بسم اللہ الرحمن الرحیم | ||
ڈاکٹر سید محمد حسین ہاشمی ادارہ برائے ثقافت اور اسلامی
بسم اللہ الرحمن الرحیم 1۔امام رضا(ع) سے متعلق ہنری اور ثقافتی آثار و تصانیف کے مصنفین کو متعارف کرانے میں امام رضا(ع) کے بین الاقوامی فسٹیول کے بارے آسمان ولایت و امامت کے آٹھویں تابناک ستارے حضرت علی بن موسی الرضا علیہالسلام کی روح پاک پر تحیت و سلام اور امام رضا(ع) کے فسٹیول منانے والے تمام عزیزوں کے لیے مزید کامیابیوں کی خواہش رکھتے ہوئے جو آج کل اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جمہوریہ اسلامیہ ایران کے سب سے عظیم اور آفاقی ثقافتی منصوبوں میں شمار کیا جاتا ہے درج ذیل چند اہم نکات کا بیان کرتا ہوں: پہلا یہ کہ ادارہ برائے اسلامی ثقافت اور تعلقات عامہ جو قابل قدرسپریم لیڈر کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی بھر پور صلاحیتوں کو باہر ملک منتقل کرانے میں ایک اچھا اور قابل فخر کردار ادا کر رہا ہے، یہ ادارہ اس فسٹیول کو بروئے کار لانے میں اپنا کردار دو اہم شکلوں میں جاری رکھتا ہے ایک قومی اور دوسری بین الاقوامی۔ ادارہ بین الاقوامی مشن کو انجام دینے میں اپنی پوری طاقت بروئے کار لاتا ہے تا کہ بین الاقوامی مضبوط اور با صلاحیت اداروں کی شناخت اور دعوت سے اور ان کی توانائیوں کو استعمال میں لاتے ہوئے، اس فسٹیول کو ان تمام علاقوں تک پہنچا دے جو حضرت امام رضا(ع) کے عقیدت مند موجود ہیں۔موجودہ سال میں ستر سے زائد ملکوں اور دو سو سے زائد علاقوں کو اس مہم کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر ادارے نے اس عزم کا ارادہ کیا ہے کہ فن کاروں کے چنیدہ اور منتخب آثار کو باہر ملک بجھوائے تا کہ ان تمام صلاحیتوں سے بین الاقوامی سطح پر بھر پور فائدہ اٹھایا جائے۔ادارے نے اس حوالے سے اچھے قدم اٹھائے ہیں اور ہمیں مزید کوشش اور توازون کی ضرورت ہو گی۔ س2) قیادت کے سلسے میں بین الاقوامی سطح پر رضوی ثقافت کی ترویج و اشاعت کے لیے کیا کیا پالیسیاں بنائی گئی ہیں؟ اسلامی جمہوریہ ایران کی بین الاقوامی مشن نے، ادارہ برائے اسلامی ثقافت اور تعلقات عامہ پر یہ ذمہ داری عائد کردی ہے کہ اسلام اور ائمہ اطہار علیہمالسلام کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مہم کو سرانجام تک پہنچا دے۔موجودہ سال امام رضا(ع) کا بین الاقوامی فسٹیول تہران میں ہو گا جو واضح طور پر مقامی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مستقل حیثیت سے دنیا میں منایا جائے گا۔رضوی خادمین کا بین الاقوامی مجمع اور رضوی خواتین کا انٹرنیشنل سمینار جامعہ المصطفی اور اہل البیت(ع) کے انٹرنیشنل سنٹر اور دیگر اداروں کے تعاون سے، فسٹیول بین الاقوامی سطح تک بڑھانے میں مددگار ہو گا تا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ارض طوس میں مدفون اس معصوم اہل البیت(ع) کی انمول تعلیمات کی پوری دنیا میں ترویج و اشاعت کی جائے۔ س3)اس فسٹیول کی بین الاقوامی مجلس کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس کی سرگرمیوں کو مزید فروغ دینے میں آپ کی کیا تجاویز ہوں گی؟ پہلی بات یہ ہو گی کہ سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھنا اس کی ضمانت ہو گی۔اس سلسلے میں بین الاقوامی مجلس ہر سال فسٹیول کے اختتام پر اور اگلے سال کے فسٹیول کی سرگرمیاں شروع ہونے سے پہلے اپنی پہلی میٹینگ میں پچھلے برس کے فسٹیول کی خامیوں اور کوتاہیوں کو زیر بحث لائے گی اورپیش ہونے والے تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں اپنے لائحہ عمل میں لائے گی۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں اپنی سرگرمیوں کے ارتقاء میں فسٹیول کے ناظرین اور مستفید ہونے والوں کے نقطہ ء نگاہ اور دوسری طرف پیش کیے گئے پروگراموں کی سطح، ثقافتی رنگارنگی اور دیگر وسائل پر نظر رکھنی چاہیے۔ باہر ملک مخاطبین کے تین مختلف گروہ ہوں گے جو رضوی ثقافت کے ریزہ خوار ہیں۔ پہلا گروہ باہر ملک رہنے والے ایرانی لوگ ہیں جن کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہو گی جو کسی نہ کسی وجہ سے باہر ملک مقیم ہیں لیکن اہل البیت(ع) خاص طور پر امام رضا(ع) کی محبت ان کے دلوں میں موجزن ہے۔امام غریب اور حضرت ثامن الحجج کے نام سنتے ہی ان کی آنکھیں نمناک ہو تی ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے یہ گروہ ہمارے پیش ہونے والے قومی پرگراموں کے دلداہ اور گرویدہ ہیں جو کسی بنیادی کمی بیشی اور ترجمے کے بغیر اپنی تمام سرگرمیاں جو قومی سطح پر ادارہ ہذا کے ذریعے بن کر پیش کی جاتی ہیں وہ لوگ رسائی حاصل کر لیں۔اسی لیے اس گروہ کے لیے پیش ہونے والے پرگراموں کے ارتقا میں، قومی سطح پر اپنے پروگرام کی ترقی دیں اور اس خاص گروہ کی شناخت کے توسط سے باہر ملک رہنے والے ہم وطنوں تک یہ سرگرمیاں منتقل کر سکیں۔ دوسرا گروہ اہل البیت علیہمالسلام اور شیعیت سے عقیدت رکھنے والے اور پیروکار ہیں جو دنیا کے کونے کونے میں موجود ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے پروگراموں کے منتظر ہیں۔کشمیر سے لے کر بمبئی، دہلی اور گجرات تک۔حیدر آباد سے لے کر لاہور اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک۔ کنیا ، تانزینیا اور جنوبی افریقہ تک۔ لندن، مانچسٹر ، ڈیٹروٹ تک۔ سعودی عرب کے الشرقیہ، کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر تک ، ایران کو ام القری اور اپنے مذہب کے ملجا و ماوا سمجھتے ہیں لہذا ہم پر فرض ہے اپنی تمام توانائی اور صلاحیت سے اس گروہ سے تعاون کرلیں۔ تیسرا گروہ وہ اہل سنت ہے جو رسول پاک(ص) اور ائمہ اطہار علیہمالسلام سے محبت کرتے ہیں امام رضا(ع) کا عالم زمانہ اور رسول پاک(ص) کے فرزند کی حیثیت سے احترام کرتے ہیں جو البتہ اہل سنت کی اکثریت اس میں شامل ہیں۔ امام علی بن موسی الرضا(ع) کی کتاب حدیث جو اہل سنت اس پر یقین رکھتے ہیں بھی پچھلے برس بنیاد پبلیکیشنز کے توسط سے شائع ہو کر سامنے آئی جو علمی معاشرے نے اس کا خوب استقبال کیا۔ ظاہر ہے ادارہ تین گروہوں کے لیے پروگرام بنانے میں مصروف ہونا چاہیے اور یہ منصوبہ مختلف تحقیقی اور علمی اداروں کی باہمی کوشش اور علمی مدرسوں کی پشت پناہی کے بغیر ناممکن ہو گا۔ہمیں امید ہے کہ توانائیوں میں مزید اضافے کے باعث ہم یہ مہم مکمل طور پر انجام دے سکیں۔ س4) حضرت امام رضا(ع) کی تاریخی ہجرت کی از سر نو شناخت اور ارض ِ ایران میں وجود آنے والی اس عظیم اسلامی ثقافت کے کیا نتائج ہیں؟ میرا یقین ہے کہ علی بن موسی الرضا علیہالسلام کی تاریخی ہجرت خراسان اعظم اور خطہء خوارزم میں اسلامی ثقافت کی تشکیل میں سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ اس ہجرت نے اس زمانے کے لوگوں کے درمیان نہ صرف روحانی اور اخلاقی لہر پیدا کی بلکہ بین المذاہب کی ثقافتی گفتگو کی بنیاد فراہم کر سکی اور دیگر ملکوں کے صاحبان ِ علم و فضل کی علمی و ثقافتی کاوشوں کو یکجا کرتے ہوئے آج کل ان تمام کاوشوں کو بحا رالانوار کی بارھویں اور تیرھویں جلدوں کی شکل میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ہمیں امید ہے رضوی معارف کی اشاعت اور آل محمد(ص) کے اعتقادت کو لوگوں تک پہنچانے سے رضوی تعلیمات پر مبنی ایک سکولار حکومت کا تعاروف پوری دنیا تک کرائیں۔ آخر میں پھر سے اس بات پر تاکید کرتا ہوں کہ مختلف برّاعظموں میں ہمارے محترم ناظرین کی ضروریات اور دنیائے اسلام میں، اسلامی جمہوریہ ایران کی آفاقی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے علمی ، ثقافتی اور ہنری امور کے ذمہ دار اداروں کا فرض ہے کہ وہ اپنی پوری طاقت بروئے کار لائیں تا کہ ہم ہر سال اپنی مزید توانائی اور تنوع کے ذریعے اس امام ہمام کے مکتب کی اشاعت کر سکیں۔
| ||
Statistics View: 1,996 |
||