام سلطنت پر ایسا حاوی ہوا کہ ہارون الرشید بادشاہ ہونے کے با وجود اس کا وزیر معلوم ہو نے لگا۔ بر مکیوں کایہی عروج بالآخر ان کے زوال کا سبب بن گیا اور ہارون الرشید نے "الملک عقیم" کی پالیسی کے تحت اپنے وزیر جعفر کو قتل کردیا۔ اس کے ساتھ ہی یحیی کو اس کے بیٹے فضل سمیت قید کرد یا گیا ۔ چنانچہ نظر بندی کے دوران ہی یحیی اور فضل کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ہارون الرشید کے دور میں آل برامکہ زوال پذیری کاشکار ہو گئے ۔ آل برامکہ کے ہارون الرشید سے شروع دور میں گہرے تعلقات اور آخری دور میں انتہائی کشیدہ تعلقات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہےکہ بنو عباس کے خلفاء کو جب بھی اپنی اقتدار سے کسی بھی شخص سے خطرہ محسوس ہوا انہوں نے اسے اپنے راستے سے ہٹانے میں دیر نہیں لگائی۔ ہارون نے اپنے بیٹے مامون کو بھی ایک موقع پر یہ بات کہی تھی کہ : "واللہ لونازعتنی ہذالامر لاخذت الذی فیہ عیناک فان الملک عقیم" یعنی "اللہ کی قسم مجھے حکومت اتنی پیاری ہے کہ اگر حکومت کے لئے تو بھی مجھ سے نزاع کرے تو میں تیراسر پکڑ کراسے بھی جدا کر نے سے دریغ نہیں کرونگا، کیونکہ (الملک عقیم)حکومت کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہوتی۔" اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ ذوالریاستین کومامون نے ہی قتل کرایا۔ وہ کہتے ہیں کہ: "تمام واقعات شہادت دے رہے ہیں کہ ذوالریاستین کا قتل مامون کے ایماء سے ہوا۔" لیکن وہ اس واقعہ کو ذاتی اور ناگزیر معاملہ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے مامون کی طرفداری کرتے نظر آتے ہیں۔ حسن بن سہل کے بعد مامون نے احمد بن ابی داؤد کو اپنا وزیر مقرر کردیا۔ اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مامون نے اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے متعدد حربے استعمال کئے تا کہ اپنے ظالمانہ اقدامات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ جس سیاسی روش کو مامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل اور سپہ سالار طاہربن حسین کےلئے اختیار کیا اسی روش کو اس نے حضرت امام علی رضاؑ کے ساتھ بھی روا رکھا۔ بعض مؤرخین حضرت امام رضا کے حوالے سے مامون کی سیاسی روش کو مثبت پیرائے میں پیش کرتے ہیں۔ ان میں برصغیر کے مؤرخ علامہ شبلی نعمانی بھی شامل ہیں۔ شبلی نے اپنی کتاب "المامون" میں مامون الرشید کے تمام اقدامات کو مثبت پیرائے میں پیش کیا ہے۔ ہم یہاں حضرت امام علی رضا(ع) کی مامون کے ہاتھوں شہادت کا شبلی نعمانی کی تحقیق کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔ شبلی نے حضرت علی رضا (ع) کی ولی عہدی سے متعلق مامون کے اقدامات کو اپنی کتاب "المامون" میں بیان کیاہے۔ اس سلسلے میں ان کا یہ نظریہ ہے کہ مامون کو باالطبع آل پیغمبر سے محبت تھی۔ چنانچہ مامون نے حضرت علی رضا (ع) کو اپنے بعد اپنا ولی عہد بنایا۔ اس نے اس ضمن میں دربار کا لباس سیاہ کے بجائےسبز قرار دیا لیکن اس حکم کی وجہ سے اہل بغداد مامون کے خلاف ہوگئے اور انھوں نے ابراہیم بن المہدی کی بیعت کرلی۔انھوں نے اس بات کا تجزیہ نہیں کیا کہ اسے امام علی رضا (ع) کی ولی عہدی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ وہ حضرت امام علی رضا (ع) کی شہادت سے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انگور میں زہر دیاگیا۔" انہوں نے یہ سؤال اٹھایا ہے کہ: "یہ ایک تاریخی سوال ہے کہ "حضرت علی رضا کوکس کے ایمان سے زہردیا گیا" مگر ایک خاص فرقے نے اس واقعہ پر مذہبی رنگ چڑھایاہے۔ شیعہ بلا استثنا اس پر متفق ہیںکہ خود مامون نے زہردلوایا۔" انہوں نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ :"ایک مورخ نے بھی مامون پر اس الزام کو لگانے کی جرات نہیں کی ہے۔"