صیہونی حکومت کا تاریک مستقبل | ||
صیہونی حکومت کا تاریک مستقبل سید محمد علی بلغاریہ کے وزیر داخلہ ٹسوٹان ٹسوٹانوف نے پانچ فروری کو ملک کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں جولائی سنہ دو ہزار بارہ میں برگاس شہر میں ہونے والے بم دھماکے کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلغاریہ کے شہر برگاس میں اسرائیلی سیاحوں کی بس پر کیے جانے والے بم دھماکے میں حزب اللہ لبنان کے افراد ملوث تھے۔ صیہونی حکومت نے برگاس شہر میں ہونے والے بم دھماکے کے فورا بعد بغیر کسی تحقیق کے ایران اور حزب اللہ لبنان پر اس حملے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیاتھا۔ اور اب بلغاریہ نے اس واقعے کی چھ ماہ تک جو تحقیقات انجام دی ہیں ان میں ابھی تک بہت سے ابہامات پائے جاتے ہیں۔ ان تمام ابہامات کے باوجود بلغاریہ کے وزیر داخلہ نے حزب اللہ لبنان کو اس بم دھماکے میں ملوث قرار دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تحقیقات حزب اللہ کے بارے میں یورپ کے موقف میں تبدیلی لانے کا ایک حربہ ہے۔ برگاس رپورٹ جاری ہونے کے فورا بعد صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے یورپ سے مطالبہ کیا ہےکہ وہ حزب اللہ لبنان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ اور اس تنظیم کو دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے برگاس بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام میں حزب اللہ لبنان کی مذمت کی ہے۔ امریکہ کے انسداد دہشتگردی کے ادارے کے سربراہ جان برنان نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں یورپ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حزب اللہ لبنان کے ساتھ اپنے مالی تعلقات ختم کردے۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ جس طرح صیہونی حکومت کو جنگ کے میدان میں حزب اللہ لبنان سے ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح اسے حزب اللہ مخالف اپنے پروپیگنڈے میں رسوائی سے ہی دوچار ہونا پڑے گا اور یہ حکومت نہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا اپنا مقصد حاصل کر سکے گی اور نہ ہی اپنے آپ کو زوال سے بچا سکے گی کیونکہ مشرق وسطی کی صورتحال اب بہت بدل چکی ہے اور مشرق وسطی کی جدید صورتحال صیہونی حکام کےلیے ایک ڈروانا خواب بن چکی ہے۔ سامراجیوں نے اسرائیل کی ناجائز حکومت کی تشکیل کی اور اس کے بعد بھی اس کی ہمہ گیر حمایت کی اور آج تک کررہی ہیں تاکہ یہ ناجائز حکومت اپنا وجود برقرار رکھ سکے اور اس کی بقاء کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو لیکن یورپ اور امریکہ کی تمام تر امداد و حمایت کے باوجود اسرائیلی حکام کو اس حکومت کا وجود خطرے میں نظر آتا ہے اور حقیقت بھی یہ ہے کہ یہ ناجائز حکومت زیادہ دیر تک قائم رہنے والی نہیں ہے اور ایک نہ ایک دن اس حکومت کا ناپاک وجود ختم ہو کر رہ جائے گا۔ صیہونی حکام امریکہ اور بعض یورپی ممالک سے بے تحاشا امداد حاصل کر کے بزعم خویش حکومت کو اس قدر طاقتور کر دینا چاہتے تھے کہ دنیا یہ باور کر لے کہ یہ ایک ناقابل شکست حکومت ہے اور جو ملک بھی اس حکومت کے ساتھ ٹکرائے گا وہ نہ صرف اس حکومت کو شکست نہیں دے سکے گا بلکہ خود پاش پاش ہوجائے گا اور اسی زعم باطل میں مبتلاء ہو کر اس حکومت نے حزب اللہ لبنان اور غزہ پٹی پر تینتیس ، بائیس اور پھر آٹھ روزہ جنگیں مسلط کیں۔ لیکن تینوں بار حزب اللہ لبنان اور حماس جیسی تنظیموں نے اس حکومت کے ناقابل شکست ہونے کا طلسم توڑ دیا اور خاص کر آٹھ روزہ جنگ میں تو اس حکومت کو حماس کی شرائط پر صلح کرنا پڑی اور یہ ایک ایسی بات تھی جس کا اس سے پہلے تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ان جنگوں کے نتیجے میں یہ تصور تو بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے کہ صیہونی حکومت ایک ناقابل شکست حکومت ہے بلکہ اب دنیا والے اور خود صیہونی بھی اس بات کو باور کرنے لگے ہیں کہ اس حکومت کی نابودی اور زوال زیادہ دور نہیں ہے۔ اسی تشویش کے پیش نظر صیہونی حکام اس حکومت کی بقاء کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف پروپیگنڈہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ دراصل حزب اللہ لبنان صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابل نہایت بااثر رکاوٹ ہے اور اسے صیہونی حکومت کی سازشوں کو ناکام بنانے والی قوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر حزب اللہ کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور لبنانی حکام بھی اس کا لوہا ماننے لگے ہیں۔ حزب اللہ لبنان نے گذشتہ چند برسوں میں صیہونی حکومت کو پے در پے شکست دے کر طاقت کے اس توازن کو ختم کردیا جو صیہونی حکومت اور اسکے حامیوں کی جانب سے علاقے پر مسلط کیا گیا تھا۔ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے علاقے پر رعب و وحشت کی فضا قائم کرکے اور صیہونی حکومت کے تسخیر ناپذیر ہونے کا پروپگینڈا کرکے اس کے خلاف ہرطرح کی مزاحمت کو ختم کرنے کی سازش تیار کی تھی لیکن حزب اللہ کے ہاتھوں صیہونی حکومت کی پے درپےشکستوں سے قدس کی غاصب حکومت اور امریکہ کی تمام سازشیں ناکام ہوگئیں۔ سن دوہزار میں جنوبی لبنان سے صیہونی حکومت کی شرمناک شکست سے اس غاصب حکومت کی ناکامیوں کا آغاز ہوا تھا جو آج تک جاری ہے۔ دوہزار چھے میں صیہونی حکومت کو حزب اللہ نے تینتیس روز جنگ میں ایسی کراری شکست سے دوچار کیا کہ آج بھی وہ اس شکست کے زخم چاٹ رہی ہے۔ صیہونی حکومت کو بار بار شکست سے دوچار کرنے کے بنا پر ہی حزب اللہ اس غاصب حکومت کے خلاف جدوجہد کا رول ماڈل بن گئی ہے۔ اس سے فلسطین کی مزاحمت کو بھی حوصلہ حاصل ہوا ہے اور اس نے بھی اب حزب اللہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صیہونی حکومت کے دانٹ کھٹے کرنے شروع کردئیےہیں۔ دوہزار پانچ میں صیہونی حکومت کا غزہ سے پسپائی اختیار کرنا اور دوہزارآٹھ میں بائیس دنوں کی جارحیت میں اپنے اھداف تک نہ پہنچنا نیز آٹھ روزہ جارحیت میں بھی اسے مکمل شکست ہونا فلسطینی عوام کے ہاتھوں صیہونی حکومت کی شرمناک ہزیمتوں کے نمونے ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوچکا ہےکہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کا مقابلہ کرنے کی واحد راہ مزاحمت و استقامت ہے جبکہ سازباز سے صرف صیہونی حکومت کی توسیع پسندی میں اضافہ ہی ہوگا۔ علاقے کے حساس حالات کا منطقی تجزیہ و تحلیل یہ ہے کہ علاقائی عوام کے دشمن صیہونی حکومت اور اسکے حامی ہیں لہذا اس کے خلاف مزاحمت اور پائداری جاری رہنا چاہیے۔
نیل سے فرات تک حکومت کرنے کی خواہش رکھنے والی صیہونی لابی حماس کے چند میزائلوں کا مقابلہ نہ کرسکی اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صیہونی فوجی اپنے سائے سے بھی وحشت زدہ ہے اور گلی میں کوئی معمولی پٹاخہ بھی پھٹتا ہے تو دنیا کی بہترین آرمی کا دعوی کرنے والی فوج کے بہادر سپاہی پناہ گاہوں کی تلاش میں یوں سراسیمہ بھاگتے ہیں کہ بلی کے خوف سے بلوں کی طرف بھاگتے چوہے یاد آجاتے ہیں ۔ایہود باراک کے استعفی سے پہلے بعض تجزیہ کار یہ کہہ رہے تھے کہ اسرائیل نے کسی خاص حربے کے تحت جنگ بندی کی ہے ورنہ اسرائیلی فوج اتنی جلدی شکست تسلیم کرنے والی آرمی نہیں ہے تا ہم ایہود باراک کے استعفی نے اس دعوی پر مہر تصدیق ثبت کردی کہ غزہ کے مظلوم و محصور اور نہتے عوام نے صیہونی جنگی طیاروں اور میزائلوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے لیکن صیہونی شہری حماس کے چند میزائلوں کے سامنے ڈھیر ہوگئے | ||
Statistics View: 1,853 |
||