امام رضا علیہالسلام کے علمی کارنامے
سیده مصباح فاطمه
خداوند عالم نے علم کو نور قرار دیا ہے اور شیعہ اثناعشری کے عقائد میں امام معصوم ہوتا ہے اور وہ علم لدنی کا مالک ہوتا ہے ۔تاریخ میں علم ہمیشہ ائمہ اہلبیت کے پاس رہا اور ہر دور کہ غیرشیعہ علما نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ علم کے اصلی وارث اورمالک اہلبیت ع ہی ہیں۔دیگر آئمہ کیطرح امام رضا علیہالسلام بھی علم لدنی کے مالک تھے اور انہوں نے اپنے علم کی برکت سے ہی گمراہوں کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ہمارے تمام ائمہ کا دور اپنے مخصوص حالات سے دوچار تھا اور ائمہ نے بھی انہی حالات کی روشنی میں اپنے عمل و کردار سے انسانیت کو ہدایت کے راستے پرگامزن کیا۔
امام رضا(ع) کے عہد کو ہم علمی عزوات (Academic crusades) کا عہد کہہ سکتے ہیں۔ آپ جب ظاہری امامت پر فائز ہوئے تو اسلام پر علوم باطلہ کی یلغار تھی اور ہر جانب سے اسلام کی حقانیت اور صداقت کو علمی حیثیت سے زیر کرنے کی کوشش جاری تھی۔
امام جعفر صادق(ع) کے بعد امام رضا(ع) کو ترویج علم و دانش کے سب سے زیادہ مواقع ملے۔ امام موسیٰ کاظم(ع) اپنے اہل خاندان اور فرزندوں کو فرماتے تھے کہ'' تمہارے بھائی علی رضا(ع) عالم آل محمد ہیں'' احادیث میں ہر 3 سال بعد ایک مجدد اسلام کے نمود و شہود کا نشانہ ملتا ہے علامہ ابن اثیر جندی اپنی کتاب جامع الاصول میں لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضا(ع) تیسری صدی ہجری میں مجدد تھے اور حضرت یعقوب کلینی چوتھی صدی ہجری میں مجدد تھے۔ شاہ عبدالعزیزی محدث دہلوی نے ''تحفہ اثنا عشری'' میں ابن اثیر کا قول نقل کیا ہے۔
امام علی رضا(ع) اہلبیت کے ان اماموں میں سے ہیں جنہوں نے عمومی طور پر اپنی دانش اور علم اور اپنے شاگردوں کی تعلیم وتربیت اور مختلف موقعوں پر کیے جانے والے سوالات اور جوابات ، مباحثات اور علمی مناظروں کے ذریعہ اسلامی فکر کو مالا مال کیا۔ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ ان ائمہ نے کسی دانشمند سے سبق لیا ہو بلکہ ان کی دانش کا سرچشمہ ان کے جد بزرگوار حضرت آنحضرت تھے جن سے انہوں نے ور اثتاً علم حاصل کیا۔
عیسیٰ یقطینی کا بیان ہے کہ میں نے امام کے تحریری مسائل کے جوابات کو اکٹھا کیا تو ان کی تعداد تقریباً 18000 تھی۔
مأمون رشید کا یہ دستور تھاکہ مختلف مذاہب کے علما کو دربار میں امام(ع) کے رو برو بحث کی دعوت دیتا۔ محد ثیں و مفسرین اور علما جو آپ(ع) کی برابری کا دعویٰ رکھتے تھے وہ بھی ان علمی مباحث میں آپ کے سامنے ادب سے بیٹھتے تھے۔ زہری ، ابن قتیبہ، سفیانِ ثوری، عبدالرحمن اور عکرمہ نے آپ سے فیض حاصل کیا ان مناظروں کے پیچھے مأمون کے سیاسی مقاصد بھی تھے۔ علمی مباحث سے طبعادلچسپی کے باوجود مأمون یہ نہیں چاہتا تھا کہ ان مناظروں کے ذریعہ امام کی شخصیت ، علویوں اور انقلابیوں کی توجہ کا مرکز بن جائے بلکہ اس موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی وقت امام(ع) جواب دینے سے عاجز ہو جائیں جو ناممکن تھا بلکہ مأمون کی خواہش کے برعکس یہ مناظرات امام(ع) کے علمی شکوہ وشائستگی اور شیعہ عقیدہ کی برتری منوانے کا ذریعہ بن گئے۔(جواد معینی)
امام(ع) کے مناظروں میں ایک قابل ذکر مجلس میں جاثلیق، مسیحی پادریوں کا رئیس، راس الجالوت یہودی دانشمند، ہندو دانشور، پارسی، مجوسی، بدھ اور دیگر مذاہب کے علما بہ یک ساتھ موجود تھے۔ امام(ع) نے ہر عالم سے اس کی اپنی مقدس کتاب کے حوالوں سے اس کی مروجہ زبان میں بحث کی۔ ایک اور مناظرہ خراسانی عالم سلیمان مروزی کے ساتھ ہوا جس میں مسئلہ بداء موضوع بحث تھا۔ علی بن جھم سے مناظرہ میں عصمت پیغمبران پر بحث ہوئی جس میں امام(ع) نے حضرت یوسف، ذالنون اور داؤد علیہالسلام کے واقعات سے اپنی دلائل کو مستحکم کیا۔ المختصر ان مناظروں کے ذریعہ امام(ع) کو جید علما اور فقہا کی موجودگی میں اپنے علم و فضیلت کے اظہار کا موقع ملا جو ان کی حکمت عملی کا ایک جزو تھا۔
