امامت کے آٹھویں تاجدار اور روشن ستارہ | ||
امامت کے آٹھویں تاجدار اور روشن ستارہ ڈاکٹر محمد کیومرثی شعبہ اردو، تہران یونیورسٹی حیات اور تربیت امامت کے آٹھویں تاجدار اور خاندان رسالت کے دسویں معصوم حضرت امام علی رضا علیہالسلام کی ولادت با سعادت گیارہ ذی القعد 148 ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہالسلام نے لوح محفوظ کے مطابق آپ کو"اسم علی"سے موسوم فرمایا۔ آپ بارہ اماموں میں سے تیسرے "علی"ہیں۔ آپ کی کنیت ابوالحسن تھی اور آپ کے القاب صابر، زکی، ولی، رضی، وصی تھے اورمشہورترین لقب رضا تھا۔ علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کو رضا اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوعالم، رسول اکرم(ص) اورائمہ طاہرین علیهم السلام، نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے۔ آپ کی نشوونما اور تربیت اپنے والد بزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہالسلام کے زیرسایہ ہوئی اوراسی مقدس ماحول میں بچپن اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئیں اور 30 برس کی عمرپوری ہوئی اگرچہ آخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسی کاظم علیہالسلام ہارون رشید (لعن اللہ علیہ) کو قید کر دیا تھا مگراس سے پہلے 24 یا 25 برس آپ کوبرابراپنے پدر بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ آپ کے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہالسلام کو معلوم تھا کہ حکومت وقت جس کی باگ ڈوراس وقت ہارون رشیدعباسی کے ہاتھوں میں تھی آپ کوآزادی کی سانس نہ لینے دے گا اورایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آپ کی عمر کے آخری حصّے میں اوردنیا کوچھوڑنے کے موقع پرمحبانِ اہلبیت علیهم السلام کا آپ سے ملنا یابعد کے لیے راہنما کا دریافت کرناغیرممکن ہوجائے گا اس لیے آپ نے انہیں آزادی کے دنوں اورسکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے محبانِ اہلبیت علیهم السلام کو اپنے بعد ہونے والے امام سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس فرمائی چنانچہ اولادعلی وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جوممتاز حیثیت رکھتے تھے انہیں جمع فرما کر اپنے فرزند حضرت علی رضاعلیہالسلام کی وصایت اورجانشینی کا اعلان فرما دیا اورایک وصیت نامہ تحریراً بھی مکمل فرمایا جس پرمدینہ کے معززین میں سے ساٹھ آدمیوں کی گواہی لکھی گئی یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظرنہیں آیا صرف ان خصوصی حالات کی بناء پرجن سے دوسرے ائمہ اپنی وفات کے موقعہ پردوچارنہیں ہونے والے تھے۔ 183ھ میں حضرت امام موسی کاظم علیہالسلام نے قیدخانہ ہارون رشید میں اپنی عمرکاایک بہت بڑاحصہ گزار کر درجہ شہادت حاصل فرمایا، آپ کی وفات کے وقت امام رضاعلیہالسلام کی عمر تیس سال کی تھی والد بزرگوار کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داریاں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں یہ وہ وقت تھا جب کہ بغداد میں ہارون رشید تخت خلافت پر متمکن تھا اوربنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ہی ناسازگارتھے۔ حضرت امام موسی کاظم علیہالسلام کے بعد دس برس تک ہارون رشید کا دور رہا یقیناً وہ امام رضاعلیہالسلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد ماجد کا رہنا اس نے گوارانہیں کیا مگر یا توامام موسی کاظم علیہالسلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدداور ظلم ہوتارہا اورجس کے نتیجہ میں قیدخانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہو گئے اس سے حکومت وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو بدسلوکیوں کااحساس اورضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہالسلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی تھی لیکن وقت سے پہلے اس نے امام رضاعلیہالسلام کو ستانے میں کوئی لمحہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا حضرت کے عہدہ امامت کوسنبھالتے ہی ہارون رشید نے آپ کا گھر لٹوا دیا، اور عورتوں کے زیوارت تک اتروا لیے تھے۔ آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کا لکھنا اس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں آپ کثرت سے خیرات کیا کرتے تھے اور اکثر رات کے تاریک پردہ میں استحباب کو ادا فرمایا کرتے تھے موسم گرما میں آپ کا فرش جس پر آپ بیٹھ کرفتوی دیتے یا مسائل بیان کیا کرتے بوریا ہوتا تھا اور سرما میں کمبل آپ کا یہی طرزاس وقت بھی رہا جب آپ ولی عہد حکومت تھے آپ کا لباس گھرمیں موٹا ہوتا تھا اوررفع طعن کے لیے باہر آپ اچھا لباس پہنتے تھے ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہاکہ حضوراتنا عمدہ لباس کیوں استعمال فرماتے ہیں آپ نے اندر کا پیراہن دکھلا کر فرمایا اچھا لباس دنیا والوں کے لیے اورکمبل کا پیراہن خدا کے لیے ہے۔ آپ کے خادم یاسر کا بیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھا رہے تھے اور کھانے میں ایسا کرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھآتے اور کچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کو آپ نے دیکھ لیا اور فرمایا نعمت خدا کوضائع نہ کرو ٹھیک سے کھاؤ اورجو بچ جائے اسے کسی محتاج کودے دو، آپ فرمایا کرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرنا چاہیے کیونکہ چکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جو کچھ دیا جائے گا پانے والا اس کو انعام سمجھے گا۔ آل محمد(ص) کے تمام افراد بلندترین علم کے درجے پرقراردئیے جاتے تھے جسے دوست اوردشمن کو ماننا پڑتا تھا یہ اوربات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقع دیا اور کسی کو زیادہ، چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفرصادق علیہالسلام کے بعد اگر کسی کو سب سے زیادہ موقع حاصل ہوا ہے تو وہ حضرت امام رضاعلیہالسلام ہیں، جب آپ امامت کے منصب پرنہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسی کاظم علیہالسلام اپنے تمام فرزندوں اورخاندان کے لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے کہ تمہارے بھائی علی رضا عالم آل محمد علیهم السلام ہیں، اپنے دین مسائل کوان سے دریافت کر لیا کرو، اورجو کچھ اسے کہیں یاد رکھو، اور پھر حضرت امام موسی کاظم علیہالسلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اورروضہ رسول پرتشریف فرمارہے تھے توعلمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمدبن عیسی یقطینی کابیان ہے کہ میں نے ان تحریری مسائل کو جوحضرت امام رضاعلیہالسلام سے پوچھے گئے تھے اور آپ نے ان کا جواب تحریر فرمایا تھا، اکھٹا کیا تواٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔ واقعہ شہادت کے متعلق مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہالسلام نے فرمایاتھا کہ "فمایقتلنی واللہ غیرہ"خداکی قسم مجھے مأمون کے سواء کوئی اورقتل نہیں کرے گا اورمیں صبرکرنے پرمجبورہوں ۔علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ہرثمہ بن اعین سے آپ نے اپنی وفات کی تفصیل بتلائی تھی اوریہ بھی بتایاتھا کہ انگوراورانارمیں مجھے زہردیاجائے گا۔ علامہ معاصرلکھتے ہیں کہ ایک روزمأمون نے حضرت امام رضاعلیہالسلام کواپنے گلے سے لگایااورپاس بٹھاکران کی خدمت میں بہترین انگوروں کاایک طبق رکھا اوراس میں سے ایک خوشااٹھاکر آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہاابن رسول اللہ یہ انگورنہایت ہی عمدہ ہیں تناول فرمائیے آپ نے یہ کہتے ہوئے انکارفرمایاکہ جنت کے انگوراس سے بہترہیں اس نے شدید اصرارکیااور آپ نے اس میں سے تین دانے کھالیے یہ انگورکے دانے زہرآلودتھے انگورکھانے کے بعد آپ اٹھ کھڑے ہوئے ، مأمون نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا جہاں تونے بھیجاہے وہاں جارہاہوں قیام گاہ پرپہنچنے کے بعد آپ تین دن تک تڑپتے رہے بالآخراپنے اجداد کی طرح درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔ آپ کی شہادت کے بعدحضرت امام محمدتقی علیہالسلام باعجازتشریف لائے اورنمازجنازہ پڑھائی اور آپ واپس چلے گئے بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ آپ سے ملے مگرنہ مل سکا اس کے بعد آپ کوبمقام طوس محلہ سنابآدمیں دفن کردیاگیا جوآج کل مشہدمقدس کے نام سے مشہورہے اور اطراف عالم کے عقیدت مندوں کے حوائج کامرکزہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہےکہ عنقریب میرا ایک ٹکڑا خراسان میں دفن کیا جائے گا کوئی غم زدہ اس کی زیارت نہیں کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دور فرما دے گا اور نہ کوئی گناہ گار زیارت کرے گا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دے گا۔
| ||
Statistics View: 2,110 |
||