عالمی اقتصادی پابندیوں اور ایران کی اقتصادی ترقی | ||
عالمی اقتصادی پابندیوں اور ایران کی اقتصادی ترقی موسی رضا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ایران کو عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث کسی بڑی مشکل کا سامنا ہے، ایران پر یہ پابندی پہلی مرتبہ نہیں بلکہ ایران عراق جنگ کے دوران بھی لگ چکی ہے اور ایران نے ان پابندیوں سے نمٹنے کا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ ایران عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود دنیا بھر کے ممالک سے درآمدات و برآمدات کرنے کا تجربہ رکھتا ہے- امریکا گذشتہ تین عشروں سے زائد عرصے سے دہشتگردی کی حمایت اور جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کا الزام لگاکر ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے یہاں تک کہ اس نے بیرون ملک امریکی بینکوں میں ایرانی اثاثے بھی منجمد کردیئے ہیں اور یہ اقدامات غیر قانونی ہونے کے باوجود وہ اپنی یہ دشمنانہ پالیسی، جاری رکھنے پر تاکید کررہا ہے۔ 2012ء میں امریکہ اور یوروپی یونین نے ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے سلسلے میں اس پر توانائی کے شعبوں اور مرکزی بنک پر نئی غیر قانونی پابندیاں عائد کی تھیں جس کی بین الاقوامی برادری نے کافی نکتہ چینی کی۔ ایران کے صنعتی اور توانائی شعبوں پر امریکی پابندیوں کا الٹا اثر ہوا ہے۔ جس کا ثبوت ایران کی تیزی سے بڑھ رہی برآمدات ہیں۔ اور اب امریکی کانگریس اس سلسلے میں اوباما انتظامیہ سے جواب طلب کررہی ہیں۔ امریکہ کو تشویش ہے کہ سخت پابندیوں کے اثرات عالمی معیشت پر بری طرح مرتب ہوں گے خصوصاً توانائی کی مارکیٹ پر۔ خیال رہے کہ سلامتی کونسل کے 2 مستقل ارکان چین اور روس پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ ایران پر نئی پابندیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔ روس نے ایران کے اقتصادی اور توانائی کے شعبوں پر نئی امریکی پابندیوں کو’’ناقابل قبول‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے تہران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کی تجدید کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔ روس طویل عرصے سے ایران کے خلاف ایسی پابندیوں کی مخالفت کرتا آیا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں سے ہٹ کر ہوں اور امریکہ کی طرف سے تازہ پابندیوں پر سخت ردعمل ماسکو کے اس دیرینہ موقف کا اعادہ ہے۔ مزید برآں واشنگٹن نے 11 ایسی کمپنیوں کو بھی بلیک لسٹ کر دیا ہے جن پہ ایران کے جوہری پروگرام میں معاونت کرنے کا شبہ ہے اور ان کمپنیوں تک بھی نئی پابندیوں کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے جو ایرانی تیل و پیٹروکیمیکل کی صنعت میں معاونت کر رہی ہیں۔ ایران بھارت سے بھاری مقدار میں دو طرفہ تجارت کر رہا ہے اوربھارت کو آئل سپلائی کرتا ہے اور بھارت سے اپنی ضرورت کے مطابق اشیا درآمد کر لیتا ہے پاکستان کے ساتھ ایک کرنسی میں تجارت اگر ہو دوطرفہ تجارت بڑھ سکتی ہے۔ ایران کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے اور پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں لیکن ایران ماضی کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ہرطرح کی پابندیوں سے نمٹ سکتا ہے۔ ایران پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے کے لیے تمام انتظامات مکمل کر چکا ہے، پاکستان اور ایران میں تجارتی رکاوٹ کی بنیادی وجہ کرنسی ہے، اگر مشترکہ کرنسی سے کام لیا جائے تو دوطرفہ تجارت میں بے پناہ اضافے کے امکانات ہیں۔ ایران سنگل کرنسی کے لیے تمام کام مکمل کر چکا ہے اور اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے سگنل کا انتظار ہے۔ ایرانی تاجر گیس پائپ لائن اور توانائی کے منصوبوں کے علاوہ ٹیکسٹائل، فوڈ پروسیسنگ اور دیگر شعبے میں بھی مشترکہ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ۔امریکا کو پاک ایران گیس پائپ لائن کو غیرمنطقی تحفظات ہیں ۔ پاکستان اور ایران کی موجودہ درآمدات و برآمدات نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر اس پر مثبت کوشش کی جائے تو تجارتی حجم 5 ارب ڈالر سے بڑھ سکتا ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور منصوبے میں گیس کی ترسیل کے لیے تقریباً 28 سو کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی جائے گی۔ پائپ لائن ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کوسٹل ہائی وے کے ساتھ کیرتھر رینج سے ہوتی ہوئی نواب شاہ تک جائے گی جس کے ذریعے گیس کی رسد 2016ء سے شروع ہو گی۔ ایران سے آنے والی پائپ لائن سے جو گیس پاکستان کو ملے گی اس سے پاکستان کی ایک تہائی انرجی ضروریات پوری ہوسکیں گی۔ امریکی حکام کو ڈر ہے کہ نئی پابندیاں ایران کی نظر میں جنگ کا اعلان ہوں گی جس سے وہاں شدت پسند عناصر کا اثر رسوخ بڑھے گا اور امریکی و مغربی اہداف پر حملوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔امریکہ کو یہ بھی خوف ہے کہ ایران پابندیوں کو بے اثر کرنے کے لئے آبنائے ہرمز سے خام تیل کے ٹینکرز کی آمدورفت روک دے گا اس وقت دنیا کا 40 فیصد تیل اسی تنگ سمندری راستے سے ہوکر گزرتا ہے- بعض ملکوں کو ایران کے خلاف پابندی سے مستثنی رکھنے کا اعلان کیا اور کہا ہے کہ چین، ہندوستان، ملائیشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور، جنوبی افریقہ، سری لنکا، ترکی اور تائیوان، ایران سے تیل کی درآمدات میں کمی رکھنے کی بناء پر تہران کے خلاف واشنگٹن کی پابندیوں سے مزید چھے ماہ تک مستثنی رہیں گے۔ البتہ جن ممالک نے ایران کا بائیکاٹ کیا ہے وہ خود مختلف قسم کے اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں جبکہ یورپی ملکوں اور امریکا کے اتحادی ملکوں کی اقتصادی ترقی کی شرح اس حد تک گھٹ چکی ہے کہ ان ملکوں کے عوام، بے روزگاری، اقصادی جمود اور بڑھتی ہوئی افراط زر سے تنگ آچکے ہیں۔ ایران کا بائیکاٹ، تہران کے خلاف واشنگٹن کا صرف ایک دشمنانہ اقدام ہے۔ اس نے ایران کے صدارتی انتخابات کے موقع پر تہران کے خلاف بہت سے اقدامات کو عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ایرانی عوام کو نظام اسلامی سے دور کیا جاسکے تاہم ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے چونتیس برسوں کے تجربے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایرانی قوم کے دشمن، تہران کے خلاف نہ صرف پابندیوں بلکہ ایران کے اسلامی نظام کے خلاف ابتک اپنی کسی بھی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ امریکہ کے ایماء اور حوصلہ افزائی کے تحت ہی ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جن کا سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن ایران نے امریکہ اور اسرائیل ، دونوں ہی کو یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ ان کے سامنے کبھی سرنگوں نہیں ہو گا ۔ ایران نے ان اقتصادی پابندیوں کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے متبادل راستے اختیار کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دوست اور خاص طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے ۔ اس سلسلہ میں تہران نے پاکستان ، چین ، بھارت ، افغانستان ، شام ، لبنان، مصر اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ نہ صرف سفارتی سطح پر بلکہ دو طرفہ امور کے باب میں بھی نہایت حوصلہ افزائ پیش رفت کی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ تو ایران کے دیرینہ اور دوستانہ تعلقات ہیں چنانچہ ’’پاک ایران گیس پائپ لائن‘‘ کے منصوبے پر تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے ۔ حال ہی میں وزیراعظم نواز شریف کے دورہ چین کے دوران چینی قیادت کی طرف سے دو ٹوک الفاظ میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ مذکورہ پائپ لائن کو توسیع دے کر چین تک لایا جائے اور اس سلسلہ میں چین ہر ممکن امداد اور تعاون فراہم کرے گا ۔ | ||
Statistics View: 2,509 |
||