اچھی حکمرانی امام رضا(ع) کی نظر میں | ||
اچھی حکمرانی امام رضا(ع) کی نظر میں
زینبسعیدی - زینبمحمودیان دارابی
اسلام میں حکومت اور حاکم کی خاص اہمیت ہے اور یہ معاملہ اس کے احکام میں مرکزی کردار کا حامل ہے ۔ دوسرے معنوں میں دین حکومت کے بغیر نامکمل ہے ۔ اسی لیے جب نبی اکرم(ص) نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں منصوبہ ہدایت کا آغازکیا وحی الہی اور آپ کے ارشادات میں اسلامی معاشرے کی قیادت اور ولایت کے مسئلے کو بنیادی موضوعات کی حیثیت حاصل رہی ۔ نبوی اور علوی اسلوب حکمرانی سے یہ برآمد ہوتا ہے کہ اسلام میں حکمرانی دوسرے مقاصد(جیسے سلامتی کا قیام، جسمانی اور مادی ضروریات کی فراہمی، سماجی اور سیاسی آزادی) کے حصول کے علاوہ دو اور اہم اہداف پربھی مشتمل ہے: 1- لوگوں کااخلاقی اور روحانی کمال 2- لوگوں کے ذریعہ انصاف قائم کرنا اب اس مختصر تعارف کے بعد، امام رضا(ع) کے نقطہ نظر سے اچھی حکمرانی کا جائزہ لے کر اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کریں گے ۔ حکومت کے قیام کا پہلا اور سب سے بنیادی نکتہ اسلامی معاشرے کی قیادت ہے ۔ امام رضا(ع) کے ارشادات میں امام اور حکمران کی طرف سے نماز، زکات، حج اور جہاد اور تمام خراج اور صدقات کی فراہم کی جاتی ہے اورسماج میں الہی حدود اور احکام کو قائم کر کے سرحدوں کا تحفظ کیا جاتا ہے ۔ آپ کے مطابق اسلامی معاشرے میں امام معصوم کی کمی، نقصان دین اور الہی احکام کی تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے ۔ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ تاریخ میں کوئی ایسی قوم یا گروہ کا سراغ نہیں ملتا جس نے مادی اور روحانی امور کے نگران کے بغیر پائدار اورکامیاب زندگی بسر کی ہو ۔ اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ حکومت کے منتظم کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں؟ امام رضا(ع) کے طرز حکومت پر نظر ڈالنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو کر سامنےآتا ہے ۔ کیونکہ آپ نے مأمون عباسی کے دور میں عنان حکومت سنبھالی اور اس وقت معاشرہ بدنظمی اور عدم انتظام کا شکار تھا ۔ ایسے حالات میں آپ کو ایک خاص طرز حکومت اختیار کرنا پڑا جسے آج کل انتظام افراتفری کہاجاتا ہے ۔
امام اور امت لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، افسران اور منتظمین حکومت کا ایک اہم فرض ہے۔ ابراہیم ابن عباس کا کہنا ہے: میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ امام رضا(ع) اپنی زبان کے ذریعہ کسی کو ستائیں یا کسی کی بات کو کاٹ لیں اوراگر آپ سے کسی کی حاجت پوری ہو سکتی تھی تو وہ ہرگزانکار نہیں کرتے تھے ۔
ماتحتوں کے ساتھ امام کا رویہ "یاسر" امام(ع) کے نوکر کا کہنا ہے: امام رضا(ع) مکان بھر کے تمام چھوٹے اور بڑے نوکروں کو اپنے ارد گرد جمع کرکے بے تکلفانہ انداز میں ان سے بات چیت کرتے تھے اور وہ بھی آپ سے اپنے آپ کو قریب سمجھتے تھے ۔ آپ رات کے کھانے کے وقت چھوٹے بڑے کسی کو نظرانداز نہیں کرتےتھے ۔
معاشرے کے انتظام میں خلاف ورزیوں پر امام کا ردعمل شیخ مفید(علیہ الرحمہ) کہتے ہیں: جب امام رضا(ع) مأمون کے ساتھ اکیلے بیٹھتے تھے، اس کو زیادہ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور اللہ تعالی سے ڈرآتے تھے اور اس کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے تھے، مأمون آپ کے منہ پرکچھ نہیں کہتا مگر وہ
امام رضا(ع) اور بحران کا انتظام امام رضا(ع) اپنی ولیعہدی کے قبول کرنے میں مختار نہ تھے اور اس منصب کو اپنے مقدس اہداف کے حصول کےراستے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے چنانچہ جب حضرت نے خلافت کے قبول کرنے سے انکارفرمایا مأمون نے ولیعہدی کا سوال پیش کیا اور چونکہ حضرت اس کےانجام سے بخوبی واقف تھے اورجابرحکومت کی طرف سے کسی منصب کو بخوشی قبول کرنا آپ کے خاندانی اصول کے خلاف تھا تو اس سے بھی انکارفرمایا مگراس پرمأمون کا اصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ "لابدمن قبولک“یعنی قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے اور ساتھ ساتھ امام کو یہ دھمکی دی کہ اگر آپ اس کومنظورنہیں کریں گے تو آپ کواپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔جیسا کہ جانتے ہیں حفاظت جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے مگر جہاں مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پرموقوف ہو تو جان کا خطرہ قبول کیا جاسکتا ہے ۔ امام نے مفادات اور مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب میں فرمایا، اگر ایسا ہے تو میں مجبوراً قبول کرتا ہوں مگر حکومت کے امور میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کروں گا ۔لیکن دوسری طرف سے چونکہ امام حکومت وقت کے غلط اقدامات کے سامنےخاموش نہیں رہ سکتے تھے تو آپ کو مأمون کا منصوبہ ناکام بنانے کے لیے ایک خاص رویہ اختیار کرنا پڑا جس کی طرف آگے اشارہ ہوگا ۔ اس کے بعد یہ برائے نام ولی عہدی صرف سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی ۔ممکن ہے مأمون نے اس کے ذریعے کسی حد تک اپنے سیاسی مقاصد میں کامیابی حاصل کرلی ہو مگرحضرت نے امام کی حیثیت سے اپنے فرایض کی انجام دہی کے سلسلے میں من و عن وہی رویہ اختیا کیا جسے حضرت علی(ع) نے بھی اپنے زمانے کی بااقتدار طاقتوں کے سامنے اپنایا تھاجس طرح حکومتی امور میں حضرت علی(ع) کی کبھی کبھار تجاویز کو ان حکومتوں کے جائز یا ناجائز ہونے کا ثبوت قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح امام رضاعلیہالسلام کی اس نوعیت کی ولیعہدی بھی اس سلطنت کا جواز شمار نہیں کی جا سکتی ۔ یہ در اصل ایک کھیل تھا جس سے مراد مأمون کی راج ہٹ تھی اورسیاسی اغراض کے پیش نظرامام کی ولیعہدی کی صورت میں سامنے آئی اور امام کو اسلامی معاشرے کی مصلحتوں اور مفادات کی بنیاد پر منظور کرنا پڑا مگر آپ نے اپنے دامن کو سلطنت ظلم کے اقدامات اورنظم ونسق کے امورمیں شمولیت کے نتیجے میں داغدار ہونے سے بچایا ۔ امام کی طرف سےاس منصب کو قبول کرنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ لوگ، ائمہ اطہار اور خاندان پیغمبر کو سیاست کے عرصے میں بھی حاضر و ناظر دیکھیں اور ان کو بھول نہ جائیں ۔ امام رضا(ع) مختلف طریقوں سے ماموں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے کارروائی کرتےتھے، اس سلسلے میں چند ایک مثالیں درج کی جاتی ہیں : ولیعہدی کو مشروط کرنے سے مأمون کے اہداف کو بگڑنا مأمون کے خلاف لوگوں کے اذہاں میں شک اور تذبذب پیدا کرنا مأمون کی خلافت کی عدم مشروعیت کا اعلان امام(ع) نے ولیعہدی کو قبول کرنے کےلیے یہ شرطیں قائم کیں : "میں نہ کبھی کسی کو کسی منصب کےلیے مقرر کروں گا نہ ہی کسی منصب سے معزول ۔ ولیعہدی کے دوراں معاشرے کی مروجہ رسومات کو ختم کرنے یا موجودہ صورتحال میں تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کروں گا بلکہ محض ایک نگران کی حیثیت سے اپنی تجاویز پیش کروں گا ۔ " مأمون نے بھی امام کی ان تمام شروط کو منظور کیا اور اس طرح امام نے اپنی شرطوں کے ذریعے مأمون کے تمام اہداف اور اغراض کو بے ثمر کیا ۔ امام ہر وقت موکداً اعلان کرتے تھے کہ مأمون نے آپ کو بالاجبار اپنا ولیعہد بنایا ہے اور آپ موت کے خطرے کے پیش نظر اس منصب پر بیٹھے ہیں اور اس کے علاوہ کبھی کبھی لوگوں کو اس حقیقت سے باخبر کرتے تھے کہ مأمون جلد ہی وعدہ خلافی کرے گا اوریہاں تک کہتے تھے کہ مأمون کے بغیرکوئی اور آپ کو مسموم نہیں کرے گا اور مأمون خود ہی آپ کو شہید کرےگا۔ امام رضا(ع) ہر جگہ فرماتے تھے کہ مأمون نے اپنی ولیعہدی کا منصب امام کو سونپنے سے کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے (صرف ان کے اپنے مسلّم حق کو جنہوں نے بہ غضب غصب کیا تھا، آپ کو واپس کر دیاہے۔) اس طرح دیکھتے ہیں کہ امام رضا(ع) کو اسلامی معاشرے کے مفادات کے تحفظ کے لیے ولیعہدی کا منصب قبول کرنا پڑا ۔ دراصل مأمون امام کو حکومتی امور میں شامل کر کے عوام کے سامنے اپنی حکومت کا جواز پیش کرنا چاہتا تھا مگر امام رضا(ع) ولیعہدی کو مشروط کرنے سے مأمون کی اس سازش کو بے اثر کردیا ۔
| ||
Statistics View: 2,003 |
||