عراق میں دہشت گردی کے عوامل | ||
عراق میں دہشت گردی کے عوامل ڈاکٹر راشد نقوی عراق کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روان سال کے پہلے چند ماہ میں دو ہزار سات سو سے زیادہ افراد دہشت گردانہ کارروائیوں میں مارے جاچکے ہیں صرف جولائی کے مہینہ میں پانچ سو سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ایسے عالم میں جب عراق، عوامی مشارکت سے شہری اور سیاسی اداروں میں استحکام کے عمل کا تجربہ کر رہا ہے، عراق میں دوبارہ بدامنی کس کے فائدے میں ہے؟ اس کے علاوہ کون سے عناصر عراق کو فرقہ وارانہ جھڑپوں میں الجھانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا سوال ہے جسکا جواب آنا ضروری ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعثی افکار سے متاثر دھڑے، عراق میں سیاسی نظام حکومت کے مخالف ہیں اور وہ طاقت کے ذریعے نوری المالکی حکومت گرانے میں ناکامی کے بعد اب سماج میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دھڑے قبائلی اور فرقہ ورانہ جنگ شروع کرانے کی کوشش میں ہیں اور عراق کے قومی اتحاد کو بھی نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ عراق میں گذشتہ ہفتے ہونے والی تبدیلیاں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ اس ملک کے سنی علاقوں میں سماجی تشدد اور مالکی حکومت کے خلاف بحران سازی کی جڑیں عراق سے باہر سعودی عرب، قطر اور ترکی میں پیوست ہیں۔ یہ ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ عراق کو نسلی اور مذہبی بحران پیدا کرکے تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کریں۔ عراق میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے بعض ایسے عناصر ہیں جو ملک میں فرقہ وارانہ اور قبائلی تصادم شروع کرانا چاہتے ہیں، یہ اقدام ملک میں فتنہ فساد پیدا کرنے کے لئے انجام دیا گیا ہے۔ عراقی عوام القاعدہ اور بعث پارٹی کی باقیات کو عراق کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں، عراق میں برپا کیے جانے والے فتنے کے پیچھے بعض غیر ملکی عناصر ہیں، وہاں اردگرد کے بعض ممالک میں جو فتنے و فساد برپا ہیں، عراق اس سے بھی متاثر ہو رہا ہے۔ بعض عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب گذشتہ کئی سالوں سے عراق میں سرگرم دہشت گرد گروہوں سے رابطے میں ہیں اور انکی خفیہ اور علنی مدد کر رہا ہے، عراق میں سرگرم القاعدہ اور بعث پارٹی سے سعودی عرب کے براہ راست تعلقات ہیں اور وہ ان گروہوں کے ذریعے عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ ایاد علاوی کا سیاسی دھڑا العراقیہ مختلف علاقوں بالخصوص سنی آبادی کے علاقوں میں فرقہ وارانہ فضا پیدا کرکے مالکی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ عراق کے وزیراعظم نوری مالکی نے ملک کی سالمیت اور اتحاد کو نقصان پہنچانے والی اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے عراقی عوام کے تمام حلقوں من جملہ علماء، دانشور اور موثر گروہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کے اتحاد اور استحکام کو نقصان پہنچانے والے افکار و نظریات سے عوام کو آگاہ، متنبہ اور خبردار کریں۔ حکومت قانون اتحاد نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ بعث پارٹی کو مجرم تسلیم کیے جانے کے بعد "قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم پر گفتگو کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس اتحاد نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ "قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم سے قبل بعث پارٹی کا مجرم قرار دیا جانا نیز بعث پارٹی اور دہشتگردی کا مقابلہ اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ "باز پرس و انصاف" یا دوسرے لفظوں میں دہشتگردی اور بعثیوں سے مقابلے سے متعلق قانون میں ترمیم کی آواز اس کے بعد دوبارہ اٹھائی گئی کہ جب عراق کی بعض شرپسند سیاسی جماعتوں کے اشتعال دلانے پر اس ملک میں سنی آبادی والے صوبوں میں حکومت کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ اس بدامنی کی وجہ سے عراق میں سیاسی بحران کا راستہ ہموار ہوگیا اور اسی دوران بعثیوں کے ساتھ تعلقات رکھنے والے بعض گروہوں نے "قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم کا مطالبہ کر دیا۔ انھوں نے اس موضوع اور مظاہرین کے دوسرے مطالبات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور عراق کے سیاسی عمل اور نوری مالکی کی حکومت کے کام میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔ جس کے بعد سیاسی بحران کے حل نیز مظاہرین کے مطالبات کا جائزہ لینے کے لئے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے بعض سیاسی جماعتوں سے متاثر ہوتے ہوئے "قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ یہ کمیٹی پارلمینٹ میں اسے منظور کرانے کے لئے بہت دباؤ ڈال رہی ہے، لیکن عراق کے حکمران اتحاد میں شامل بعض سیاسی جماعتیں اس کی شدید مخالف ہیں۔ ان جماعتوں کا، کہ جن میں حکومت قانون اتحاد سرفہرست ہے، کہنا ہے کہ بعثیوں کی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں اٹھائے جانے سے بعث پارٹی کی تقویت کا راستہ ہموار ہوگا اور ان کے لئے حکومتی عہدے حاصل کرنا ممکن ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت قانون اتحاد کی ہم خیال سیاسی جماعتیں اس قانون میں ترمیم نہ کیے جانے کے سلسلے میں آئین کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عراق کے آئین کی ساتویں شق میں واضح طور پر بعث پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بنابریں العراقیہ اتحاد جیسی جماعتوں کی جانب سے "قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم کا مطالبہ ایک غیر قانونی مطالبہ ہے جو خاص مقاصد کے حصول کے لئے کیا گیا ہے۔ حکومت قانون اتحاد جیسی جماعتوں نے انہی عزائم کا ادراک کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوری مالکی نے عراقی شہریوں کی حفاظت اور ملک میں قومی اتحاد کے تحفظ کے مقصد سے"قانون باز پرس و انصاف" میں ترمیم کی مخالفت کی ہے۔ یہ بیانات ایسی حالت میں سامنے آئے ہیں کہ جب عراق کے بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ نوری مالکی نے اپنی مخالفت کے ذریعے ملک میں سیاسی بحران کو ہوا دی ہے، لیکن حالیہ چند مہینوں کے دوران عراق کی صورتحال نیز مذموم عزائم کی حامل بعض داخلی اور خارجی طاقتوں کے اقدامات پر نظر دوڑانے سے واضح طور پر اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ عراق کو ایک بہت گہری سازش کا سامنا ہے۔ عراق میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جو پہلے افغانستان اور اب شام میں جاری ہے، اس سازش کی کڑیاں سعودی عرب اور امریکہ سے جاکر ملتی ہیں۔ آج سعودی اور قطری سرمائے کے بل بوتے پر دنیا بھر کے سلفی اور القاعدہ کے جنگجوؤں کی مدد ہورہی ہے اور اس حوالے سے نہ صرف سعودی اور قطری پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے بلکہ سعودی عرب کے نام نہاد علماء نے اپنے فتووں کی کتابیں بھی کھول دی ہیں۔ سعودی علماء جو بحرین میں حکومت مخالف مظاہروںکو خلاف اسلام اور حرام سمجھتے تھے، آج عراق میں مسلمانوں کے قتل عام اور حکومت کو نیست و نابود کرنے کو جائز قرار دے رہے ہیں اور انکی دامے درمے سخنے مدد بھی کر رہے ہیں۔ عراق کے حالیہ فرقہ واریت کا اصل مقصد اسلامی بیداری اور عرب ملکوں میں شروع ہونے والے سفر کو روکنا ہے۔ | ||
Statistics View: 2,054 |
||