اسلامی بیداری | ||
دنیا بھر کے ٹی وی چینلز جب مصر کے دارالحکومت قاهره میں اسرائیلی سفارت خانے کو جلتا هوا دکھا رهے تھے تو راقم کے ذهن میں ماضی کے مصر کے مختلف مناظر ایک فلم کی طرح انتهائی تیزی سے چل رهےتھے۔ اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مصریوں کی ایک بڑی تعداد نعرے لگا رهی تھی ۔بعض نوجوان دیواریں پھلانگ کر اندر داخل هو رهے تھے کچھ اسرائیلی پرچم کو نذر آتش کرکے صهیونی سفارت خانے کی بلڈنگ پر فلسطینی پرچم لهرا رهےتھے۔ ٹی وی مصر کے تازه ترین مناظره دکھا رها تھا جبکه راقم کے ذهن میں کیمپ ڈیوڈ معاهده ، شرم الشیخ کے شرمناک مناظر اور غزه کے محاصرےکو تنگ کرنے کے لئے رفح کراسنگ کو بند کرنے کے اقدامات گردش کر رهے تھے۔ آج کے مصری نوجوان جب اسرائیل کا پرچم جلا رهے تھے تو اس پرچم کی آگ میں کیمپ ڈیوڈ کا وه منحوس معاهده جلتا هوا نظر آرها تھا جس نے مسلمانوں ، عرب دنیا اور فلسطینیوں کو دنیا کے سامنے ذلیل و خوار کر دیا تھا ۔یه کیمپ ڈیوڈ معاهده هی تھا جس کی وجه سے فلسطینی دنیا بھر میں آواره و بے گھر اورجبری جلاوطن هوئے- جب مصری جوان صهیونی سفارت خانے کی حفاظت کےلئے تعمیر کی گئی اضافی بلکه حائل دیوار کو گرا رهے تھے تو اس وقت فرعون مصر حسنی مبارک کی حکم پر تعمیر کی جانے والی وه دیوار یاد آگئی جو فلسطینیوں کو غزه تک پهنچنے سے روکنے کے لئےمصر کے سمندری علاقے میں تعمیر کی گئی تھی ۔ کئی مغربی ممالک کی مدد سے یه آهنی دیوار اس قدر مضبوط تھی که سمندر کی تهو ں سے شروع هوتی تھی اور زمین سے باهر اتنی بلند تھی که بےچاره فلسطینی بھوک سےمرتے ،بیماری سے ناچار، اپنے فلسطینی بھائی کے لئےاس دیوار کو نه نیچے سے عبور کر سکتا تھا نه پھلانگ کر دوسری طرف جا سکتا تھا۔ امریکی اور اسرائیلی ایما پر حسنی مبارک نے غزه کراسنگ اور اس کے اردگرد کے ان تمام ممکنه راستوں کو مکمل طور پر سیل کر دیا تھا که باهر سے کوئی چیز غزه کے محصورین تک نه پهنچ سکے۔ غزه کے پندره لاکھ باسیوں کا قصور صرف یه تھا که انهوں نے حماس کو وو ٹ دیا تھا اور اسماعیل هنیه کو وزیر اعظم بنایا تھا ۔مصری نوجوان جب نعر ےلگاتے هوئے مصری سفارت خانے کی طرف بڑھ رهے تھے تو چار نومبر 1979ء کا وه دن بھی یاد آ گیا جب ایران کی یونیورسٹیوں کے غیور طالبعلموں نے تهران میں موجود امریکی سفارتخانے کی جاسوسی کی سرگرمیوں اور دسیسه کاریوں سےتنگ آکر اس پر هله بول دیا تھا امریکی سفارت خانے پر قبضےکی جب خبر پیر جماران خمینی بت شکن کو ملی تو انهو ں نے اسے دوسرے انقلاب کا نام دیا مصر میں بھی جب نوجوانو ں کی ایک تعداد صهیونی سفارت خانے کی چھت پر فلسطینی پرچم لهرا رهی تھی تو ایسا محسوس هوا که تحریر اسکوائر پر کامیاب هونے والے انقلاب کی دوسری اور عملی کامیابی یهاں جلوه گر هو رهی هے ، کیمپ ڈیوڈ معاهدے نے بے غیرت عرب حکمرانوں کو صهیونی حکومت کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا آج صهیونی سفارت خانے بلکه اسرائیل کے جاسوسی کے اڈے پر غیور مصریوں نے قبضه کرکے عام عرب کے تمام غیور و با غیرت عربوں کو راسته دکھا دیا هے که امریکه اور اسرائیل کے خونی پنجوں سےآزادی کے لئے یهی راسته هے۔ دنیا دوسرے عرب ممالک سے صهیونی سفارت کاروں بلکه اسرائیلی جاسوسوں کے فرار کی جلد خبریں سنے گی ۔ تیونس،لیبیا،بحرین اور یمن میں بھی اسی عمل کا تکرار هونے والا هے ۔ ان ملکوں پر امریکی پٹھو ڈکٹیٹروں کی گرفت کمزور هونے سے انکے آقا و مالک کا تسلط بھی روز بروز مکڑی کے جالے کی طرف بکھر رہا هے۔ امریکه اور اس کے تمام حواری پوری تند روی اور مکمل انهمناک کے ساتھ اسلامی بیداری کی اس تحریک کو هتھیانے کے لئے سرگرم عمل هیں انهوں نے هر ملک کے لئے مختلف حکمت عملی اور اسٹریٹجی اپنا رکھی ہے۔ جب مصری عوام هاتھوں میں هاتھ شانه سے شانه ملائے سیکورٹی فورسز کے نرغے کو چیرتے هوئے صهیونی سفارت خانے کی طرف بڑھ رهے تھے تو پھر فرعون مصر کا وه کردار یاد آنے لگا جو اس نے مصریوں اور فلسطینیوں کے درمیان اختلافات ڈالنے نیز فلسطینیوں کے اندر اختلافات کی خلیج وسیع کرنے کے لئے اپنایا هوا تھا-فلسطین میں الفتح اور حماس کے در میان اختلاف ڈالنے میں حسنی مبارک کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نهیں آج فرعون مصر کے سقوط سے الفتح و حماس بھی نزدیک آ چکے هیں اور آئنده انتخابات اور اقوام متحده میں فلسطین کے مسئله کو پیش کرنے کے لئے متحد و متفق نظر آتے هیں اور دونوں کے درمیان قومی آشتی کے معاهدے پر بھی دستخط هو گئے هیں اسرائیلی سفارتخانے پر قبضے سے پهلے جب سیکورٹی فورسز مشتعل افراد کو روکنے کے لئے مذاکرات کر رهی تھی اور جذباتی نوجواں پولیس اور سیکورٹی فورسز کا حلقه توڑ کر آگے بڑھ رهے تھے تو دوبارہ فرعون مصر کا وه رویه یاد آگیا جو فلسطینیوں کو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے وه کرتا تھا ۔ شرم الشیخ کے ان گنت مذاکرات اور امن پراسس کا جو نتیجه برآمد هوا وه فلسطینیوں کے حقوق کے غصب هونے اور ان پر حملوں میں اضافے کے علاوه کچھ نه تھا آج مذاکرات کے ذریعے فلسطینیوں کے مفادات کو نقصان پهنچانے والا بسته مرگ پر بلند و بالا سلاخوں کے پیچھے عدالت میں اپنی بے گناهی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہا هے اور وه صهیونی جاسوس خانه جو فلسطینیوں کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں صبح و شام مصروف رهتا تھا آج مکینوں سے خالی ایک کھنڈر کی مانند نظر آتا هے اس کے باسی انقلابیوں کے خوف سے سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے هیں صهیونی مفادات کا سب سے بڑا حامی ڈکٹیٹر بے آبرو هو کر عدالتوں کے رحم و کرم پر هے اور امریکه اور اس کے حواریوں کو مصر میں سر چھپانے کی جگه نهیں مل رهی هے جبکه دوسری طرف تیونس کے عوام حبیب بورقیه اور بن علی کی نصف صدی پر مشتمل آمریت کے خاتم پر مسرور و خوشنود هیں. فرانس و مغرب نے حسب توقع بھاگتے ڈکٹیٹر کو اپنے ملکوں میں پناه لینے کی اجازت نه دی اور بن علی سعودی عرب کے شاه عبدالله کا بن بلا یا مهمان بنا اور چھوٹا ڈکٹیٹر بڑے ڈکٹیٹر کی بغل میں آگیا - یمن کا انقلاب سعودی عرب ، آمریکه اور عرب لیگ کی دسیسه کاریوں کی وجه سے ابھی اپنی منزل تک نهیں پهنچا هے لیکن یهان پر بھی سعودی عرب کا فریبکارانه اور ڈکٹیٹر پسندانه کردار یمن کے انقلابیوں کے پر مونگ دل رها هے- بحرین میں تو ظلم و ستم کی انتها کر دی گئی هے عوام کی آواز کو دبانے کے لئے سعودی فورسز آل خلیفه کی پولیس اور فوج کے ساتھ ملکی احتجاج کو کچلنے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رهی هیں لیکن عوام کی آواز کو دبانا مشکل هے شمالی آفریقه کے ایک اور ملک لیبیا میں بھی معمر قذافی کی بیالیس ساله ڈکٹیٹریت اپنی آخری سانسیں لے رهی هے طرابلس انقلابیوں کے قبضے میں هے لیکن مغرب کے استعماری قوتوں نے قذافی اور اس کے مخالفین دونوں کو هتٍھیار دے کر ایک اور مسلمان ملک کا انفر اسٹرکچر مکمل طور پر تباه کر دیا هے - لیبیا کی عبوری کونسل نه چاهتے هوئے بھی مغرب کے جال میں الجھی نظر آرهی هے اور امریکه ، برطانیه اور اس کے حواری لیبیا کے میٹھی تیل پر نظریں جمائے هوئے هیں ۔ بهرحال یه تمام انقلاب اور اس راستے کو اختیار کرنے والے دوسرے ممالک اسلامی بیداری کو مزید وسعت دیں گے اور عوامی بیداری کا یه سلسله مغرب تک بھی پهنچے گا - | ||
Statistics View: 2,369 |
||