حضرت امام رضا کی سیرت کے تربیتی پہلو | ||
حضرت امام رضا کی سیرت کے تربیتی پہلو سید رمیزالحسن موسوی مدیر مجلہ سہ ماہی نور معرفت، اسلام آباد آسمان عصمت و امامت کے آٹھویں خورشید حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیرت میں جو چیز بہت نمایاں نظر آتی ہے ، وہ اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ امام کا تربیتی رویہ اور طرز معاشرت ہے۔ دوسرے معصومین علیہم السلام کی طرح حضرت امام رضا علیہ السلام نے بھی ہمیشہ اپنے تعمیری اور تربیتی رویے کے ذریعے عوام الناس کی اصلاح اور کردارسازی کی سعی فرمائی۔ آپ کی سیرت کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے اصحاب یا دوسرے افراد سے جن میں آپ کے مخالفین بھی شامل تھے، ایسا رویہ اور طرز عمل اختیار فرمایا جس کے اس شخص کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئےہیں۔ یہاں آپ کی سیرت سے چند ایسے اقتباسات پیش کرنے کی سعی کی جائے گی جن میں تعمیری اور تربیتی پہلو بہت نمایاں ہے۔ ان اقتباسات کو یہاں کتب سیرت و تاریخ کے حوالے سے مختلف عناوین کے تحت پیش کیا جاتاہے۔
1۔ انسانیت کی تکریم حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیرت میں تمام انسانوں کو محترم سمجھا جاتاتھا، خواہ وہ خواص ہوں یا عوام۔ خصوصاً امام ؑاپنے ماتحت افراد کے ساتھ انتہائی عزت و احترام سے پیش آتے۔ امامؑ انسان کو سب سے پہلے بحیثیت انسان دیکھتے اور پھر اس کے فردی مقام و منزلت کو دیکھتے۔ اس سلسلے میں خاص کر اپنے خادموں اور ماتحت افراد کے ساتھ امام علیہ السلام کا رویہ اور سلوک، انسانیت کی معراج سمجھا جاتاہے۔ امام علیہ السلام نے کسی شخص کو نسل اور قومیت کی بناپر احترام نہیں دیا، بلکہ ہمیشہ اُسے انسانی نظر سے دیکھا ہے اور ان کی تحقیر اور پست سمجھنے اور ان کی توہین کرنے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیاہے۔ حتی سیاہ اور حبشی غلام بھی آپؑ کی توجہ و عنایت کے مستحق قرار پاتے تھے۔ ان سب باتوں کے اثبات کے لئے ہم سیرت امامؑ سے چند نمونے پیش کرتے ہیں: الف)غلاموں اور نو کروں کے ساتھ محسن سلوک بلخ کا رہنے والاا یک شخص کہتاہے کہ میں خراسان کے سفر کے دوران حضرت امام رضا علیہ السلام کےساتھ تھا۔ ایک دن امامؑ نے دسترخوان بچھا نے کا حکم دیااور تمام غلاموں اور ساتھیوں کے ساتھ اس پر بیٹھ گئے جن میں چند سیاہ غلام بھی تھے۔ میں نے عرض کی: میری جان آپؑ پر قربان ہو۔ ان کے لئے جدا دسترخوان بچھا دیتے! آپ نے فرمایا : خاموش ہو جاؤ ! خدا ایک ہے ، ہمار ے ماں باپ بھی ایک ہیں اور (قیامت کے دن) اجر و ثواب بھی اعمال کی بنیاد پر ملے گا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام کے خادم یاسرکا کہنا ہے : جب بھی امام علیہ السلام تنہا ہوتے اور (گھر کےکامول سے فارغ ہو تے) توا پنے تمام چھو ٹے بڑے ساتھیوں کو اپنے پاس بلا لیتے تھے۔ ان کے ساتھ باتیں کر تے اور گرم جوشی کے ساتھ پیش آتے ، دہ سب بھی امامؑ کے ساتھ مانوس ہو جاتے تھے اور جب بھی دسترخوان پر بیٹھتے تو سب چھوٹے بڑوں کو آواز دیتے حتی اپنے حجام کو بھی دسترخوان پر بلا لیتے۔ یہی خادم مزید کہتاہے :امام رضا علیہ السلام نے ہمیں فرمایا : اگر میں کھانا کھا نے کے دوران تمہارے سر کے اوپرآ کھڑ ا ہوجاؤںتو میرے لئےاس وقت تک کھڑے نہیں ہونا جب تک کھانا کھا نے سے فارغ نہیں ہوجاتے۔ بعض اوقات امام علیہ السلام (کسی کام کی خاطر) ہم میں سے کسی ایک کو آواز دیتے تو اگر کہا جاتا کہ وہ کھانا کھار ہا ہے تو فرما تے اُسےکھانا کھا نے دو۔ امام(ع) کا ایک اور خادم نادر کہتاہے : ہم میں جو بھی کھاناکھا نے میں مصروف ہوتا تو امامؑ اُسے کسی کام کے لئے نہیں لیتے تھے جب تک وہ کھاناکھا نے سے فارغ نہیں جاتے۔اس طرح امام رضا علیہ السلام اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے عملی طور پر انسانوں کے باہم برابر ہو نے کادرس دیتے تھے اوراپنے پیرو کاروں کو سمجھاتے کہ ان لوگوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ لہذا ان لوگوں کے ساتھ سلوک اور طرز معاشرت میں ان کے انسانی احساسات اور حقوق کاخیال رکھنا ضروری ہے۔ اور خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ دہ فقط خدمت اورکام کی لئے پیداہو ئےہیں۔ ب)عام لوگوں کے ساتھ محسن سلوک ایک بار حضرت امام رضا علیہ السلام ایک حمام میں داخل ہو ئے تو ایک شخص جوآپؑ کو نہیں جانتا تھا، کہنے لگا: میر ے بدن پر کیسہ (نہانے کامخصوص کپڑا) رگڑ دیں۔امامؑ نے اُس کے بدن پر کیسہ رگڑناشروع کردیا۔جب اُس شخص کوبتایاگیا کہ یہ امام رضا علیہ السلام ہیں تو وہ بہت پریشان ہوا اور آپؑ سے معذرت کر نے لگا، لیکن امام علیہ السلام اُسی طرح اُس کے بدن پر کیسہ رگڑ تے ہوئے اُسے تسلی دیتے رہے۔ ایک مہمان امام رضا علیہ السلام کے گھر آیا ہوا تھا ،رات کاوقت تھا، امام ؑ اُس کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے، اتنے میں چراغ خراب ہو گیا، اُس مہمان نے چراغ کو ٹھیک کر نے کے لئے باتھ بڑھا یاتو امام علیہ السلام نے اُسے روک دیا اور خود چراغ کو ٹھیک کر نے کے لئے اُٹھ کھڑے ہو ئے۔ جب چراغ ٹھیک کرلیا تو فرمایا : ہم اپنے مہمان سے کام نہیں کرواتے۔ محمدبن عبیداللہ قمی کاکہنا ہے : میں حضرت امام رضا (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا ، اس وقت مجھے بہت زیادہ پیاس لگی ہوئی تھی ، میں حضرت سے پانی نہیں مانگنا چاہتا تھا، اس وقت امام علیہ السلام کےپانی سے میں نے بھی پیاہے۔ یسع بن حمزہ کہتے ہیں: میں امام رضا علیہ السلام کی محفل میں تھا اور آپؑ سے گفتگو کررہاتھا، وہاں بہت سے لوگ موجود تھے اور امامؑ سے حلال و حرام کے بارے میں پوچھ ر ہے تھے ، اتنےمیں اس محفل میں بلند قد اور گندمی رنگ کا ایک شخص داخل ہوا ۔ اس نے سلام کر نے کے بعد امام علیہ السلام کو مخاطب ہو کرکہا : میں آپ اہل بیت علیہم السلام کے محبین میں سے ہوں ، میں ابھی ہی سفر مکہ سے لوٹاہوں ، راستے میں میر ے پیسے گم ہو گئے ہیں لہذا میری مدد کریں۔ میں وطن واپس جا کر یہ پیسے آپ کی جانب سے صدقہ کردوں گا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: بیٹہ جاؤ ، جب اکثر لوگ چلے گئے، فقظ میں ، دیگر افراد اور و ہی سائل باقی رہ گئے تھے تو امام علیہ السلام نے ہم سے اجازت لی اور اندر تشریف لے گئے اور چند منٹ بعد واپس لوٹے اور در واز ے کے پیچھےسے ہاتھ باہر نکالا اور آوازدی : وہ خراسانی شخص کہاں ہے؟ اُس نے کہا : میں یہاں ہو۔ امامؑ نے فرمایا : یہ دوسو دینار لو اور ا نہیں خرچ کرواوران سے برکت حاصل کرو اور میری جانب سے صدقہ بھی دواور اب یہاں سے چلے جاؤ تاکہ ہم ایک دوسر ے کو نہ دیکھیں۔ جب وہ شخص وہاں سے چلا گیاتو سلیمان نامی ایک شخص نے امام سے پوچھا : میں آپ پرقربان جاؤں، آپ نے بہت زیادہ بخشش کی ہےتو پھراس شخص سے اپنا چہرہ کیوں چھپایا ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : کیونکہ اس کی اس ضرورت پوری ہو نے والی شرمندگی اور ذلت نہ دیکھوں۔ کیاتم نے نہیں سنا کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا ہے : جو شخص چھپا کر نیکی اور انفاق کرتا ہے اس کایہ عمل ستر حج انجام دینے کے برابر ہے۔ ان روایات میں غور و فکر سے امام علیہ السلام کی تواضع اور فروتنی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ امام ایک عام مسلمان کے لئے کس قدر احترام کے قائل تھے اور ایمان جیسی نعمت کی وجہ سے ایک عام انسان ، امام علیہ السلام کی نظر میں کس قدر اہمیت اور منزلت حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح امامؑ ایک مہمان کے لئے اس قدر احترام کے قائل ہیں کہ اُس سےچراغ جیسی معمولی چیز کو درست کروانا بھی آداب مہمانی کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ان واقعات میں بیان شدہ امام رضا علیہ السلام کے طرز عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم لوگوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کریں اور محتاج اور ضرورت مند افراد میں احساس کمتری پیدانہ ہو نےدیں۔
2- اصحاب کی معنوی اور نفسیاتی رہنمائی حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے اصحاب کی اخلاق و کردار پر گہری نظر رکھتے تھے اور جب بھی دیکھتے کہ اُن میں سے کوئی شخص شیطان کے جال اور نفسانی خواہشات میں گرفتار ہو نے والا ہے اپنے نصیحت آموز موعظہ اور رہنمائی سے محروم نہیں فرماتے تھے۔ یہاں اس سلسلے میں آپؑ کے سیرت کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں: احمدبن محمدبن ابی نصربزنطی کاکہنا ہے: امام رضا علیہ السلام نےمیرے پاس ایک سواری بھیجی میں اس پرسوار ہو کر امام علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا۔ مجھے وہاں رات ہو گئی۔ جب رات کا ایک حصہ گذر گیاتو امام علیہ السلام نے اُٹھتے وقت فرمایا : میرے خیال میں تم اب مدینہ نہیں لوٹ سکوگے، آج رات ہمھارےپاس ہی رہ جاؤ صبح چلے جانا۔ میں نے عرض کی: میری جان آپ کا حکم سرآنکھوں پر۔ اس کی بعد امام ؑنے اپنی کنیز سے فرمایا: میرا اپنا بستران (محمدبن ابی نصر)کے لئے بچھا دواور میں جس چادر میں اور جس تکیہ پرسوتا ہوں دہ بھی ان کے سپردکردو۔ میں نےاپنے دل میں کہا: مجھے جو فخر آج کی رات حاصل ہوا ہے یہ اور کس کو حاصل ہوا ہوگا؟ اللہ تعالی نے امام رضا علیہ السلام کے نزدیک میری قدر و منزلت اس قدر بڑھادی ہے جو کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔ امامؑ نے اپنی سواری میرے لئے بھیجی، اپنا مخصوص بستر میرے لئے بچھا یا اور میں آپؑ کی چادر اور تکیہ پر سورہا ہوں۔ ہمارے دوستوں میں سے کسی کو بھی یہ افتخار حاصل نہیں ہوا جو آج کی رات مجھے حاصل ہوا ہے۔ اس وقت امام علیہ السلام میرے پاس تشریف فرما تھے اور میں دل میں یہ باتیں سوچ رہاتھا۔ اسی دوران امام علیہ السلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: اےمحمد! ایک دن امیرالمؤمنین علی علیہ السلام، زیدبن صوحان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ زید اس بات پرلوگوں کے سامنے فخر کر نے لگاتھا۔کہیں تیرا نفس بھی تجھے فخر فروشی پر نہ اُبھارے! خدا کے سامنے تواضع اختیار کرو۔یہ فرماتے ہوئے امام علیہ السلام ہاتھوں کے سہارے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یوں امام علیہ السلام نےبزنطی کو ایک اخلاقی نصیحت کرتے ہوئے اسے فخرو غرور اور خود ستائی کے گناہ سے اور نفس کے جال میں پھنسنےسے بچالیا۔ احمدبن عمرحلبی کہتے ہیں: میں منی میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت حاضر ہوا اور عرض کی: ہمارا گھرانہ خوشی و بخشش اور نعمت سے مالامال تھا۔ اللہ نے یہ سب کچھ ہم سے لے لیا ہے۔ یہاں تک کہ اب، ہم اُن لوگوں کے محتاج ہو گئے ہیں جو کل تک ہمارے محتاج تھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اے احمدبن عمر ! تم کس قدر اچھے حال میں ہو؟ میں نےعرض کی: میں آپؑ پر قربان جاؤں، میرا حال تو یہی ہے جو میں نے آپؑ کے سامنے بیان کردیا ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم اس حال پر رہنا پسند کرو گے جس پر یہ جابر اور ظالم لوگ ہیں، کیاتم بھی اُن کی مانند سونےچاندی کی ڈھیر جمع کرنا پسند کروگے؟میں نے کہا: نہیں یابن رسول اللہ! امام علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا: واپس چلےجاؤ، تجھ سے بہتر کس کا حال ہے؟ تیرے ہاتھ میں وہ فن و ہنر ہے جو سو نے و چاندی سے پُردنیا کے بد لے بھی نہ بیچنا، کیا میں تجھے بشارت دوں؟میں نے کہا: جی ہال! اے فرزند رسولؐ اللہ، مجھے آپ کے ذر یعے خوشحال کرے۔ جب انسان کے زندگی کے حالات اور معاشی حالت درست نہ، ہو تو بعض اوقات وہ اپنی زندگی کے معنوی پہلوؤں اور اعلی انسانی قدروں کو فراموش کردیتا ہے۔ امام رضا علیہ السلام احمدبن عمر جیسے لوگوں کو کہ جو اپنا دنیوی سرمایہ کھو بیٹھے ہیں، ایمان، عقیدے اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے معنوی تعلق جیسی نعمت کی طرف متوجہ کراتی ہیں اور بتاتے ہیں کہ دین اور اہل بیتؑ کے دشمن اپنے تمام تر دنیوی مال و دولت کے با وجود جب گمراہی کی طرف جاتے ہیں تو ہر قسم کی قدر و منزلت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تمہارے پاس ایمان و عقیدے اور اہل بیت اطہارؑ سے معنوی تعلق جیسی نعمت ہے، جس کے ہوتے ہوئے تمہیں کسی حال میں پریشان نہیں ہوناچا ہیے۔ اصل یہ چیزیں ہیں نہ مادی سرمایہ۔ جس کےپاس مادی سرمایہ ہے لیکن ایمان اور اہل بیتؑ سے معنوی تعلق نہیں در حقیقت وہ رخسارے میں ہے۔ دعائے عرفہ میں اسی تعلق کے بارے میں امام حسین علیہ الیلام کی زبان مبارک سے ایک انتہائی با معنی جملہ نکلتاہے جس میں مولا فرماتے ہیں : "ماذا وَجَدَ مَنْ فَقَدَکَ وَما الَّذِی فَقَدَ مَنْ وَجَدَکَ ، لَقَدْ خابَ مَنْ رَضِیَ دُونَکَ بَدَلاً وَلَقَدْ خَسِرَ مَنْ بَغى عَنْکَ مُتَحَوَّلاً" یعنی "جس نے تجھے کھو دیاہے اس نے کس چیز کو حاصل کیاہے اور جس نے تجھے پالیا ہے، اُس نے کس چیز کو کھو یا ہے؟ جو بھی تیرے علاوہ کسی چیز پر خوش ہو گیا گویا اس نےکچھ نہیں پایا اور جس نے تجھ سے طلب نہیں کیا خسارے اور زیان میں رہا۔"
| ||
Statistics View: 1,849 |
||