روضۀ مبارک پر پہلی حاضری | ||
![]() | ||
روضۀ مبارک پر پہلی حاضری
ڈاکٹر علی کاوسینژاد شعبہ اردو، تہران یونیورسٹی
ہزاروں خواہشوں کو اپنے سینے میں لیے ہوئے بالآخر وہ دن آ گیا جو میں کئی برسوں سے اس کا بے چینی سے انتظار کررہا تھا۔میرے لیے یہ ایک ایسی خواہش تھی جو کبھی خواب کی صورت میں نمودار ہوتی تھی لیکن آج دلی کیفیت کچھ اور تھی ، خوشی کی انتہا یوں تھی جو میں اپنے پھولے میں نہ سما سکتا۔سنہ 1386ش کوعید نوروز کی چھٹیوں سے پہلے ، تہران یونیورسٹی کی طرف سے ایک زیارتی سفر کا انعقاد کیا گیا جس میں یونیورسٹی کے خواہش رکھنے والے تمام طالبات اور طالب علم شامل تھے۔اس زیارتی سفر کا تمام انتظام و اہتمام تہران یونیورسٹی نے اپنے ذمے میں لیا تھا ۔تہران سے مشہد تک ہمیں لمبی مسافت بس کے ذریعے طی کرنی پڑتی تھی لیکن دل میں ایسا شور اور ولولہ موجزن تھا کہ مجھے یہ لمبی مسافت لمحوں میں طے ہوئی۔راستے میں جہاں کہیں تھکان دور کرنے کے لیے فرصت ملتی تو کھانے پینے کا خوب انتظام ہوتا تھا بلکہ یہ ایک طرح سیاحتی و زیارتی سفر تھا جس میں رستے میں موجود شہروں اور قصبوں کی بھی دیکھنے کی فرصت ملتی تھی۔ مشہد الرضا میں داخل ہوتے ہی ایک بہت دلکش منظرہ نادر شاہ کا وہ مجسمہ تھا جو گھوڑے پر سوار، اپنے ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے پہلی تصویر جو میرے ذہن میں مترسم ہوئی نادر شاہ کی فتح ہندوستان تھی جو ہم نے تاریخی کتب میں پڑھی تھی اور آخر کار نادر شاہ کا اپنے غدار سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہونا۔ ہماری بس ایک مہمان خانے کے سامنے روکی اور ہمیں یہ معلوم ہوئی کہ چلو ایک ہفتے کے لیے ٹھکانا بہت اچھا مل گیا۔اس مہمان خانے میں چونکہ طالب علموں کے لیے جگہ کم تھی اس لیے آٹھ آٹھ دس دس لوگوں کو ایک کمرے میں ساتھ رہنا پڑتا تھا اور رات کو سونے میں تھوڑی دقت ہوتی تھی لیکن زیارت کے شوق نے یہ تمام مسائل حل کردئے۔دل میں خوشی کی لہر ڈور رہی تھی ، زیارت کرنے کا شوق دل میں مچل رہا تھا۔ہمارا رہائشگاہ روضہ مبارک سے اتنا دور نہیں تھا اور میں اپنے دوستوں کے سا تھ روضہ مبارک کی زیارت کے لیے روانہ ہو گئے۔دور سے سنہری گنبد کی روشنی رات کی تاریکی میں دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور ایک ایسی کیفیت مجھ پر طاری ہوئی جیسے میں آسمان میں بادلوں کے درمیان اچل رہا ہوں۔یہ میری زندگی کا وہ لمحہ تھا جو میں بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا ۔یوں لگتا تھا کہ میری ہر خواہش پوری ہونے کو تھی۔جذبے کی انتہا جب انسان پر غالب آتی ہے تو وہ ایک بے خودی سی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے۔دل کی امنگوں اور آرزوؤں کو ساتھ لیے ہوئے جب روضہ ء مبارک کے قریب پر پہنچنے والا تھا تو بے اختیار میری آنکھیں نمناک ہو گئیں جیسے کوئی بچہ کئی برسوں سے اپنی ماں سے جدا ہو گیا ہو اور اب اسے اپنی گمشدہ ماں مل گئی ہو۔دھیرے دھیرے ، میں حرم مطہر کے صحن مبارک میں داخل ہوا رہا تھا اور وہاں زیارت کرنے والوں کی ایک جمع غفیر موجود تھی جو اپنی تمام دکھ درد لیے ہوئے حضرت آقا امام رضا(ع) کے حرم پاک میں حاضر تھے۔عقیدت والوں کی تعداد اتنی تھی جو ہمیں مشکل سے مزار پاک کی زیارت کرنے کا موقع ملا ۔وہاں پہنچ کر ہم نے امام رضا(ع) سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا اور اپنے تمام دکھ درد اپنے آقا سے بیان کرنے کی فرصت مل گئی۔