رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام امام رضا(ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں | ||
رہبر معظم انقلاب کا تاریخی پیغام امام رضا(ع) کی حیات طیبہ کے بارے میں
ڈاکٹر راشد عباس نقوی
1984 ءمیں منعقد ہونے والی عالمی امام رضا(ع) کانگریس کے لیے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای ۔جو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر تھے ۔ کا تاریخی پیغام ملاحظہ ہو جس میں آپ نے امام رضا(ع) کی سیاسی زندگی کا تجزیہ کیا ہے۔
رہبر معظم کا پیغام عالمی امام رضا(ع) کانگریس کے نام: امام رضا علیہالسلام کی ایام ولادت میں آپ(ع) کے آستان مبارک میں آپ(ع) کی علمی حیات کے بارے میں کانگریس کا انعقاد ائمۂ معصومین علیہمالسلام کے روشن چہروں کو مزید عیاں کرنے اور ان عظیم الشان پیشواؤں کی کارناموں سے بھرپور مگر پرمشقت زندگی کی شناخت کی جانب ایک نیا قدم ہے۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ ائمہ علیہمالسلام کی زندگی کی صحیح طور پر شناخت حاصل نہیں کی جاسکی ہے؛ حتی کہ مصائب اور صعوبتوں کے باوجود ان کے جہاد کی عظمت شیعیان اہل بیت(ع) کے لیے بھی روشن نہیں ہوسکی ہے۔ ائمۂ طاہرین کی زندگی کے جس اہم ترین پہلو کی طرف شائستہ انداز میں توجہ نہیں ہوئی ہے وہ ان کے "شدید سیاسی جدوجہد" کا عنصر ہے۔ پہلی صدی ہجری کی ابتدا ہی میں اسلامی خلافت سلطنت کی پیرایوں میں ڈھل گئی اور اسلامی امامت جابرانہ بادشاہت میں تبدیل ہوئی۔ ائمۂ طاہرین علیہمالسلام نے سیاسی حالات کے تناسب سے ہی اپنی سیاسی جدوجہد کو شدت بخشی۔ اس جدوجہد کا اہم ترین اور بنیادی مقصد اسلامی نظام اور امامت کے اصول پر مبنی حکومت کی تأسیس تھا۔ تاریخ، ہارون عباسی کے دور میں امام رضا علیہالسلام کی دس سالہ زندگی اور اس کے بعد خراسان [میں مأمون] اور بغداد [میں امین] کے درمیان ہونے والی پانچ سالہ لڑائیوں کے بارے میں ہمیں کوئی خاص بات نہیں بتا سکی ہے؛ لیکن تدبر و تفکر کے ذریعے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ امام رضا علیہالسلام اس پندرہ سالہ عرصے میں اہل بیت(ع) کی اسی طویل المدت جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے تھے جو عاشورا کے بعد شروع ہوئی تھی اور ان ہی اہداف کے حصول کے لیے کوشاں تھے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اختصار کے ساتھ امام رضا علیہالسلام کی ولیعہدی کے واقعے پر روشنی ڈالی جائے: اس واقعے میں امام ہشتم علی بن موسی الرضا علیہالسلام ایک عظیم تاریخی تجربے سے گذرے اور آپ کو ایک خفیہ سیاسی جنگ کا سامنا کرنا پڑا جس میں کامیابی یا ناکامی تشیع کی مقدر کی ترسیم میں مؤثر ہوسکتی تھی۔ مأمون امام ہشتم(ع) کو خراسان بلوا کر کئی اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا: مأمون کا دوسرا ہدف اہل تشیع کے اس اعتقاد کو غلط ظاہر کرنا تھا کہ اموی اور عباسی خلافتیں شرعی اور قانونی حیثیت نہیں رکھتیں اور اس طرح وہ ان دو خلافتوں کو قانونی حیثیت دینا چاہتا تھا۔ تیسرا ہدف امام(ع) کو اپنے اداروں کے قابو میں لانا چاہتا تھا کیوں کہ امام(ع) ہر قسم کی جدوجہد اور حکومت کی مخالفت کا محور سمجھے جاتے تھے۔ اور اگر امام(ع) ان کے قابو میں آتے تو سرکردہ علوی رہنما، انقلابی افراد اور جنگجو مجاہدین بھی حکومت کے قابو میں آسکتے تھے۔ چوتھا ہدف یہ تھا کہ امام علیہالسلام جو ایک عوامی شخصیت، لوگوں کا قبلۂ امید اور سوالات و شکایات کا مرجع تھے کو حکومتی گماشتوں کی نگرانی میں لایا جائے اور رفتہ رفتہ ان کا عوامی چہرہ مخدوش کیا جائے اور ابتداء میں امام(ع) اور عوام اور دوسرے مرحلے میں امام(ع) اور عوام کی عقیدت و محبت کے درمیان فاصلے کی دیواریں کھڑی کی جائیں۔ پانچواں ہدف یہ تھا کہ مأمون امام(ع) کو ولیعہد بنا کر اپنے لیے معنوی اور روحانی لبادہ تیار کرنا چاہتا تھا۔ فطری امر تھا کہ اس وقت کی دنیا میں لوگ اس کی تعریف و تمجید کرتے جس نے پیغمبر خدا(ص) کے ایک فرزند اور ایک مقدس اور معنوی شخصیت کو اپنا ولیعہد مقرر کیا تھا اور اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو اس منصب سے محروم رکھا تھا اور ہمیشہ صورت حال یہی ہے کہ جب دیندار لوگ دنیا پرستوں کی قربت حاصل کریں تو دینداروں کی حیثیت مجروح ہوجاتی ہے اور دنیا پرستوں کی حیثیت بہتر ہوجاتی ہے۔ اس سیاسی چال کے مد مقابل امام علیہالسلام کی تدبیریں اور پالیسیاں: امام(ع) نے مأمون کے حوالے سے اپنی منفی نگاہ اہل مدینہ کو پہنچا دی تھی۔ رسول خدا(ص) کے حرم سے وداع کرتے وقت، اہل خاندان سے وداع کرتے وقت، مدینہ سے نکلتے وقت، طواف کعبہ کے وقت جو آپ(ع) نے بعنوان طواف وداع انجام دیا قول و فعل کے ذریعے، دعا اور اشک و آہ کے زبانی، آپ(ع) نے سب پر ثابت کیا کہ یہ سفر موت کا سفر ہے [اور اس سفر سے زندہ لوٹ کر آنے کی کوئی امید نہیں ہے]۔ مأمون اپنی سازش کے تحت جن لوگوں کو امام علیہالسلام کی نسبت بدظن اور اپنی نسبت پراعتماد کرنا چاہتا تھا ان کے دل ۔ سازش پر عملدرآمد کرنے کے ابتدائی لمحوں سے ہی ۔ مأمون کی نفرت اور اس کی نسبت بداعتمادی سے مالامال ہوگئے جو ان کے امام کو ظالمانہ انداز سے ان سے جدا کرکے قتلگاہ کی طرف لی جانا چاہتا تھا۔ حقیقت کچھ یوں تھی کہ سرکاری اہلکاروں کو مأمون کی چالوں کا علم نہیں تھا چنانچہ انہوں نے امام(ع) کے انکار کی خبر علاقے میں پھیلادی حتی مأمون کے وزیر فضل بن سہل نے سرکاری اہلکاروں کے ایک گروہ سے کہا کہ "میں نے آج تک خلافت کا عہدہ اتنا خوار و بے مقدار نہیں دیکھا تھا کہ امیرالمؤمنین (مأمون) علی بن موسی الرضا کو اس عہدے کی پیشکش کررہے ہیں اور علی بن موسی اس پیشکش کو مسترد کررہے ہیں! 3- تاہم علیبنموسیالرضا علیہالسلام نے ولایتعہدی کی پیشکش قبول کرلی اور شرط یہ رکھی کہ حکومت کے کسی بھی مسئلے میں مداخلت نہیں کریں گے؛ جنگ و صلح اور تقرری اور معزولی جیسے مسائل میں کوئی حکم نہیں دیں گے اور کوئی فیصلہ نہیں کریں گے اور مأمون ـ جو تصور کرتا تھا کہ یہ شرط ابتدائی مرحلے میں قابل برداشت ہے اور وہ رفتہ رفتہ امام(ع) کو سلطنت کے امور میں داخل کردے گا ـ یہ شرط قبول کرنے پر آمادہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شرط باقی رہتی تو مأمون کا منصوبہ خاک میں مل جاتا اور اس کے بیشتر اہداف و مقاصد حاصل نہ ہوتے۔ امام(ع) نے ولایتعہدی کا منصب قبول کرکے ایک ایسا اقدام کیا جو سنہ 40 ہجری میں اہل بیت(ع) کی خلافت کے خاتمے کے بعد ائمۂ طاہرین(ع) کی حیات طیبہ تک اور حتی سلسلۂ خلافت کے خاتمے تک بے مثال اور بے بدیل تھا اور وہ اقدام یہ تھا کہ آپ(ع) نے اسلامی قلمرو کی وسعتوں میں شیعہ امامت کا مدعا آشکار کردیا اور تقیہ کے دبیز پردوں کو چاک کرکے تشیع کا پیغام تمام مسلمانوں تک پہنچایا۔ خلافت کا بلند منبر آپ(ع) کے ہاتھ آگیا تھا اور امام(ع) نے اس منبر سے استفادہ کرکے ان حقائق کو آشکار کردیا جو ائمۂ طاہرین 150 برسوں تک تقیہ کے پس پردہ خاص افراد اور اصحاب و انصار کے سوا کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکے تھے۔ آپ نے یہ صدا بآواز بلند اٹھائی اور اس دور کے موجود وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کی سماعت کو صدائے حق سے روشناس کردیا۔ 6- نہ صرف تشیع کے انقلابی افراد کو سازباز کرنے یا خاموش رہنے کی ترغیب نہیں دی گئی بلکہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام(ع) کی نئی حالت ان کی حوصلہ افزائی کا باعث ہوئی اور دشوار گذار پہاڑوں اور دور افتادہ علاقوں تک محدود ہونے والے انقلابی جو نہایت مشقت بھری زندگی گذارنے پر مجبور تھے، امام علیہالسلام کی پشت پناہی کی وجہ سے قابل احترام ٹہرے اور حکومت کے کارگزاروں نے بھی مختلف شہروں میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا۔ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ اور دیگر اہم اسلامی بلاد میں امام علی بن موسی الرضا(ع) پر نہ صرف حرص دنیا اور شوق اقتدار و منصب کا الزام نہیں لگا تھا اور آپ(ع) کا نام بے رونق نہیں ہوا تھا بلکہ آپ(ع) کی معنوی عزت پر ظاہری حشمت کا بھی اضافہ ہوا تھا اور مداحوں کی زبان دسیوں برس خاموشی کے بعد آپ(ع) اور آپ (ع) کے مظلوم و معصوم آباء و اجداد کی مدح سرائی میں برملا بولنے لگے تھے۔ مختصر یہ کہ مأمون اس عظیم کھیل میں نہ صرف کوئی منفعت حاصل نہیں کرسکا ہے بلکہ بہت سے چیزیں کھو گیا ہے اور قریب ہے کہ وہ باقی چیزیں بھی رفتہ رفتہ کھو دے۔ یہیں سے مأمون نے شدت سے شکست اور نقصان محسوس کیا اور اس نے اپنی اس عظیم غلطی کی تلافی کے لیے نئے اقدام کا ارادہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ اتنی بڑی سرمایہ کرنے کے باوجود اسے کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کی سلطنت مزید خطرات میں گھر گئی ہے؛ چنانچہ اس نے اپنے صلح ناپذیر دشمنوں ـ یعنی ائمۂ اہل بیت علیہمالسلام ۔ کے خلاف اسی حربے سے استفادہ کیا جو اس کے ظالم و فاجر اسلاف نے استعمال کیا تھا یعنی قتل کا حربہ۔ بدیہی امر ہے کہ نہایت ممتاز مقام و منزلت اور معنوی اور ظاہری مناصب کے ہوتے ہوئے امام علیہالسلام کا قتل زیادہ آسان نہ تھا۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ مأمون نے امام(ع) کو شہید کرنے سے قبل کئی دیگر اقدامات انجام دیے ہیں اس لیے کہ شاید اس کا یہ آخری اقدام آسان ہوجائے۔ مثال کے طور پر اس نے امام علیہالسلام کو شہید کرنے سے قبل بعض جھوٹی باتیں امام علیہالسلام سے منسوب کرکے لوگوں میں پھیلادیں، اور اس سلسلسلے میں اس نے زبردست پروپیگنڈا مہم چلائی۔ مرو شہر میں ایک دفعہ یہ افواہ اڑائی گئی کہ امام علیہالسلام لوگوں کو اپنا عبد و غلام سمجھتے ہیں! اور امر مسلم ہے کہ یہ افواہ اڑانا صرف حکومتی کارندوں کا کام ہوسکتا تھا اور ان کے سوا کوئی اور ایسا اقدام نہیں کرسکتا تھا۔ آخر کار مأمون کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا کہ امام علیہالسلام کو بلاواسطہ طور پر اپنے ہاتھوں سے مسموم کردے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور سنہ 203 ہجری کے ماہ صفر میں مدینہ سے بلوانے کے تقریبا دو سال بعد اور آپ (ع) کو ولایتعہدی کا منصب سونپنے سے تقریبا ایک سال بعد اس عظیم اور تاریخی جرم کا ارتکاب کیا اور اپنے ہاتھ امام علیہالسلام کے خون سے رنگ دیے۔ | ||
Statistics View: 2,093 |
||