خاندان رسالت کے معصوم دہم | ||
خاندان رسالت کے معصوم دہم (حضرت امام علی رضاعلیہ السلام)
آنا حمیدی
نام و نسب علی علیہ السّلام نام ، رضا علیہ السّلام لقب اور ابوالحسن کنیت ، حضرت امام موسی کاظم علیہ السّلام والد بزرگوار تھے اور اس لیے آپ کو پورے نام و لقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا علیہ السّلام کہاجائے گا، والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا، نہایت عبادت گزار بی بی تھیں ۔
ولادت 11 ذی القعده 148 ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی ۔ اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 15 شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وفات ہوچکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میں آجانے سے یقینًا گھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔
تربیت آپ کی نشونما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی۔ اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کر رہے تھے مگر اس سے پہلے 28 یا 29 برس آپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔
جانشینی امام موسیٰ کاظم کو معلوم تھا کہ حکومت وقت آپ کو ازادی سے سانس لینے نہ دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آپ کے اخری عمر کے حصے میں اور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستانِ اہلبیت علیہ السّلام کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے رہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہوجائے گا۔ اس لیے آپ نے انہی ازادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروانِ اہلیبت علیہ السّلام کو اپنے بعد ہونے والے امام علیہ السّلام سے روشناس بنانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ چنانچہ اولاد علی علیہ السّلام و فاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے جمع فرما کر اپنے فرزند علی رضا علیہ السّلام کی وصیت و جانشینی کا اعلان فرمایا اور ایک وصیت نامہ تحریراً بھی مکمل فرمایا، جس پر مدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی، یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظر نہیں اتا۔ صرف ان خصوصی حالات کی بناء پر جن سے دوسرے ائمہ اپنی وفات کے موقع پر دوچار نہیں ہونے والے تھے ۔
دور امامت حضرت امام علی رضا علیہ السّلام کی پینتیس برس کی عمر جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے۔ اس ناخوشگوار ماحول میں حضرت علیہ السّلام نے خاموشی کے ساتھ شریعت حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا۔
علمی کمال آلِ محمد علیہ السّلام کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا، یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقعہ دیا اور کسی کو زیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا علیہالسلام ہیں۔ جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا علیہ السّلام عالمِ آلِ محمدد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کرلیا کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ۔ محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اکٹھے کیے تو اٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔
زندگی کے مختلف دور حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے بعد دس برس ہارون کا دور رہا۔ یقیناً وہ امام رضا علیہ السّلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گوارا نہیں کیا۔ مگر یا تو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہوا اور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السّلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی، یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنے کے بعد اثر و رسوخ کے بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ علی ابن موسیٰ علیہ السّلام بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ہیں تو ہارون نے جواب دیا کہ جو کچھ ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وہی کیا کم ہے جو اب تم چاہتے ہو کہ میں اس نسل ہی کا خاتمہ کروں ۔ پھر بھی ہارون رشید کا اہل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور پر سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہل بیت علیہ السّلام کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نہیں ہوسکتے تھے، اور نہ امام علیہ السّلام کے پاس ازادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے آسکتے تھے نہ حضرت علیہ السّلام کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے ۔ ہارون کا اخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مأمون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا۔ امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مأمون ایک عجمی کنیز کے پیٹ میں سے تھا ۔ اس لیے درباد کا عجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا ۔ دونوں کی اپس میں رسہ کشی ہارون کے لیے سوہانِ روح بنی رہتی تھی، اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوں کردیا کہ دارالسلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ، مصر، حجاز ، یمن وغیرہ محمد امین کے نام کیے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران، خراسان ، ترکستان وغیرہ مأمون کے لیے مقرر کیے گئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کا رکا ہو سکتا تھا جب دونوں فریق" جیو اور جینے دو" کے اصول پر عمل کرتے ہوتے ۔ لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرما ہو وہاں اگر بنی عباس کے ہاتھوں بنی فاطمہ کے خلاف ہر طرح کے ظلم و تعدی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرنے کے لیے تیار نظر آتے۔ اور کیوں نہ ان طاقتوں میں باہم تصادم ہو جب ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ علیہ السّلام اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کرلیا کرتے تھے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی انکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میں خانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مأمون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی ، امین، تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مأمون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدود سلطنت پر قائم ہوگئی ۔
ولی عہدی امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت تو مأمون کے نام سے قائم ہوگئی مگر یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ امین ننھیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مأمون عجمی النسل۔ امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل مأمون کی طرف سے صاف نہیں ہوسکتے تھے بلکہ غم و غصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے۔ دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی اس سے بھی مأمون کو ہر وقت خطرہ لگا ہوا تھا۔ اولادفاطمہ میں سے بہت سے لوگ جو وقتاً فوقتاً بنی عباس کے مقابل میں کھڑے ہوتے رہتے تھے وہ خواہ قتل کردیئے گئے ہوں یا جلاوطن کیے گئے ہوں یاقید رکھے گئے ہوں ان کے بھی موافق ایک جماعت تھی جو اگر حکومت کا کچھ بگاڑ نہ بھی سکتی تب بھی دل ہی دل میں حکومت بنی عباس سے بیزار ضرور تھی ۔ ایران میں ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کے خلاف جو اشتعال پیدا کیا تھا وہ ان مظالم ہی کو یاد دلا کر جو بنی امیہ کے ہاتھوں حضرت امام حسین علیہ السّلام اور دوسرے بنی فاطمہ کے ساتھ ہوئے تھے ۔ اس سے ایران میں اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا پیدا ہونا فطری تھا ، درمیان میں بنی عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا مگر اتنی مدت میں کچھ نہ کچھ تو ایرانیوں کی انکھیں بھی کھلی ہی ہوں گی کہ ہم سے کیا کہا گیا تھا اور اقتدار کن لوگوں نے حاصل کرلیا۔ ممکن ہے کہ ایرانی قوم کے ان رجحانات کا چرچا مأمون کے کانوں تک بھی پہنچا ہو۔ اب جس وقت کہ امین کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پر اور بنی عباس کے خاندان پر بھروسہ نہیں کرسکتا تھا اور اسے ہر وقت اس حلقہ سے بغاوت کا اندیشہ تھا تو اسے سیاسی مصلحت اسی میں معلوم ہوئی کہ عرب کے خلاف عجم اور بنی عباس کے خلاف بنی فاطمہ کو اپنا بنایا جائے اور چونکہ طرزِعمل میں خلوص سمجھا نہیں جا سکتا اور وہ عالمِ طبائع پر اثر نہیں ڈال سکتا۔ اگر یہ نمایاں ہوجائے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ہے ا س لیے ضرورت ہوئی کہ مأمون مذہبی حیثیت سے سے اپنی شیعیت اور ولائے اہل بیت علیہ السّلام کے چرچے عوام کے حلقوں میں پھیلائے اور یہ دکھلائے کہ وہ انتہائی نیک نیتی سے اب "حق بحق دار رسید " کے مقولے کو سچا بنانا چاہتا ہے ۔ اس سلسلے میں جیسا کہ جناب شیخ صدوق نے تحریرفرمایا ہے اس نے اپنی نذر کی حکایت بھی نشر کی کہ جب امین کا اور میرا مقابلہ تھا اور بہت نازک حالت تھی اور عین اسی وقت میرے خلاف سیستان اور کرمان میں بھی بغاوت ہوگئی تھی اور خراسان میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میری مالی حالت بھی ابتر تھی اور فوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا تو اس سخت اور دشوار ماحول میں میں نے خدا سے التجا کی اور منّت مانی کہ اگر یہ سب جھگڑے ختم ہوجائیں اور میں خلافت تک پہنچوں تو اس کو اس کے اصلی حقدار یعنی اولادِ فاطمہ میں سے جو اس کا اہل ہو اس تک پہنچادوں۔ اسی نذر کے بعد سے میرے سب کام بننے لگے اور اخر تمام دشمنوں پر مجھے فتح حاصل ہوئی ۔ یقینا یہ واقعہ مأمون کی طرف سے اس لیے بیان کیا گیا کہ اس طرزِ عمل خلوص قلب اور حسن نیّت پر مبنی سمجھا جائے۔ یوں تو اہلیبت علیہ السّلام کے جو کھلے ہوئے سخت سے سخت دشمن تھے وہ بھی ان کی حقیقت اور فضیلت سے واقف تھے ہی اور ان کی عظمت کو جانتے تھے مگر شیعیت کے معنیٰ صرف یہ جاننا تو نہیں ہیں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرنا ہیں اور مأمون کے طرزِ عمل سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اس دعوائے شیعیت اور محبت اہلیبت علیہ السّلام کا ڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود خود امام علیہ السّلام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ عوام کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے کی کوشش کی تھی ۔ ولی عہد بننے کے بارے میں آپ کے اختیارات کو بالکل سلب کردیا گیا اور آپ کو مجبور بنا دیا گیا تھا ۔ اس سے ظاہرہے کہ ولی عہدی کی تفویض بھی ایک حاکمانہ تشدد تھا جو اس وقت شیعیت کے بھیس میں امام علیہ السّلام کے ساتھ کیا جا رہا تھا ۔ امام علیہ السّلام کا اس ولی عہدی کوقبول کرنا بالکل ایسا ہی تا جیسا ہارون کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کا جیل خانہ چلے جانا، اسی لیے جب امام رضا علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ہو رہے تھے تو آپ کے رنج و صدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وہی عالم تھا جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کا مدینہ سے روانگی کے موقع پر تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بیتابانہ روضہ کے اندر جاتے تھے اور نالہ و اہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں ۔ پھر باہر آتے نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں اور پھر دل نہیں مانتا، پھر روضہ سے جاکر لپٹ جاتے ہیں۔ یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی۔ راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت علیہ السّلام کے قریب گیا تو فرمایا اے محول میں اپنے جد امجد کے روضہ سے بہ جبر جدا کیا جا رہا ہوں۔ اب مجھ کو یہاں واپس انا نصیب نہ ہوگا ۔ 200 ھ میں حضرت علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روان ہوئے، اہل وعیال اور متعلقین سب مدینہ ہی چھوڑ گئے۔ اس وقت امام محمد تقی علیہ السّلام کی عمر پانچ برس کی تھی۔ آپ بھی مدینہ میں ہی رہے۔ جب حضرت علیہ السّلام مرو پہنچے جو اس وقت دارالسلطنت تھا تو مأمون نے چند روز ضیافت وتکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کا سوال پیش کیا۔ حضرت علیہ السّلام نے اس سے اسی طرح انکار کیا جس طرح امیر المومنین علیہ السّلام چوتھے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرما رہے تھے، مأمون کو خلافت سے دست بردار ہونا در حیقیقت منظور نہ تھا ورنہ وہ امام علیہ السّلام کو اسی مجبور کرتا۔ چنانچہ جب حضرت علیہ السّلام نے خلافت قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولی عہدی کا سوال پیش کیا۔ حضرت علیہ السّلام اس کے بھی انجام سے واقف تھے ۔ نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے مذہبی اصول کے خلاف تھا۔ حضرت علیہ السّلام نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مأمون کا اصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر آپ اس کو منظور نہیں کرسکتے تو آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ جان کا خطرہ قبول کیا جاسکتا ہے۔ جب مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ہو ورنہ حفاظت جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے ۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا یہ ہے تو مجبوراً قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں میں خود دخل نہ دوں گا ۔ اس کے بعد یہ ولی عہدی صرف برائے نام سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی ۔ جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک کسی سیاسی مقصد میں کامیابی حاصل ہوگئی ہو ۔ مگر امام علیہ السّلام کی حیثیت اپنے فرائض کے انجام دینے میں بالکل وہ تھی جو ان کے پیش روحضرت علی مرتضی علیہ السّلام اپنے زمانہ کی با اقتدار طاقتوں کے ساتھ اختیار کرچکے تھے جس طرح ان کا کبھی کبھی مشورہ دے دینا ان حکومتوں کو صحیح اور ناجائز نہیں بنا سکتا تھا ویسے ہی امام رضا علیہ السّلام کا اس نوعیت سے ولی عہدی کا قبول فرمانا اس سلطنت کے جواز کا باعث نہیں ہو سکتا تھا، صرف مأمون کیا ایک راج ہٹ تھی جو اس طرح پوری ہوگئی مگر امام علیہ السّلام نے اپنے دامن کو سلطنت ظلم کے اقدامات اور نظم و نسق سے بالکل الگ رکھا ۔ بنی عباس مأمون کے اس فیصلے سے قطعاً متفق نہ تھے نے بہت کچھ دراندازیاں کیں مگر مأمون نے صاف کہہ دیا کہ علی رضا علیہ السّلام سے بہتر کوئی دوسرا شخص تم بتادو اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے مناظرے بھی ہوے مگر ظاہر ہے کہ امام علیہ السّلام کے مقابلہ میں کس کی علمی فوقیت ثابت ہوسکتی تھی، مأمون کا فیصلہ اٹل تھا اور وہ اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدل دیتا ۔ یکم رمضان 201 ھ روزپنجشنبہ جلسہ ولی عہدی منعقد ہوا۔ بڑی شان و شوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میں لائی گئی۔ سب سے پہلے مأمون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بعیت کی ۔ پھر اور لوگ بعیت سے شرفیاب ہوئے سونے چاندی کے سکے سرمبارک پر نثار کیے گئے اور تمام ارکانِ سلطنت وملازمین کو انعامات تقسیم ہوئے، مأمون نے حکم دیا کہ حضرت علیہ السّلام کے نام کا سکّہ تیار کیا جائے ، چنانچہ درہم و دینار پر حضرت علیہ السّلام کے نام کا نقش ہوا اور تمام قلمرو میں وہ سکّہ چلایا گیا، جمعہ کے خطبہ میں حضرت علیہ السّلام کا نام داخل کیا گیا ۔
اخلاق و اوصاف مجبوری اور بے بسی کا نام قناعت یا درویشی "عصمت بی بی از بے چادری" کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا شعار رہتا ہے مگر ثروت و اقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنا بلند مرتبہ مردانِ خدا کا حصہ ہے۔ اہل بیت معصومین علیہ السّلام میں سے جو بزرگوار ظاہری حیثیت سے اقتدار کے درجہ پر نہ تھے کیوں کہ ان کی فقیری کو دشمن بے بسی پر محمول کرکے طعن و تشنیع پر امادہ ہوتے اور حقّانیت کے وقار کو ٹھیس لگتی مگر جو بزرگ اتفاقات روزگار سے ظاہری اقتدار کے درجہ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے اتنا ہی فقرا اور سادگی کے مظاہرہ میں اضافہ کردیا تاکہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کا ذریعہ بنے اور ان کے لیے نمونہ عمل ہو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی علیہ السّلام چونکہ شہنشاہ اسلام مانے جا رہے تھے ا س لیے آپ کا لباس اور طعام ویسا زاہدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین علیہ السّلام کے یہاں نہیں ملتی ۔ یہی صورت حضرت علی رضا علیہ السّلام کی تھی، آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عہد بنائے گئے تھے جن کی وسعت مملکت کے سامنے روم و فارس کا ذکر بھی طاقِ نسیان کی نذر ہوگیا تھا۔ جہاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے آواز بلند ہوتی تھی کہ "جا جہاں تجھے برسنا ہو برس ، بہتر حال تیری پیداواری کااخراج میرے پاس ہی ائے گا "۔ حضرت امام رضا علیہ السّلام کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کا رویہ کیا ہوگا، یہاں امام رضا علیہ السّلام کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تر بنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ علی رضا علیہ السّلام کے لباس میں علی المرتضی علیہ السّلام کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے اگئی ۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا، کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔ داب و اداب شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ہوجایا کرے تو کیا حرج ہے؟ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا خالق سب کاالله ہے ۔ ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے ادم علیہ السّلام ہیں۔ جزاوسزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی ، پھر دنیا میں تفرقہ کس لیے ہو۔ اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جز و بن کر جہاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق خدا پر حکمرانی کا حقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ہم کیسے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم و ستم اور فسق و فجور میں بنی امیہ سے کم نہ رہے بلکہ بعض باتوں میں ان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ہو کر امام رضا علیہ السّلام کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نہیں اصل انسان کا عمل ہے بظاہر صرف ایک شخص کا اظہار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بہرحال ایک اچھی صفت ہے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ہوئی ذہنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کا اعلان تھا اور اس حیثیت سے بڑا اہم ہوگیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہو رہا تھا ۔ چنانچہ امام رضا علیہ السّلام کی سیرت میں اس کے مختلف شواہد ہیں، ایک شخص نے حضرت علیہ السّلام کی خدمت میں عرض کی کہ "خدا کی قسم اباؤ اجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں ۔" حضرت علیہ السّلام نے فرمایا ۔" میرے آبا و اجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ ، پرہیز گاری اوراطاعتِ خدا سے۔" ایک شخص نے کسی دن کہا کہ ۔" والله آپ بہترین خلق ہیں ۔" حضرت علیہ السّلام نے فرمایا ۔" اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کا تقویٰ و پرہیز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے" ۔ ابراہیم بن عباس کا بیان ہے کہ حضرت علیہ السّلام فرماتے تھے "میرے تمام لونڈی اور غلام ازاد ہوجائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نہیں جانتا (حضرت علیہ السّلام نے اشارہ کیا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا "۔ یہ باتیں کوتاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار پر محمول کرلیتے ہوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روایقیناً اتنا کند ذہن نہ ہوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا علیہ السّلام کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رہے تھے ۔ اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لیے حضرت علیہ السّلام کو ولی عہد بنایا تھا مگر بہت جلد اسے محسوس ہوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رہی تو عوام کی ذہنیت میں یک لخت انقلاب ہوجائے گا اور عباسی سلطنت کا تخت ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گا۔
عزائے حسین علیہ السّلام کی اشاعت اب امام رضا علیہ السّلام کو تبلیغ حق کے لیے نام حسین علیہ السّلام کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام علیہ السّلام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السّلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد سلطنت بھی ۔ اس لیے آپ کے دربار میں حاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع ہے ۔ مرو کا مقام ہے جو ایران کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ ہر طرف کے لوگ یہاںآتے ہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ادھر محرم کا چاند نکلا اور انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ دوسروں کو بھی ترغیب و تحریص کی جانے لگی کہ آلِ محمدد کے مصائب کو یاد کرو اور تاثرات غم کو ظاہر کرو۔یہ بھی ارشاد ہونے لگا کہ جو اس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کا دل مردہ نہ ہوگا ۔ اس دن کہ جب سب کے دل مردہ ہوں گے ۔ تذکرہ امام حسین علیہ السّلام کے لیے جو مجمع ہو اس کا نام اصطلاحی طو ر پر مجلس اسی امام رضا علیہ السّلام کی حدیث ہی سے ماخوذ ہے۔ آپ نے علمی طور پر خود مجلسیں کرنا شروع کر دیں، جن میں کبھی خود ذاکر ہوئے اور دوسرے سامعین جیسے یان بن شیب کی حاضری کے موقع پر جو آپ نے مصائب امام حسین علیہ السّلام بیان فرمائے اور کبھی عبدالله بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعر کی حاضری کے موقع پر اس شاعر کو حکم ہوا کہ تم ذکر امام حسین علیہ السّلام میں اشعار پڑھو وہ ذاکر ہوا اور حضرت سامعین میں داخل ہوئے ۔ دعبل کو حضرت نے بعد مجلس ایک قیمتی حلّہ بھی مرحمت فرمایا جس کے لینے میں دعبل نے یہ کہہ کرعذر کیا کہ مجھے قیمتی حلّہ کی ضرورت نہیں ہے اپنے جسم کا اترا ہوا لباس مرحمت فرمائے تو حضرت نے ان کی خوشی پوری کی وہ حلّہ تو انھیں دیا ہی تھا اس کے علاوہ ایک جبّہ اپنے پہننے کا بھی مرحمت فرمایا ۔ اس سے ذاکر کا بلند طریقہ کار کہ اسے کسی دنیوی انعام کی حاضر یامعاذ الله اجرت طے کرکے ذاکری نہیں کرنا چاہیے اور بانی مجلس کا طریقہ کار کہ وہ بغیر طے کیے ہوئے کچھ بطور پیشکش ذاکر کی خدمت میں پیش کرے دونوں امر ثابت ہیں مگر ان مجالس میں سامعین کے اندر کسی حصہ کی تقسیم ہر گز کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں ہوئی ۔ وفات مأمون کی توقعات غلط ثابت ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ اخر امام علیہ السّلام کی جان لینے کے درپے ہوگیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا ۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 17 صفر 203 ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی ۔ مأمون نے بظاہر بہت رنج و ماتم کا اظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ آج تاجدارانِ عالم کی جبیں سائی کا مرکز بناہوا ہے وہیں اپنے وقت کا بزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔ | ||
Statistics View: 2,128 |
||