اب مجھے خوب یاد پڑتا ہے ہم محرم الحرام کے مہینے میں مشہد گئے تھے اور شہر بھر میں دوسرے شہروں سے بھی لوگ موجود تھے جو ماتم کرتے ہوئے حرم مطہر میں وارد ہوتے تھے۔راستے میں نذر و نیاز کے لیے پانی اور شربت کی سبیلیں لگی ہوئی تھیں ۔ماتم کرنے والے حضرت امام حسین(ع) کا پیغام لے کر آئے تھے۔ ان ماتمی دستوں میں آذری بولنے والوں کی تعداد شاید بہ نسبت زیادہ تھی جو دور و دراز راستوں کو طے کرتے ہوئے مشہد میں پہنچ گئے تھے ، یہ آذری لوگ دو زنجیروں سے ماتم کرتے تھے اور ان کا یہ طریقہ مجھے نیا سا لگتا تھا۔سننے میں یہ آ رہی تھی کہ ان آذری لوگوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو کئی مدتوں سے مشہد یا اس کے مضافات میں رہائش پذیر ہیں، خراسان میں فارسی کے علاوہ ترکی اور کردی کرمانجی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں ۔اگر تاریخ کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کرمانجی کرد منگولوں کے حملے سے پہلے سے بھی یہاں رہائش پذیر تھے اور نے خراسان میں کئی صدیوں پہلے آباد تھے۔اب محرم اور زیارت کا موقع بیک وقت مجھے ملا تھا، میرا معمول بن گیا تھا کہ آدھی کو رات حرم مطہر کی طرف روانہ ہوتا کیونکہ رات کو لوگوں کا اتنا رش نہیں تھا ، انسان اپنی تنہائی میں اپنے رب سے خوب لطف اٹھاتا ہے اور اپنے میں گم بیخودی کے عالم میں ڈوب کر چلا جاتا ہے۔قرآن خوانی کی وہ کیفیت جو مجھے حرم مطہر میں مل گئی تھی میرے لیے بے حد خوشگوار تھی جس کی جتنی تعریف کی جائے تو کم ہے۔حضرت امام رضا(ع) کے حرم پاک میں مجھ پر جو کیفیات گذریں شاید کہ میں عمر بھر نہ بھول پاؤں۔ ہمیں مشہد کے گرد و نواح میں یعنی شہر طوس کا دورہ کرایا گیا ۔ہم نے فردوسی طوسی کے مرزا پر حاضری دی ا ور شہر طوس کی خوب سیر کی۔حضرت امام رضا(ع) کی زیارت کی غرض سے آئے ہوئے ہمیں فردوسی کے مزار پر حاضری دینے کا موقع بھی مل گیا اور دل میں یہ خواہش تھی کہ میں نیشاپور میں جا کے فرید الدین عطار نیشاپوری اور عمر خیام کے مزاروں پر حاضری دے دوں لیکن افسوس کہ یہ موقع کبھی مجھے میسر نہیں ہوا۔صوبہ خراسان صدیوں سے شعر و ادب اور دین و سیاست کا گہوارہ رہا ہے اور اس خطہء ارضی میں بہت سے دانشور ، ادیب، شاعر اور عالمان دین پیدا ہوئے ہیں۔خراسان خاص طور پر مشہد مذہب لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا ہے جب یہاں عباسیوں کا دور حکومت رہا حضرت امام رضا(ع) یہاں آکر ماموں عباسی کی سازشوں کے ذریعے امام رضا(ع) کو زہر دیا گیا اور انہیں مشہد الرضا میں سپرد خاک کردیا گیا۔روضہ مبارک پر ہر سال محرم الحرام اور دوسرے اسلامی اعیاد پر حتی کہ عید نوروز پر زیارت کرنے والوں اور عقیدت رکھنے والوں کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ ہوتی ہے اور آج کل رمضان المبارک کے مہینے میں روزہ رکھنے والوں کو افطاری دینے کی روایت چل پڑی ہے جس میں روزانہ بڑی تعدا د میں لوگوں کو افطاری دینے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ مشہور اور نامور ایرانی ریسلر محمد رضا تختی نے بین الاقوامی مقابلوں میں جتنے مڈلز جیت لیے تھے امام رضا(ع) سے گہری عقیدت کی وجہ سے یہ مڈلز اپنے آقا کی نذر کیے، آج کل یہ حرم پاک میں واقع میوزیم میں ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ دوسرے نوادرات اس میوزیم میں موجود ہیں اور آستان قدس رضوی کی لائبریری میں نادر خطی نسخوں اور کتابوں کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ایران کے نئے سال شروع ہونے کے ساتھ ہی یہاں خادمین حرم پاک کے ذریعے نقارہ بجتا ہے اور بہت سے عقیدت مند لوگ اپنا نیا سال امام رضا(ع) کے روضہء مبارک کی قربت میں شروع کرتے ہوئے اپنے پروردگار سے اپنے خاندان اور ایرانی قوم کی سلامت و عافیت کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔سال میں ایک بار مزار شریف کی گلاب ناب سے دھلائی جاتی ہے یہ وہ گلاب ہے جو زیادہ تر قمصر کاشان میں بنایا جاتا ہے ۔