حضرت امام رضا (ع)کے بارے میں خوبصورت کہانیاں | ||
![]() | ||
حضرت امام رضا (ع)کے بارے میں خوبصورت کہانیاں ڈاکٹر راشد عباس نقوی پروفیسر جامعه پنجاب، لاهور ہم بہت دور سے آئے ہیں وہ لوگ دوبارہ تیار ہوگئے ۔ گلی سے گزرتے اپنے آپ کو تیار کرتے نیز خاک آلود لباس کو جھاڑتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ آج ملاقات کا موقع مل جائے گا۔ ان میں سے ایک نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا۔ خدا کی پناہ ! ان کے قریب بیٹھ کر اپنے دل کی باتیں کرنے کو دل بے چین ہے۔ کب ان کی صحبت نصیب ہوگی۔ ان افراد میں سے ایک جو سب سے عمر رسیدہ تھا اپنی لمبی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر کر دکھ بھرے لہجے میں کہنے لگا۔ کاش رات دن ان کی خدمت کرنے کا موقع نصیب ہوتا اور ہم ایک غلام کی طرح ان کی خدمت کرتے۔ ایک اور نے مضطرب ہوکر کہا اگر آج بھی ان کے خدمت گزاروں نے ہمیں ملاقات کا موقع نہ دیا تو پھر بھی ہم مایوس و پیشمان نہیں ہونگے۔ اسی دوران سب کہنےلگے اس قدر زیادہ آئیں گے بلکہ بار بار آئیں گے کہ بالاخر ملاقات کا شرف حاصل ہوجائے۔ بوڑھا شخص کہنے لگا۔ مجھے وجہ سمجھ نہیں آرہی ۔ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے۔ ہمیں ملاقات کا موقع کیوں نہیں دیا جارہا؟کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسی دوران وہ امام رضا کے دروازے پر پہنچ گئے۔ اس بار بوڑھے شخص کی باری تھی اس کے ذمہ تھا کہ وہ دروازہ کھٹکھٹائے اور بتائے کہ اتنے دور سے آنے والے یہ افراد کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔ بوڑھے شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی کون ہے؟ غلام نے دروازہ کھولا اور کہا آپ لوگ پھر آگئے؟ بوڑھے شخص نے کہا جاؤ اور ہمارے مولاؑ سے کہیں آپ کے شیعہ آئے ہیں۔ خادم نے کہا آپ انتظار کریں میں ابھی پوچھ کے آتا ہوں۔ خادم جب جانے لگا تو اس بوڑھے شخص نے بلند آواز سے کہا: ’’ ہمارا خصوصی سلام فرزند رسول ﷺ کو پہنچائیں اور انہیں کہیں ہم آپ کے دیدار کے بغیر نہیں جائیں گے۔ ہمیں اپنی پناہ میں لے لیں۔ یہ سب نہایت اضطراب سے جواب کے منتظر تھے کہ اندر سے کیا پیغام آتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد خادم اندر سے آیا اس کا رویہ اور شکل و صورت پہلے کی طرح پریشان تھی۔ بوڑھے شخص سمیت سب نے امام ؑ سے پوچھا کیا ہوا؟ امام ؑ نے اجازت دے دی؟ خادم نے کہا امام فرماتے ہیں ’’ ابھی میں مصروف ہوں"۔ دور سے آئے ان مسافروں کی پیشانیوں پر سوچ بچار کی جھریاں نمایاں ہوگئیں۔ ان کی آنکھوں سے دکھ اور تکلیف واضح محسوس ہورہی تھی۔ سب کے زہنوں میں یہی سوال تھا۔ آخر کیا وجہ ہے امام ہمیں ملاقات کا موقع کیوں نہیں دے رہے ہیں؟ سب کی حالت پریشانی سے غیر ہوچکی تھی۔ سب ایک بار پھر حیران و پریشان دکھی دل کے ساتھ واپس اپنی رہائش گاہ کی طرف پلٹ آئے۔ اگلے دن پھر یہی واقعہ دہرایا گیا۔ یہ مسافر کئی بار گئے لیکن دیدار کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ اب انہیں امام ؑ کے شہر میں آئے ہوئے دو ماہ کا عرصہ ہوچلا تھا۔ اب ایک بار پھر انہوں نے ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ امام ؑ کے دولت کدے پر جانے کا ارادہ کیا اور یہ امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کا گویا آخری وسیلہ تھا ۔ ان مسافروں میں سے ایک نے دروازہ کھٹکٹھایا خادم نے دروازہ کھولا۔ خادم کو مخاطب ہوکر کہا: امام ؑ کی خدمت میں عرض کرو کہ ہمیں دیدار کی اجازت دیں ہم آپ کے جد امیرالمومنین ؑ حضرت علی ؑ کے شیعہ ہیں۔ اگر آپ نے ملاقات کی اجازت نہ دی تو دشمن ہمیں برا بھلا کہیں گے اور ہمیں طنز کا نشانہ بنائیں گے اور ہم ان کے سامنے شرمندہ ہونگے ۔ خادم یہ سن کر واپس گھر گیا اور جلد ہی واپس آیا اور امامؑ کی طرف سے ملاقات کی اجازت کی نوید سنائی۔ خادم نے ان کو اندر آنے کی دعوت دی اور وہ خوش وخرم گھر میں داخل ہوئے۔ سب خوشی سے ایک دوسرے کے بغلگیر ہوئے اور خادم کے ساتھ ساتھ اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں امام ؑ تشریف فرما تھے۔ سب نے سلام کیا۔ امام ؑ نےکھڑے کھڑے ان کے سلام کا جواب دیا اور ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ ان کے ساتھ بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ بوڑھے شخص نے جب یہ دیکھا تو اس نے آگے بڑھ کر نہایت ادب سے عرض کیا اے فرزند رسول خداﷺ ہم سے کیا خطا سرزد ہوئی ہے کہ آپ ؑ ہمارے ساتھ مہربانی سے پیش نہیں آرہے ہیں۔ ہم دو ماہ سے آپکے دیدار کےلئے بے تاب ہیں اور آپ ہم سے بے اعتنائی برت رہے ہیں؟ امام رضاؑ نے ان کے لئے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا: ’’ اگر تمہیں کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو یہ تمہارے ان کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے جو تم نے انجام دئیے اور خدابہت سے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے"۔ ان مسافروں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر امام ؑ پر اپنی نگاہیں جمادیں ۔ امام ؑ نے مزید فرمایا: میں نے تم سے سلوک کرنے کے حوالے سے اپنے جد امجد رسول خدا ﷺ ، امیرالمومنین حضرت علی ؑ اور اپنے والد گرامی کی سیرت پر عمل کیا ہے۔ ان مسافروں نے نہایت تعجب سے سوال کیا۔ کس لئے؟ مگر ہم سے کونسا گناہ سرزد ہوا ہے؟ امام رضا ؑ نے نہایت سنجیدگی سے ارشاد فرمایا: آپ لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ آپ امیرالمومنین کے شیعہ ہیں۔ جان لو کہ امیرالمومنین ؑ کے شیعہ امام حسن ، امام حسین ، سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد بن ابی بکر ہیں۔ جو آپ کے حکم کے مکمل تعمیل کرتے تھے۔ وہ ایسا کوئی کام انجام نہیں دیتے جس سے انہیں منع کیا گیا ہو۔ تم شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہو لیکن بہت سے کاموں میں اطاعت نہیں کرتے ہو۔ واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتے ہو۔ اپنے دینی بھائی کا حق ادا کرنے میں سستی کرتے ہو۔ تم یہ کہتے ہو کہ علی ؑ کے ماننے والے ہو اور اس کے ماننے والوں کے دوست ہو لیکن میدان عمل میں اس کو ثابت نہیں کرتے ہو۔ اگر تمہارے گفتار اور کردار میں تضاد رہا تو تم ہلاک ہوجاؤ گے۔ مگر یہ کہ توبہ کرو اور اپنے ماضی کا ازالہ کرو تاکہ خدا تم پر رحمت نازل کرے"۔ امام ؑ اپنے علم غیب کی بنیاد پر ان کو اچھی طرح جانتے تھے ان مسافروں کی چہرے پسینے سے شرابور تھے ۔ سب کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا اور ایک دم یک زباب ہوکر بولے۔ اے فرزند رسول ﷺ ہم توبہ کرتے ہیں اور آئندہ یہ دعوی نہیں کریں گے کہ ہم امیرالمومنین علی ؑ کے شیعہ ہیں۔ اور آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ یہ باتیں سن کر امام ؑ کے شہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور آپ ؑ نے فرمایا: شاباش شاباش اے میرے بھائیو اور دوستو۔ تشریف لائیں۔ تشریف لائیں۔ آپ ؑ نے سب کو گلے لگایا۔ آپ نے خادم سے پوچھا ۔ ان کو کتنی بار ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔ خادم نے کچھ دیر سوچ کر کہا ساٹھ بار۔ امام ؑ نے اپنے خادم سے کہا اب تم ساٹھ بار ان کے پاس جاؤ اور ان تک میرا سلام پہنچاؤ ۔ انہوں نے توبہ کر کے اپنے آپ کو پاک کرلیا ہے۔ اب یہ ہماری دوستی کے لائق ہیں ان کی مشکلات کو حل کرو۔ اور ان کو جس چیز کی ضرورت ہے ان کی ضرورت کو پورا کرو ۔ یہ مسافر ایک نیم دائرے کی صورت میں امام ؑ کے قریب بیٹھ گئے اور اپنے علاقے کے حالات کے بارے میں آپ ؑ سے گفتگو مین مصروف ہوگئے۔ امام ؑ کے خادم نے ان مسافروں کی شربت اور پھلوں سے پذیرائی کی۔
جنت کے عطر کے خوشبو والا لباس خدا حافظی کا وقت تھا۔ ریان امام ؑ کا ایک چاہنے والا صحابی تھا۔ ایک نرم اور لطیف دل کا مالک۔ اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرح اپنے امام کو خدا حافظ کہہ کر ان سے جدا ہو۔ اسے ایک لمبے سفر پر جانا تھا اور شاید اسے دوبارہ امام کا دیدار نصیب نہ ہو۔ ریان نے سفر کے لئے تمام سازوسامان تیار کرلیا تھا۔ اپنے اونٹ کی مہار امام ؑ کے ایک غلام کو پکڑائی اور کہا: اس کو ایک بالٹی پانی پلاؤ اتنی دیر میں میں امام ؑ کو خدا حافظ کہہ لوں۔ امام کے کمرے میں داخل ہوا ۔ امام کمرے میں گویا اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ریان کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سوچ رہا تھا کہ خدا حافظی کے موقعے پر امام سے دو چیزیں مانگوں گا۔ ایک امام ؑ کا لباس تاکہ دفن کے وقت اسے کفن کے طور پر استعمال کروں اور خدا اس لباس کے صدقے میرے گناہ معاف کردے۔ دوسری چیز امام سے کچھ درہم مانگوں گا تاکہ اپنی بیٹی کےلئے انگوٹھی خرید سکوں اور سوغات کے طور پر اس کےلئے لےجاؤں کیونکہ خود میرے پاس انگوٹھی خریدنے کےلئے رقم نہیں ہے۔ ریان اس کمرے کی دہلیز پر پہنچا جہاں امام تشریف فرما تھے۔ امام اس کے استقبال کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس سے تپاک سے ملے اور اسکے لئے دعا فرمائی ۔ خداحافظی کے وقت بغل گیر ہوتے وقت ریان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس پر شدید گریہ طاری ہوگیا۔ اس کے رونے کی آواز اتنی بلند تھی کہ امام کا ایک خدمت گزار بھی اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ امام ؑ نے اسے تسلی دی۔ گریہ کی وجہ سے ریان زبان سے کچھ بول نہیں سکتا تھا۔ اسکی آواز بھرا گئی تھی ۔ اس نے ایک بار پھر امامؑ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور وہاں سے چل پڑا۔ واپس مڑکر امام ؑ کی طرف دیکھا تو امام ؑ بھی غمگین نظر آئے۔ ریان پر دوبارہ گریہ طاری ہوگیا لیکن وہ رکا نہیں اور تیزی سے اپنے اونٹ کی طرف بڑھا۔ اسی اثنا میں اسے ایک آواز سنائی دی۔ یہ مہربان آواز امام رضا ؑ کی تھی ۔۔۔۔ ریان جی مولا واپس آؤ ریان حیران ہوکر واپس پلٹا اور پوچھنے لگا امام کیا ہوا؟ امام ؑ نے فرمایا: کہا تمہیں اچھا نہیں لگتا کہ میں تمہیں کچھ درہم دوں تاکہ تم اپنی بیٹی کے لئے انگوٹھی خرید سکو! کیا میں تمہیں اپنا ایک لباس نہ دوں! ریان کو اپنی حاجتوں کا خیال آگیا۔ حیران و پریشان تھا۔ اس نے اپنے دل کی خواہش کو زبان پر نہیں لایا تھا۔ امام ؑ کو اس کی کیسے خبر ہوگئی ۔ کانپتی آواز میں امام سے کہنے لگا۔ میرے دل میں خواہش تھی لیکن وداع کے وقت زہن سے نکل گئی ۔ آپ سے جدائی کا مسئلہ اتنا سنگین تھا کہ میرے زہن سے ہر چیز محو ہوگئی تھی۔ امام ؑ ریان کو لیکر کمرے میں آئے اس کو تیس درہم اور ایک سفید لباس عطا کیا۔ اور اسے خدا حافظ کیا۔ ریان جب امام ؑ سے دور ہونے لگا تو بڑے شوق و ذوق سے امام کے دئے ہوئے لباس کو چومنے لگا اور کہنے لگا۔ ’’ میرے اچھے مولا اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں چھپے رازوں سے بھی آگاہ اور باخبر ہیں"۔
ایک شخص جس نے امام ؑ کو نہیں پہچانا ایک مرتبہ امام رضا ؑ ایک عمومی حمام پر گئے۔ حمام پر بہت زیادہ رش تھا۔ بہت سے لوگوں نے امام ؑ کو نہیں پہچانا۔ بہت سے جاننے والے بھی امام کے قریب موجود تھے لیکن وہ بھی آپکی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ امام حمام کے قریب ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ حمام کے اندر بھاپ کی وجہ سے سخت دھند کا منظر تھا۔ اسی دوران امام کے نزدیک موجود ایک شخص نے آپ ؑ سے مخاطب ہوکر کہا۔ یہ کیسہ (مخصوص کپڑا)لو اور اس کو میرے بدن پر رگڑو اور اس پر صابن لگاکر میرے بدن کو صاف کرو۔ اس کیسے کو میرے کمر پر خوب رگڑو۔ امام نے اس کی بات سنی اور کیسہ لے کر اس کی پیٹھ پر رگڑنے لگے۔ دور بیٹھے ایک شخص کو شک پڑا کہ یہ تو فرزند رسول ﷺ امام رضا ؑ ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے سے سرگوشی کی ۔ امام اس شخص کی پیٹھ پر کیسہ رگڑنے میں مشغول تھے۔ وہ مرد بھی بڑے اطمنان سے نیچے لیٹا امام سے اپنی پیٹھ کی مالش کروارہا تھا۔ ساتھ بیٹھے وہ تین مرد جنہوں نے امام ؑ کو پہچان لیا تھا وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اس شخص سے مخاطب ہوکر کہنے لگے خدا کا خوف کھاؤ تم کس سے دبوا رہے ہو یہ امام رضا ؑ ہیں۔ تمہیں شرم نہیں آرہی ہے؟ تینوں افراد نے مختلف جملے کہہ کر اس شخص کو برا بھلا کہا۔ لیکن وہ شخص متوجہ نہیں ہوا۔ وہ تینوں افراد جنہوں نے امام کو پہچان لیا تھا آپ کے قریب آئے اور آپ کو سلام کیا۔ اسی دوران نیچے لیٹے شخص کے کان میں کہا تمہیں معلوم ہے تم کس سے پیٹھ کی مالش کروارہے ہو؟ اس نے بے خیالی میں جواب دیا۔ نہیں۔ مجھے معلوم نہیں ۔ میں نہیں جانتا۔ ایک شخص نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا شرم کرو وہ علی بن موسیٰ رضا ؑ ہیں۔ نیچے لیٹے ہوئے شخص کے چہرے کا رنگ شرمندگی اور خوف سے تبدیل ہوگیا ۔ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا ۔ آپ ؑ کی طرف دیکھنے لگا اورآپ کا ہاتھ چومنے لگا۔ میرے آقا و مولا مجھے معاف کردیں۔ میں نے آپ ؑ کو نہیں پہچانا۔ آپ کے ہاتھ سے وہ کپڑا لینے کی کوشش کی جس سے امام ؑ اس کی کمر صاف کررہے تھے۔ لیکن امام ؑ نےاجازت نہیں دی اور جب تک اس کی کمر مکمل صاف نہ ہوگئی آپ نے اپنا کام جاری رکھا۔
| ||
Statistics View: 1,742 |
||