تالیفات:
اکثر ائمہ علیہالسلام کی زندگی کے زیادہ تر حصے حکومت وقت کی سختیوں اور پابندیوں سے دوچار رہے۔ امام رضا(ع) کی مدت امامت کے 20 سال میں سے صرف تقریبا 3 سال ایسے تھے کہ نسبتاً آپ نے ایک بہتر ماحول میں وقت گزارا لیکن یہاں بھی ہمیشہ ایک مسلسل نگرانی (Surveliance) کی فضا موجود تھی، ان کے عقیدتمندوں کا حکومتی عملہ ہمیشہ پیچھا کرتا۔ اس گھٹن کے ماحول کے باوجود مختلف موضوعات پر ائمہ حقہ کے علمی فیوض تک رسائی کی اور ان کو قلمبند کیا جو اب ان ائمہ کی تالیفات کی شکل میں موجود ہے۔ امام رضا(ع) سے منسوب تالیفات کا ایک سرسری ذکر حسب ذیل ہے۔
1۔ کتاب فقہ رضوی: یہ کتاب دانشمندوں کے درمیان موضوع بحث بنی ہے۔ کچھ علما جن میں مجلسی اول ودوم بحرالعلوم ، صاحب حدائق اور شیخ نوری شامل ہیں اس کو معتبر شمار کرتے ہیں۔ یہ امام(ع) سے منسوب احادیث کا مجموعہ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ شیخ صدوق کے والد کی تالیف ہے جن کا نام علی بن موسیٰ(ع)تھا اور نام کے ساتھ رضا کا اضافہ کاتب کی غلطی شمار کیا گیا۔ بعض اس کو شیخ صدوق کی تالیف قرار دیتے ہیں جنہوں نے روایات کو اسناد کے بغیر جمع کیا۔ آغا مہدی صاحب کے بموجب اس کا فارسی ترجمہ'' فقہ رضوی'' اصل نسخوں کو پیش نظر رکھ کر کیا گیا جو ممتاز علما کے پاس پائے گئے۔
2۔ کتاب محض الاسلام : نماز اور دیگر واجبات سے متعلق احکام پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے متعلق عام رائے یہ ہے کہ یہ فتوؤں کا مجموعہ ہے۔ لیکن جو اد فضل اﷲ کو اس کی سند میں شک ہے۔
3۔ صحیفۃ الرضا: فقہ کے موضوع پر ہے لیکن اسکا انتساب امام کی طرف ثابت نہیں ہوسکا البتہ مستدرک الوسائل میں اس کو قابل اعتماد قرار دیا گیاہے۔ اسی نام سے ایک اور رسالہ حدیث ''سلسلۃ الذھب ''پر مشتمل ہے جس کا اردو ترجمہ حکیم اکرام رضا نے نول کشور پریس لکھنو سے شائع کروایا ہے۔ ( آغا مھدی)
4۔ امام رضا اور طب: امام رضا کے علمی فیوض میں سب سے اہم رسالہ ذھبیہ یعنی (Golden Treatise) طب کے موضوع پر ہے۔ علم طب سے امام کے خصوصی تعلق کی بظاہر ایک وجہ اس کی ابتدائی ترویج و فروغ میں ملت ایران کا امتیازی کردار ہے۔ ظہور اسلام سے قبل ایران کے صوبہ خوزستان کے جندی شاہ پور کے شفاخانہ کا شمار دنیا میں علم طب کی پہلی یونیورسٹی کے طور پر ہوتا ہے۔ ایران کے مسلمان قابل الذکر علما میں محمد بن ذکریا اور بو علی سینا کا نام لیا جاتا ہے۔ دانشور جو اد فاضل (13) نے اپنی تالیف '' طب اسلامی اور جدید میڈیکل سائنس کے انکشافات'' میں طب سے متعلق معصومین(ع) کے ارشادات کو طب
النبی(ص) ، طب الصادق اور طب الرضا کے عنوانات کے تحت جمع کیا ہے طب النبی کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار کے 14 ویں جلد'' السماالعالم'' میں نقل کیا ہے۔ طب الصادق کی تفصیلات کشف الاحضار ، خصال اور بحار میں موجود ہیں۔ طب الرضا کی اساس وہ تفصیلی خط ہے جو امام رضا(ع) نے نیشاپور میں 201ھ میں مأمون کو ارسال کیا تھا۔ اس ضمن میں مأمون اور امام کے علاوہ مشہور اطبا یوحنا ابن ماسویہ، جبرئیل بن یختی یشوع، حکیم بن سلمہ کے درمیان '' انسانی جسم اور حفظان صحت کے اصول'' کے موضوع پر تفصیلی بحث ہوئی تھی اس رسالہ میں وہ تمام معلومات موجود ہیں جن پر آج علم طب کی بنیاد ہے مثلاً فزیا لوجی، پتھالوجی، اناٹومی، جسم انسانی کا ڈھانچہ ، اعصاب اور ان کے وظائف وغیرہ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اسلامی طب کی بنیاد اعتدال ہے جو قران کریم کی آیت ''کلو واشر بوا ولا تسرفوا''
