حضرت امام رضا(ع) کی سیرت و کردار | ||
حضرت امام رضا(ع) کی سیرت و کردار ڈاکٹر شیخ محمد حسنین نادر ڈائریکٹر نورالہدی ،مرکز تحقیقات،اسلام آباد حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولادت11 ذی قعدہ 148 ھ ق میں ہوئی۔ آپ کانام "علی"، کنیت "ابوالحسن" اور مشہور القاب"رضا"یعنی( پسندیدہ)،"غریب الغرباء"یعنی (سب سے بڑاپردیسی)، "شمس الشموس"یعنی( روشن ترین آفتاب) اور "انیس النفوس "یعنی (لوگوں کا ہمدم) ہیں۔ آپ(ع) کی والد گرامی، ہمارے ساتویں امام ، حضرت موسی بن جعفرالکاظم علیہ السلام اور آپ(ع) کی مادر گرامی ، بی بی مکرمہ حضرت "تکتم" ہیں کہ جنہیں "نجمہ"بھی کہا جاتا تھا۔ جب خداوند عالم نے انہیں حضرت امام رضا علیہ السلام جیسا فرزند عطا کیاتو چونکہ آپ کی آغوش میں ایک طیب و طاہر اور معصوم امام (ع)کی پرورش ہو رہی تھی، لہذا آپ کو"طاہرہ" کالقب بھی دے دیاگیا۔ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی شادی ایک انتہائی پاک طینت خاتون سے ہوئی جن کانام بی بی "سبیکہ" تنہا جن کے بطن سے اللہ تعالی نے آپ(ع) کوایک بیٹا عطا کیا جن نام "محمد"اور لقب "جواد" رکھاگیا۔ شعیہ علماء کے ہاں مشہور یہ ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی اولاد ، آپ(ع) کے تنہا فرزند حضرت محمدبن علی الجواد علیہ السلام ہی ہیں ۔ حضرت امام رضا علیہ السلام نے 55سال کی عمر پائی اور آپ(ع)کی شہادت 203 ھ ق میں ہوئی۔ آپ(ع) کی شہادت کاسبب مامون عباسی کے توسط سے آپ کوزہر دیاجانا تھا۔ آپ(ع) کی امامت کا دورانیہ تقریبا 20سال ہے کہ جس میں سے 17 سال کا عرصہ آپ(ع) نے مدینہ منورہ میں گذرا ؛ جہال آپ(ع) عام و خاص کے ملجا و ماوی رہے۔ آپ(ع) نے اپنی زندگی کے آخری تین سال طوس (خراسان) میں گذارے اور اس دوران بھی آپ(ع) نےدین مبین اسلام کی سرافرازی کیلئے حتی المقدور کوششیں کی۔
حضرت امام رضا (ع)عالم آل محمد علیہم السلام حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے خداداد علم میں اس مقام پر فائز تھے کہ آپ (ع) کا ایک لقب ہی "عالم آل محمد"پڑگیا۔ جناب اباصلت ہروی،محمدبن اسحاق ابن موسی بن جعفر (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام اپنی اولاد سے فرماتےتھے کہ: "تمہارا بھائی علی بن موسی، خاندان پیغمبر کا حکیم ہے۔ اپنی دینی ضروریات اور مسائل کا جواب ان سے طلب کیا کرو اور جو کچھ وہ بتائیں اسے یاد کرلو کیونکہ میرے بابا (حضرت امام صادق علیہ السلام) نے کئی بار مجھ سے فرمایا کہ تیری نسل سے خاندان پیغمبر کا عالم پیدا ہوگا۔ اے کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا اور اسے دیکھتا۔" حضرت امام رضا علیہ السلام ایک طرف سے تو مختلف ادیان اور مذاہب کے علماء کے سوالوں کا دوٹوک جواب دیتے اور دوسری طرف اپنے مخاطب کے مذہب اور عقیدے کی اساس پر بات اور استدلال کرتےتھے اور آپ کا یہ رویہ، آپ کی علمی توانائی کا ایک نمایاں مظہر تھا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام اہل تورات کو تورات سے، انجیل کے پیروکاروں کو خود ان کے مذہب و مسلک کی بنیاد پر جواب دیتے تھے۔ آپ اپنے مناظرات میں قرآنی آیات سے استدلال فرماتےتھے۔ یہاں تک کہ کہنے والوں کو کہنا پڑا کہ: کَانَ کَلامُہ کُلُّہ وَ جَوابُہ وَ تَمَثُّلُہ اِنتِز َاعاتٌ مِنَ القُرآنِ یعنی: "آپ کا سارا کلام، آپ کے سوالات کے جوابات اور مثالیں قرآن سے ماخوذ ہوتی تھیں۔" مختلف مذاہب اور فرقوں کے علماء کے ساتھ آپؑ کے علمی مناظرات نےآپؑ کے علمی مقام و منزلت کو اس قدر آشکار کردیا کہ مامون کو علی الاعلان یہ کہنا پڑا: "مَا اَعلَمُ اَحَداً اَفضَلَ مِن ہٰذ َالرَّجُلِ عَلٰی وَجہِ الا َرضِ" یعنی: " میں روئے زمین پر اس شخص (حضرت امام رضا علیہ السلام) سے بڑے کسی عالم کا سراغ نہیں رکھتا۔" آپؑ کے کمالات و فضائل اس قدر آشکار تھے کہ فرید وجدی اپنے دائرةالمعارف میں لکھتاہےکہ جب مامون عباسی نے مختلف فرقوں اورمذاہب کے تین ہزار افراد کو اکٹھاکیا اور ان سے یہ کہا کہ وہ اپنے میں سے لائق ترین انسان کا انتخاب کریں تاکہ وہ اپنی ولیعہدی اس کے سپرد کرسکے تو ان سب لوگوں نے حضرت علی ابن موسی الرضا(علیہ السلام) پر اتفاق کیا۔ عباسی خلافت کے کارندے، خاص اہداف کے تحت، مختلف مذاہب اور فرقوں کے دانشوروں کو دعوت دیتے اور انہیں امام علیہ السلام رضا کے مد مقابل قرار دیا کرتے تھے اور ان کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ ان مناظروں میں کم از کم ایک بار ہی سہی کہ امام علیہ السلام ان کے سوالوں کا جواب نہ دے سکیں۔ بہرحال مامون کا ہدف کچھ بھی ہو، ان محفلوں کی بدولت حضرت امام رضا علیہالسلام کی عظمت واضح طور پر آشکار ہوگئی اور آپ کے شیعہ بھی آپ ؑ کے علمی مقام و منزلت سے خوب فیضیاب ہوئے۔ جناب عبدالسلام ہروی، جو کہ اکثر ان محفلوں میں حاضر ہوتے تھے، کہتے ہیں: "میں نے کسی شخص کو بھی حضرت امام رضا علیہ السلام سے بڑھ کر دانا نہیں پایا۔ اکثر دانشور نے بھی آپ ؑکے علم کی برتری کی گواہی دیتے تھے۔ جن محفلوں اورمجلسوں میں دانشوروں، فقیہوں اور مختلف ادیان کے علماء حاضر رہتے، آپؑ ان سب پر اس قدر غالب آتے کہ انہیں اپنی علمی کمزوری اور امام علیہ السلام کی علمی برتری کا اعتراف کرنا پڑتا تھا۔" حضرت امام رضا علیہ السلام ایک طرف سے تو مختلف ادیان اور مذاہب کے علماء کے سوالوں کا دو ٹوک جواب دیتے اور دوسری طرف اپنے مخاطب کے مذہب اور عقیدے کی اساس پر بات اور استدلال کرتے تھےاور آپؑ کا یہ رویہ ، آپؑ کی علمی توانائی کا ایک نمایاں مظہر تھا۔ حضرت امام رضا علیہ السلام اہل تورات کو تورات سے، انجیل کے پیروکاروں کو انجیل سے، زبور کے ماننے والوں کو زبور سے اور ہر فرقے اور گروہ کو خود ان کے مذہب کی بنیاد پر جواب دیتے تھے۔ جناب اباصلتؒ ہروی فرماتے ہیں: "حضرت امام رضا علیہ السلام لوگوں سے خود ان کی زبان میں بات کرتےتھے۔ خدا کی قسم! آپ علیہ السلام ہر زبان میں اس زبان کے بولنے والوں سے زیادہ فصیح اور ہر تہذیب و تمدن سے خود اس تہذیب و تمدن کے اہل سے زیادہ آگاہ تھے۔" جناب اباصلتؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: "اے رسول خدا کے فرزندؑ! میں آپؑ کے مختلف زبانوں پر تسلط اور احاطہ پر حیران ہوں۔" حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "میں لوگوں پر خدا کی حجت ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کسی کولوگوں پر حجت قرار دے؟ لیکن وہ ان کی زبان سے واقف نہ ہو، آیا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا یہ فرمان آپ تک نہیں پہنچا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: "ہمیں" فصل الخطاب" عطا کیا گیا ہے اور اس سے مراد مختلف زبانوں سے آشنائی ہی تو ہے"۔ بہر حال ، مامون کا ہمیشہ یہ اصرار ہوتاتھا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں علمی محفلوں کا انعقاد اور آپ علیہ السلام کے ساتھ دانشوروں کے مناظروں کا اہتمام کیا جائے۔ لیکن آخر کاروہ آپ علیہ السلام کوان مناظروں میں شرکت کی دعوت دینے پر بہت پشیمان ہوا۔ کیونکہ ابتداء میں تواُس کا ہدف یہ تھا کہ ان مناظروں کے ذر یعے حضرت امام رضا علیہ السلام کی تحقیر اور آپ علیہ السلام کے علمی مقام و منزلت کی توہین کرسکے اور عوام کوایسے جلسوں میں مشغول رکھ کران کی توجہ مملکت کے سیاسی مسائل سے ہٹادے لیکن جب اس نے دیکھا کہ اسے اس مقصد میںناکامی ہوئی ہے تو بہت پشیمان ہوا۔ بعض لوگوں کی خلاصہ یہ کہ آپ علیہ السلام نے اپنے عصر کے کلامی مسائل میں امّت کی رہنمائی فرمائی اور کئی نام نہاد مسلمان علماء اور دانشمندوں کی کج فہمیوں کو آشکار فرمایا۔ مثال کے طور پر آپ کے عصر میں مسلمان علماء اور دانشمندوں کی ایک کثیر جماعت کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالی قابل رویت ہے اور ظاہری آنکھوں سے خدا کو دیکھنا اگر اس دنیا میں ممکن نہ ہو تو عالم آخرت میں ممکن ہے۔اس نظریہ کے قائلین قرآن کریم کی بعض آیات کے ظواہر سے استدلال وَلَقَد رَاہُ نَز لَة اُخرٰی عِندَ سِدرَةِ المُنتَہٰی ترجمہ :"اور بے شک انہوں نے اُس کودوسری مرتبہ دیکھا؛سدرةالمنتہٰی کے قریب۔" حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس کج فہمی کو آشکار فرمایا اور اس گروہ کے بیان کا جواب خود قرآن کریم کی سورةنجم ہی کی مذکورہ آیات سے دیا اور واضح فرمایا کہ اس آیت میں رؤیت (دیکہنے)سے مراد، ظاہری آنکھوں کادیکھنا نہیں، بلکہ اس سے مراد قلب کادیکھنا (بصیرت)ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: مَاکَذ َبَ الفُؤادُ مَارَٰای ترجمہ :"اُن کے دل نے جودیکھا، اُسے نہیں جھٹلایا۔" پس یہال رؤیت سےمراد، ظاہری آنکھوں سے دیکھنانہیں بلکہ قلبی مشاہدہ مراد ہے۔ اس کے علاوہ یہال رؤیت سے مراد خود اللہ تعالی کی رؤیت نہیں، بلکہ اللہ تعالی کی نشانیوں کا مشاہدہ ہے۔ جیسا کہ خود قرآن کریم اس پر تصریح پیش فرماتا ہے: لَقَد رَاٰی مِن اٰیٰتِ رَبِّہِ الکُبرٰی ترجمہ:"بے شک انہوں نے اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔" اسی طرح رؤیت خدا پر اشاعرہ کی ایک اور دلیل یہ قرآنی آیت تھی: ألى رَبِها نَاظِرَةٌ ترجمہ:"اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔" امام علیہ السلام نے اس دلیل کا بھی قرآنی آیات سے جواب دیا اور واضح کیا کہ یہاں "ناظرة" سے مراد پروردگار کی رؤیت نہیں، ثواب کے حصول کا انتظارہے: مشرقة تنتظر ثواب ربّہا یعنی: "یہ درخشان چہرے اپنے پروردگار کے ثواب کا انتظار کر رہے ہوں گا۔" رؤیت خدا کے قائلین کا ایک اہم استدلال رسول اکرمﷺ کی طرف منسوب وہ حدیث تھی جس کے الفاظ یہ ہیں: فانّ اللہ خلق اٰدم علی صورتہ یعنی:"اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس کی شکل و صورت پر خلق فرمایاہے۔" رؤیت خدا کے قائلین اس حدیث کا یہ معنی مراد لیتے تھے کہ(نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی شکل و صورت خلق فرمایا ہے۔ گویا اللہ تعالی انسانی شکل و صورت کا حامل ہے اور یہ شکل و صورت دیکھی بھی جاسکتی ہے۔ امام علیہ السلام نے اس روایت میں جعل و افتراء کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی کہ قاتلہم اللہ، لقد حذفوا اوّل الحدیث۔۔۔ یعنی:"اللہ تعالی انہیں ہلاک کرے کہ انہوں حدیث کےپہلے حصے کو حذف کردیاہے۔ اصل حدیث یہ ہے کہ رسول خدا دو آدمیوں کے قریب سے گذرے جو ایک دوسرے کو برابھلا کہہ رہے تھے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ: قبح اللہ وجہک، فقال رسول اللہ: یا عبداللہ لا تقول ہذا لاخیک فانّ اللہ عزّ و جلّ خلق اٰدم علی صورتہ یعنی: "اللہ نے تیرا چہرہ قبیح بنایاہے۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا:"اۓ اللہ کے بندے! اپنے بھائی کےلیے یہ الفاظ مت استعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو بھی اسی شکل و صورت پر خلق فرمایا۔" پس جب سب انسان، اسی شکل و صورت پر خلق ہوئے ہیں جس پر اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کوخلق فرمایا تو کسی انسان کو قبیح صورت قرار دینا، نعوذ باللہ حضرت آدم کو قبیح صورت قرار دینے کے مترادف ہے۔ یوں امام رضا علیہ السلام نے اپنے جدّامجد ﷺ کی حدیث کا پورا متن بھی ارشاد فرمایا اور ساتھ حدیث فہمی اور حدیث کے معتبر ہونے کا ایک کلی قاعدہ اور قانون بھی ان الفاظ میں بیان فرمادیا کہ: اذا کانت الروایات مخالفة للقرآن کذّبتہا یعنی:" اگر روایات قرآن سے مخالفت رکھتی ہوں تو میں ان کا جھٹلادوں گا۔"
| ||
Statistics View: 1,942 |
||