زائرین حرم پاک کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارات اور تفریحی مقامات بنانے کا رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے اور مشہد کی رونق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔پریشان کن بات یہ ہے جو لوگ کئی وجوہات سے مالی استطاعت نہیں رکھتے شاید حرم پاک کی آسانی سے زیارت نہ کر سکیں ۔حکومت اور لوگوں کو چاہیے کہ حرم پاک کے آس پاس ایسے فلاحی اداروں کا بندوبست کریں جو نہ صرف غریب زائرین کی معاونت کریں بلکہ دوسرے اہم فلاحی کاموں میں ایرانی قوم کو شریک کریں۔ امام رضا (ع)کی زیارت سے پہلے اس بندہ عاصی کو ان کی پیاری بہن حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی بھی زیارت قم میں نصیب ہوئی تھی۔ جس سال، میں مجھے حضرت امام رضا(ع) کے حرم پاک پر حاضری دینے کی فضیلت نصیب ہوئی ٹھیک وہی سال مجھے پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے پاکستانی حکومت کی طرف سے تعلیمی وظیفہ مل گیا اور یہ میرے لیے ایک ایسی خوشخبری تھی جسے میں اللہ تعالی کی عنایت سمجھتا ہوں۔ پاکستان میں جا کے یہ انکشاف ہوا کہ شیعہ حضرات کے علاوہ سنیوں میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو امام رضا(ع) کے حرم پاک کی زیارت کرنے کے خواہشمند ہیں ۔پاکستان میں ائمہٴ اطہار سے عقیدت مندوں کی کمی نہیں جو ایک بار ایران آئے گا اس کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوتی ہے کہ امام رضا(ع) کے حرم پاک پر حاضری دے۔پاکستان میں ایک ایسی روایت قدیم سے چلی آ رہی ہے کہ صوفیوں اور بزرگان دین کے مزاروں پر لوگ حاضری دیتے وقت چادریں چڑھآتے ہیں اور پھول نچھاور کر دیتے ہیں، یہ ایک ایسی رسم ہے جو پورے برصغیر ہند و پاک میں دیکھنے میں آتی ہے۔داتا گنج بخش ہجویری(رح) کے عرس پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ مزار پر حاضری دیتے ہیں اور غریبوں میں سبیلیں بانٹی جاتی ہیں۔ ضامن آہو حضرت امام رضا(ع) کے مزار پر حاضری دینے کے وہ لمحات ابھی بھی یاد ہیں اور شور و جذبے کی فراونی نے مجھے اس بات پر اکسایا کہ اپنے دل کے جذبات کا اظہار کروں۔انسان کے اندر مذہب اور دینی اقدار کی حفاظت ہر لمحہ موجود ہے اور امام رضا(ع) کے حرم پاک کا مشہد میں ہونا ہم ایرانیوں کے لیے باعث فخر ہے اور ملت مسلمہ کی عظمت و شان ، ان عظیم ہستیوں کی شخصیت اور کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہے ۔آج کل اسلامی ممالک میں جو بد امنی اور دہشت گردی چل رہی ہے میرے خیال میں شائد ہم نے ان نامور ہستیوں کے بتائے ہوئے اصولوں سے منہ موڑ لیا ہے اور درندہ خو یوروپی اور امریکی ممالک اپنی سیاست سے مشرقی اور اسلامی ممالک کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں اور ان کی یہ فریب کاریاں اسلامی ریاستوں کے ہر کونے میں ہمیں نظر آتی ہیں۔اللہ تعالی کے فضل و کرم سے مسلم امہ ہوش میں آئیں اور اپنی عداوتوں کو دور کر کے تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی پروئے جائیں تا کہ ہمیں اپنی آنے والی نسل کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ | ||
Statistics View: 2,059 |
||