امام رضا علیہ السلام کے عمل میں ثقافتی امور کا اہتمام | ||
![]() | ||
امام رضا علیہ السلام کے عمل میں ڈاکٹر علی بیات ایسوسی ایٹ پروفیسر، تہران یونیورسٹی ––امام رضا علیہ السلام کے خلق و سلوک سب لوگوں کے ساتھ ایسے تھے کہ تمام دوست اور دشمن ان کی خو ش خلقی کے شیدائی تھے۔ ان کی اس عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے، آپ کو "رضا" کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ ابراہیم بن عباس نے امام رضا علیہ السلام کے حسن سلوک کی کچھ یوں بیان کیا ہے: "ما رأیت أبا الحسن الرضا جفا أحداً بکلامه قط ، وما رأیته قطع على أحد کلامه حتى یفرغ منه ، وما ردّ أحداً عن حاجة یقدر علیها ، ولا مدّ رجلیه بین یدی جلیس له قط ، ولا اتکأ بین یدی جلیس له قط ، ولا رأیته شتم أحداً من موالیه وممالیکه قط ، ولا رأیته تفل قط ، ولا رأیته یقهقه فی ضحکه قط ، بل کان ضحکه التبسم . وکان إذا خلا ونصبت مائدته أجلس معه على مائدته ممالیکه حتى البواب والسائس ، وکان (ع) قلیل النوم باللیل ، کثیر السهر یحیی أکثر لیالیه من أولها إلى الصبح ، وکان کثیر الصیام فلا یفوته صیام ثلاثة أیام فی الشهر ، ویقول : ذلک صوم الدهر ، وکان (ع) کثیر المعروف والصدقة فی السر ، وأکثر ذلک یکون منه فی اللیالی المظلمة". اس کا مطلب یوں ہے کہ : "میں نے کبھی ابوالحسن(امام) رضا کوکبھی ایسا نہیں دیکھا کہ کسی پر جفا کریں، یا کسی کی بات ختم ہونے سے پہلے قطع کلامی کریں۔ یا حسب استطاعت کسی کی حاجت روائی نہ کرتے ہوں۔ یا دوسروں کےسامنے پاؤں پھیلائیں یا دوسروں کے سامنے ٹیک لگائے بیٹھے ہوں، اور کبھی اپنے خادموں کو دشنام کہے ہوں، یا قہقہے لگائیں بلکہ آپ کی ہنسی تبسم کی حد تک تھی۔ جب بھی کھانے کا دسترخوان بچھتا تو تمام خادموں اور چوکیداروں کو بھی ساتھ بٹھاتے تھے۔ رات کے وقت آپ کی نیند قلیل ہوتی اور زیادہ تر سحر تک جاگتے اور عبادت کرتے اور بہت روزہ رکھتے۔ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ بہت خیرات کرتے اور رات کے وقت چپکے سے غریبوں کی مدد فرماتے تھے۔ " اس اقتباس سے اما م رضا علیہ السلام کی مبارک زندگی کے بہت سے معاشرتی اور ثقافتی پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں۔ دوسروں پر ظلم نہ کرنا، جو اس وقت کے اکثر ظالم حکام کا طریقہ ہوا کرتا ، ایک ایسا سبق ہے جس سے عملی طور پر تمام لوگ بہرہ مند ہوسکتے ہیں۔ قطع کلامی کرنا ایک ایسی مذموم حرکت ہے جس کا اکثر لوگ ارتکاب کرتے ہیں۔ امام رضا علیہ السلام نے اس طرح ہمیں اس بات کی تعلیم دی کہ یہ حرکت بہت ناپسند ہے۔ حاجت مندوں کی حاجت روائی ، ہر استطاعت رکھنے والے شخص کا فرض ہے چونکہ ہمارے امام علیہ السلام بلکہ تمام ائمہ اطہار علیہم السلام نے اس کا بھرپور اہتمام کئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ محافل میں صحیح طور پر بیٹھنے کے طریقے ، جس سے ہماری نئی نسل خاص طور پر بے بہرہ ہیں بھی امام رضا علیہ السلام کی زندگی سے سامنے آتے ہیں۔ اپنے زیردستوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا اور دشنام طرازی نہ کرنا بہت قابل قدر عمل ہے جس سے عام طور پر امیر اور رئیس طبقے کے لوگ بے نیازی برتتے ہیں۔ امام عالیشان علیہ السلام نے اس کا خوبصورت نمونہ پیش فرمایا ہے۔ ان غرباء کو ساتھ بٹھاکر کھانا کھانا اور ان کے لئے رات کے اندھیرے میں مخفی طور پر امداد فراہم کرنا تقریباً تمام مسلمان اکابر کا طریقہ تھا۔ البتہ اس عمل سے اکیسویں صدی کے بعض بہ ظاہر اکابر بے بہر ہ ہیں۔ اس کا اہتمام بھی بہت ضروری ہے۔ امام رضا علیہ السلام کو خراسان تشریف لانے سے پہلے اور ہارون الرشید کے دور خلافت میں، کسی حد تک فراغت حاصل تھی تو آنحضرت نے اس دور میں اپنی امامت کا اعلان فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ثقافتی امور کا بھی اہتمام فرمایا۔ مثلا بہت سے شاگردوں کی تربیت کی مہم چلاکر اس طرح ان کو اپنے علم سے مالامال کرکے ان کے ذریعے بہت سی دینی روایات کو ثبت وضبط کروایا۔ ان کے شاگردوں میں سے بعض، اپنے دور کے مشاہیر علماء میں شمار ہوتے ہیں: حسین بن سعید اہوازی، صفوان بن یحیی، محمد بن عمر واقدی اور موسی بن قاسم ، جن کی بہت اہم تصانیف دستیاب ہیں، خاص طور قابل ذکر ہیں۔ 201 ہجری کو مامون عباسی نے امام رضا علیہ السلام کو زبردستی مدینے سے مرو لے آیا۔ اس کا مقصد اما رضا علیہ السلام کو نزدیک سے نظربند کرنا اور آپ کی مقبولیت اور محبوبیت سے ناجائز فائدہ اٹھاکر اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نیز امام کو نعوذباللہ دنیاپسند دکھانا تھا تا کہ اس طرح امام اور خاندان نبوت کے بارے جو حقیقتاً دنیا و مافیہا کی بہ نسبت لاپرواہی کی صحیح شہرت رکھتے تھی، اس شہرت کو توڑنا بھی اس کا دوسرا مقصد تھا۔ لیکن امام رضا علیہ السلام نے مرو میں کچھ ایسی حکمت عملی اپنائی کہ نہ صرف مامون کی اس مذموم سیاست کو شکست کا سامنا پڑا، بلکہ مدینے سے اتنی لمبے فاصلے پر موجود مسلمانوں کے دل میں ائمہ اطہار علیم السلام کی حقانیت اور محبوبیت پہلے سے بھی زیادہ ہوگئی۔ روحانیت پر بھرپور توجہ، رضائے الہی کو ہر کام میں منظور نظر رکھنا، تقوائے الہی کو اپنانا اور ہر کام میں اس کو معیار کے طور پر مدنظر رکھنا اسی ثقافتی اہتمام کے دوسرے مظاہر تھے جن کا امام رضا علیہ السلام بڑی سنجید گی سے مرو میں اہتمام فرماتے تھے ۔ جدید دور کا انسان اس لئے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے کہ خدا کو فراموش کرکے اپنے آپ کو دنیا میں اکیلا اور آزاد محسوس کرتا ہے۔ لیکن امام رضا علیہ السلام بڑے خدا شناس اور خداترس تھے۔ ان کے سامنے عباسی خاندان کا خلیفہ استبداد اور استکبار کا مکمل نمونہ تھا۔آپ نے کسی خوف و تردید کے بغیر اور اپنے آپ کو صرف اللہ تعالی کے عبد ثابت کرنے سے اسی خلیفے کا سارا غرور خاک میں ملادیا۔ اگر چہ اس طرح آپ (ع)کو اس وجہ سے اپنی جان کی قربانی دینی پڑی، لیکن آپ کی زندگی کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لئے عملی سبق تھا، اس لئے آنحضرت اپنےہر عمل میں رضائے الہی اور مسلمانوں کی ہدایت کو مدنظر رکھ کر سرانجام دیا۔ اس وجہ سے امام رضا علیہ السلام کی شہادت بھی مسلمانوں کے لئے حقیقت کے برملاہونے کا ایک ذریعہ بنا اور آپ کی شہادت کے بعد تاریخ میں ظالم خلیفہ کے ظلم و ستم کے بہت سے پردے چاک ہوگئے۔ | ||
Statistics View: 1,611 |
||