وہ وضاحت کرتے ہیں کہ: " مامون نے حضرت علی رضا کو ولی عہد خلافت مقرر کیا تو اس سے کوئی سازش مقصود نہ تھی، حضرت علی رضا کوئی ملکی شخص نہ تھے اور نہ اس سے حکومت عباسیہ کوکسی خطرہ کا احتمال تھا جیسا کہ شیعوں کا دعوی ہے۔" ہمیں شبلی اس بات کے تو قائل نظرآتے ہیں کہ مامون کے ولیعہد حضرت امام علی رضا (ع) کو زہر دیا گیا لیکن وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مامون کے اشاروں سے ان کو زہر دیاگیا۔ اپنی بات کی وضاحت میں ان سے تاریخی لحاظ سے بعض غلطیان بھی سرزد ہوئی ہیں۔جیسے ان کا یہ کہنا تاریخ سے انحراف ہے کہ حضرت علی رضا(ع) نہ تو کوئی ملکی شخص تھےاور نہ ان سے حکومت عباسیہ کو کوئی خطرہ تھا۔ جبکہ خود انھوں نے تحریر کیاہےکہ مامون نے کہا: " نہ میں اور نہ ہی آل نبی میں آج کوئی ایسا شخص موجود ہے جو استحقاق خلافت میں حضرت علی رضا کے ساتھ ہمسری کا دعوی کرسکے۔"اگر ہم وقت نظر سے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتاہے کہ مامون کبھی یہ نہیں چاہتاتھا کہ حضرت علی رضا (ع) تک حکومت پہنچ جائے۔ اس نے خلافت حاصل کرنے کےلیے اپنے بھائی امین کو زندہ نہیں چھوڑا تھا اور بڑی مشکل سے خلافت پر قابض ہواتھا اور اسی کے ساتھ علویوں کی مسلسل تحریکوں نے اس کی حکومت کو متزلزل کردیاتھا۔ محمدبن ابراہیم معروف بہ طباطبا جو حضرت امام حسن کے پوتوں میں سے تھے انہوں نے کوفہ میں قیام کیا، زیدبن موسی جو حضرت امام علی رضا(ع) کے بھائی تھے، انہوں نے بصرہ میں تحریک شروع کی تھی۔ محمدبن جعفر جو حضرت امام جعفر صادق(ع)کے فرزند تھے، انہوں نے مکہ میں مامون کی حکومت کے خلاف قیام کیا، اسی طرح حسین بن ہرش کی سرکردگی میں علویوں کی ایک اور تحریک وجود میں آئی، چنانچہ حضرت امام علی رضا(ع) کو ولی عہد بنانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان تحریکوں کو کچلاجاسکے۔ شبلی کا کہنا ہےکہ مامون پر حضرت علی رضا(ع) کی قتل کے الزام پر علامہ ابن اثیر نے تعجب کا اظہار فرمایاہے۔ اگر ابن اثیر کے الفاظ پر نظر ڈالی جائے تو کہتاہے کہ: "آپ کی موت کا سبب یہ تھا کہ انگور کھانے میں زیادتی ہوگئی تھی اور اچانک فوت ہوگئے۔ کہا جاتاہے کہ مامون نے انھیں انگور کے ذریعے زہردیاہے اور علی(رضا) انگور پسند کرتے تھے اور میرے نزدیک یہ بعید ہے۔" ہمیں اس بات پر حیرت ہے کہ ابن اثیر انگور کھانے میں زیادتی کی وجہ سے اس بات کے قائل ہیں کہ آپ کی وفات ہوئی لیکن اس بات کے قائل نہیں کہ مامون نے زہردیا۔ اس کے علاوہ ایک بات جو تقریباً تمام مورخین نے کہی ہے اور شبلی بھی اس بات کے قائل ہیں، وہ یہ ہے کہ حضرت امام رضا(ع) کو زہر دیاگیا۔ اصل بات وہی ہے جس عنوان پر یہ مقالہ لکھا گیاہےیعنی الملک عقیم ریاست بانجھ ہوتی ہے اور وہ اپنی اولاد کی بھی نہیں ہوتی وقت پڑنے پر اپنی اولاد اور اپنے بھائی کو بھی راستہ سے ہٹاسکتی ہے ایسے میں اگر مامون نے امام علی رضا(ع) کو راستے سے ہٹادیا کون سی انہونی بات ہوگئی اور شبلی یا ان کے ہمنوا کو کیوں اس پر حیرت ہوتی ہے؟ جہاں تک مامون یا اس کے باپ ہارون یا کسی اور بنی امیہ یا بنو عباس کے حکمرانوں کی علم دوستی کا تعلق ہےتو اس کے لیے ایک الگ مقالے کی ضرورت ہے جس میں یہ واضح کیاجائےگا کہ ان حکمرانوں کی علم دوستی در اصل ایک علمی و ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں تھی تا کہ معاشرے میں ان کا ایک تاثر بھی قائم رہے اور علماء کو دربار میں بلاکے انہیں درباری مزہ چکھادیاجائے اور بعدازاں ان کو اپنا ہم نوا بنالیاجائےلیکن اگر وہ انکار کریں توان کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے جو امام ابوحنیفہ، امام احمدبن حنبل یا ابن سکیت کے ساتھ کیاگیا۔ | ||
Statistics View: 2,779 |
||