( سورہ اعراف) ''کھاؤ پیو مگر اسراف نہ کرو'' کی عملی تفسیر ہے۔ اس کے کئی تراجم ہیں اور بے شمار شرحیں لکھی گئی ہیں جو عربی اور فارسی میں ہیں
( صادق عارف) لیکن اردو دان طبقہ کے لیے یہ امر باعث فخر و اطمینان ہے کہ علامہ رشید ترابی 14 نے بھی اپنی تالیف '' طب معصومین '' کے ذریعہ اس ضمن میں قابل قدر خدمت انجام دی ہے۔ اس کتاب میں مختلف امراض کے لیے چہاردہ معصومین(ع) کے تجویز کردہ علاج کو یکجا جمع کیا ہے۔ ایک جامع مقدمہ میں علامہ موصوف نے اپنے خاص انداز میں صحت انسان سے متعلق قرآن کی آیات اور ائمہ کے ارشادات اور تجربات کو قلمبند کیا ہے۔ اس کتاب کے انتساب میں ان کی فکر رسا کے اندا ز دیکھیے " اے صبح اول یہ دُررِ ارشادات تیرے ہی گلے کے موتی ہیں مگر زمانے کے ہاتھوں بکھر گئے تھے میں نے ان کو ایک جگہ جمع کیا اور آج تیرے دروازہ پر ان کو تیر ے ہی ہاتھوں بیچنے کے لیے آیا ہوں اس کی قیمت یہ ہے کہ تو مجھے دیکھ کر ایک مرتبہ مسکرا دے۔''
امام رضا کے اصحاب اور شاگرد:
امام رضا(ع) کے اصحاب اور شاگرد کی ایک طویل فہرست ہے۔ بطور نمونہ چند کا حوالہ مقصود ہے۔
1۔ نصر بن قابوس20سال تک امام صادق(ع) کے وکیل رہے، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ امام موسیٰ کاظم(ع) اور
امام رضا(ع) کی امامت کے نصوص کے شاہد ہیں۔ (وصایت)
2- زکریا بن آدم بن عبداﷲ قمی، امام کے مخصوص اصحاب میں سے تھے۔ ان پر اعتماد کا یہ حال تھا کہ امام نے آپ
کو اپنی طرف سے سوالات کے جوابات پر مامور کیا تھا۔
3-محمد بن اسماعیل مرد ثقہ اور خاص اصحاب میں سے تھے۔ ان کے مرتبہ کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ
علامہ بحرالعلوم طباطبائی کی ولادت کی رات ان کے والد جناب سید مرتضیٰ کے خواب میں امام رضا(ع) کی طرف
سے بھیجی ہوئی شمع روشن کی۔
4۔ اس کے علاوہ حسن بن محبوب السراد الکوفی، حسن بن علی بن زیاد کوفی اور صفوان بن یحییٰ و غیرہ ہیں ۔
اس مضموں کا اختتام ایک مشہور مناظرے سے کرتے ہیں ۔
مأمون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتا تھا جس کانام "جاثلیق"تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین سے کہا کرتا تھا کہ ہم نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی صلعم میں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے۔
مأمون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہالسلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھرآتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پر آپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی(ص) کی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔پھر آپ نے ارشادفرمایاکہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی، نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہار رہا کرتے تھے آپ نے فرمایا عیسی توبنابراعتقاد نصاری خود معاذاللہ خدا تھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔ البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاالیسع بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے ۳۵ ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سےاپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ"استخوان مردہ اٹھ کھڑے ہو وہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طور پرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کر فرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