ضامن آہو (ہرنی کا ضامن) | ||
ضامن آہو (ہرنی کا ضامن) آنا حمیدی ہرنی کا ضامن امام رضا (ع) کے مشہورترین القاب میں سے ہے۔ یہ کہانی جس طرح لوگوں کے درمیان مشہور ہوتی رہتی ہے شیعی مآخذ میں موجود نہیں، لیکن اس کہانی کی طرح، جو عام لوگوں کے درمیان مشہور ہوگئی ہے، رسول اللہ (ص)، امام سجاد (ع) اور امام صادق (ع) کے معجزات میں موجود ہے۔ شیخ صدوق اخبارالرضا کی کتاب میں اس کہانی کو دوسری شکل میں سناتا ہے کہ تفضیلی جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس بات پر توجہ کیجیئے کہ یہ کہانی امام رضا (ع) کی شہادت کے کئی برس بعد پیش آئی ہے ، جس طرح پہلے کہا گیا اس کہانی کی طرح دوسرے ائمہ اطہار ان کی حیات مبارک کے دوران میں پیش آئی ہے۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے کہ شیخ صدوق کو اس کہانی کے سنانے والے کی وثاقت پر یقین ہے تفضیلی جواب ہرنی کا ضامن ، امام رضا (ع) کے مشہور القاب میں سے ہے۔ اس انتساب کی مشہورترین وجہ کو اور اس کی تاریخی بنیاد کو یوں سمجھتے ہیں: شکاری بیابان میں ہرنی کے شکار کا فیصلہ کرتا ہے اور ہرنی ، شکاری کو طویل مسافت تک اپنے پیچھے دوڑاتی ہے اور آخرالامر اپنے آپ کو حضرت علی بن موسی الرضا کے دامن تک پہنچاتی ہے کہ اتفاقاً اس حوالی میں موجود تھے۔ شکاری جاتا ہے تاکہ ہرنی کو پکڑے لیکن امام رضا (ع) ممانعت کرتے ہیں لیکن شکاری ، ہرنی کو اپنا شکار اور اپنا شرعی حق سمجھتا ہے اس کے پکڑنے پر ضد کرتا ہے۔ اما م رضا (ع) ہرنی کی قیمت سے زیادہ شکاری کو رقم دیتے ہیں تاکہ ہرنی کو آزاد کرے۔ شکار ی منظور نہیں کرتا ہے اور کہتا ہے میں صرف اسی ہرنی کو چاہتا ہوں کہ میرا حق ہے نہ اس کے بغیر ۔۔۔ اس وقت ہرنی بات کرنے لگتی ہے اور امام (ع) سے کہتی ہے کہ مجھے دو شیرخوار بچے ہیں وہ بھوکے ہیں اور میرا انتظار کرتے ہیں تاکہ جا کر انہیں دودھ پلادوں ۔ اسی لئے بھاگتی تھی اب آپ اس کے مقابل میری ضمانت کریں کہ مجھے جانے دے تاکہ میں جاکر بچوں کو دوھ پلاؤں اور واپس آکرکے اپنے آپ کو اس کی تسلیم کروں گی۔ امام رضا (ع) اس ہرنی کا ضامن ہوگیا اور خود کو گروی کے طور پر اس کے پاس رکھا۔ ہرنی چلی گئی اور جلدی سے واپس آگئی اور اپنے آپ کو شکاری کی تسلیم کی۔ شکاری جب دیکھتا ہے ہرنی نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اس کے وجود میں انقلاب برپا ہوتا ہے اور جب اسے معلوم ہوگیا اس کی گروی علی بن موسی الرضا ہے۔ ظاہر ہے فوراً ہرنی کہ رہا کردیا۔ اور اپنے آپ کو حضرت کے پاؤں پر گراتا ہے اور معافی مانگتا ہے ۔ حضرت نےبھی اسے زیادہ رقم دے دیا اور وعدہ کرتے ہیں قیامت میں اس کی شفاعت اپنے جد کے پاس کریں گے اور شکاری کو خوش کرکے روانہ کرتے ہیں۔ ہرنی کو معلوم تھا حضرت نے اسے بچایا ہے۔ اور کہا مجھے جانے دیجیئے تاکہ اپنے گھر پر اور اپنے بچوں کے پاس جاؤں۔ اس کہانی کے بارے میں کچھ باتیں قابل توجہ ہیں: 1- اگرچہ یہ کہانی اسی صورت میں شیعی مآخذ موجود نہیں، لیکن اس کہانی کی طرح جوعام لوگوں کے درمیان مطرح ہے، رسول (ص) ، امام سجاد (ع) ، امام صادق (ع) کی معجزات میں موجود ہے۔ 2- شیخ صدوق عیون اخبار الرضا (ع) کی کتاب میں "ہرنی کا ضامن" کے بارے میں کہتا ہے: ابوالفضل محمّد بن احمد بن اسماعیل سلیطى نے کہا: حاکم رازی ، ابی جعفر عتبی کا دوست، سے سنا ہے کہ کہتا تھا : ابوجعفر نے مجھے قاصد کے طور پر ابومنصور بن عبدالرزاق کے پاس بھیج دیا، بدھ کے دن کو امام رضا (ع) کی ملاقات کی درخواست کی۔ میرے جواب میں کہا جو کچھ اس مشہد کے بارے میں میرے لئے پیش آیا آپ کے لئے سناتا ہے : جوانی کے ایام میں اس مشہد کے حامیوں کو پسند نہیں کرتا تھا اور راستے پر زائرین کو لوٹ مار کرتا تھا، ان کے کپڑوں، جیب خرج، چھٹیوں اور حوالہ جات کو زور سے پکڑتا تھا۔ کسی دن نہ کسی دن میں شکار کے لیے باہر نکل گیا اور پینتھر کو ہرنی کے پیچھے دوڑایا۔ پینتھر ہرنی کے پیچھے دوڑتا تھا تاکہ اچانک ہرنی نے دیوار کے کونے میں پناہ لی لیکن اس کے قریب نہیں جاتا تھا۔ جو کچھ کوشش کی کہ پینتھر ہرنی کے پاس جائے ہرنی کے قریب نہیں جاتا تھا اور اپنی جگہ سے نہیں ہلتا تھا ، لیکن جب ہرنی دیوار کے کونے سے دور ہوتا تھا پینتھر بھی اسے پیچھا کرتا تھا۔ لیکن یونہی دیوار سے پناہ لیتا ہے پینتھر واپس جاتا تھا تاکہ ہرنی اس مزار کے دیوار کے اندر داخل ہوا۔ میں کاروانسرائےکے اندر جاکرکے پوچھا: وہ ہرنی جو ابھی اندر آیا کہاں گیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہم نے کوئی ہرنی نہیں دیکھا ہے۔ اس وقت اسی جگہ میں گیا جو ہرنی اس کے اندر گیا تھا، اس کے پاؤں کے نشان کو دیکھا لیکن ہرنی کو نہیں دیکھا۔ اس کے بعد اللہ سے پیمان باندھا کہ کبھی زائروں کو مت ستاؤں گا اور ان سے اچھا سلوک کروں۔ اس کے بعد جب مجھے مدد کی ضرورت تھی اس مشہد سے پناہ لیتا تھا اس کی زیارت کرکے اور اللہ تعالی سے مدد مانگتا تھا اور اللہ بھی میری تمنا پوری کرتا تھا ۔ میں اللہ سے چاہتا تھا کہ میرے گھر میں کوئی بیٹا پیدا ہوجائے۔اللہ نے مجھے ایک بیٹا دے دیا وہ بچہ بالغ ہو گیا اور اس کے بعد ماڑ دالاگیا؛ میں پھر بھی مشہد واپس گیا اور اللہ سے چاہا میرے گھر میں کوئی اور بیٹا پیدا ہوجائے اللہ نے دوبارہ مجھ سے ایک اور بیٹا دے دیا۔ کبھی اللہ تعالی سے درخواست نہیں کی مگر حق تعالی اسے پورا کرے اور یہ وہی چیز ہے جو اس مشہد کی برکات میں سے ہے کہ مجھ پر ظاہر ہوگیا اور میرے لیے پیش آیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ کہانی امام رضا (ع) کی شہادت کے کئی برس بعد پیش آئی ہے اور اس کی طرح دوسروے معصوموں کے لئے ان کی حیات مبارک کے زمان میں پیش آئی ۔ اور اس بات پر بھی زور دینی ہے کہ شیخ صدوق کو یقین ہے اس کہانی کے سنانے والے نے سچ کہا ہے۔ | ||
Statistics View: 2,807 |
||