یوم عاشورا کی اہمیت | ||
یوم عاشورا کی اہمیت فرناز زال زاده
ظہور اسلام کے بعد سب سے اہم تاریخی موڑ امام حسین (ع) کی تحریک ہے جس نے ایک بڑا اور جاوداں فکری دبستان کی صورت اختیار کر لی- امام حسین (ع) کی تحریک فی الواقع اعتلائے حق کے لیے ایک طرح کی جد و جهد تھی جس کو تلوار پر خون کی فتح کہا جاتا ہے- عاشورا اور امام حسین (ع) کا تعلق ساری دنیا سے ہے- جس طرح حدیث میں یهی آیا ہے کہ: "ان القتل الحسین حرارۃ فی قلوب المومنین لا تبرد ابدا" اس حدیث میں سنّی، شیعہ یا مسلمان لوگوں کا نام دکھائی نہیں دیتا بلکہ سب کی طرف اشاره ہے- شیعہ، سنی، ہندو، عیسائی حتی کہ یہودی لوگ بھی اس واقعے سے متاثر ہو کر اس سے سبق حاصل کرتے ہیں- اسی لیے جگہ جگہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یوم عاشورا کی عزاداری بڑے اہتمام سے منائی جاتی ہے- ائمہ اطہار کے مختلف اقوال میں سے یہ قول زیاده سننے میں آتا ہے کہ: امام حسین کے غم میں رونا اور آنسو بہانا انسانی روح کی صفائی کرتا ہے- حضور اکرم (ص) بھی اس سلسلے میں فرماتے ہیں: "من علامات الشقاء جمود العین قسوۃ القلب"- حضور (ص)نے خود بھی اس راستے میں شمولیت اختیار کر لی تھی- امام حسین کے بچپن ہی سے حضرت نبی اکرم(ص) کو حسین"ع" کی شہادت کی غیبی اطلاع تھی، اسی لیے جب امام حسین "ع" آپ کے پاس آتے تھے تو آنحضرت ان کو اپنی گود میں لے کر چومتے ہوئے روتے اور فرماتے تھے: اے میرے بیٹے! میں تلوار کی جائے ضرب کو چوم رہا ہوں- امام حسین (ع) کے اصحاب نے بھی کربلا میں اپنے کام کا آغاز آیات قرآن کی تلاوت سے کردیا اور امام کی تنہائی پر بہت سے آنسو بہاۓ اور اس کے بعد تلوار اپنے ہاتھوں میں لے کر میدان جنگ کی طرف روانہ ہو گئے- امام حسین کے غم میں آنسو بہانا آپ سے پیار کی علامت ہے جو زمزم کی طرح مومنوں کی رگوں سے ابل کر ابھرتا ہے- ساری دنیا میں عزیزوں اور بزرگوں کا عرس منایا جاتا ہے- عزاداری کا عمل سب سے پہلے انسانی، فطری اور اخلاقی اور اس کے بعد مذہبی حیثیت رکھتا ہے- حقیقت میں عزاداری یاد دلانے کی ایک قسم ہے اور نہ صرف اسلام یا ایران بلکہ سب ثقافتوں میں موجود ہے جہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں عاشورا کی مصیبت سے پہلے بھی ایرانی عوام سیاوش کا سوگ مناتے تھے اگرچہ یہ عزاداری ایک دیومالائی علامت تھی اور اس کا قیاس محرم و صفر سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ امام حسین کی عزاداری کی جڑ ہمارے عقیدے اور کلچر میں ہوتی ہے- امام حسین کی تحریک ایک مقدس اور اصلاحی حرکت کی تجلی تھی جس کو امام حسین (ع) نے ایک عظیم تبدیلی پیدا کرنے کے لیے قائم کیا اور یہ تحریک تھی جو تاریخ میں حضور (ص) کے آئین و رسالت کی مداومت کا سبب بن گئی- اس لیے اگر ہم اس رسالت کو جِلانا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ کم سے کم اگر ہم امام حسین کے ہم عصر نہیں تھے تو ان کے سوال "ہل من ینصرنی" پر لبیک کہہ دیں اور آپ کی عزاداری بڑے اہتمام خلوص دل اور کافی معرفت کے ساتھ کریں ایرانی استاد شہید علامہ مطہری کے بقول: عزاداری کا عمل مجاہد سے ایک قسم کی ہمراہی ہے گویا شہید کے لیے آنسو بہانا اس کے جہاد میں حصہ لینا ہے- امام حسین(ع) ایک انقلابی کردار ہیں، آپ کا پیغام، ایک ایسا عالمی پیغام ہے جو سرحد اور زمان و مکان کی محدودیت کا شکار نہیں ہے، اسی لیے ساری دنیا کے اکثر دانشوروں، ادیبوں، مصنفوں، مورخوں، فلسفیوں اور بزرگوں نے ان کے بارے میں اپنی کتابوں میں بہت کچھ لکھا ہے جس کی کچھ مختصر مثالوں کو بیان کیا جائے گا: امام خمینی(ره) " اسلامی جمہوری ایران کے بانی " : عاشورا پر آنسو بہانا، اس تحریک کو زنده رکھنا ہے- علامہ اقبال عالم اسلام کے بڑے معاصر شاعر، فلسفی اور بڑے مفکر ہیں، انہوں نے اپنی نظموں میں عاشورا کی وجوہات، محرکات، مقاصد اور کامیابیوں کی طرف اشاره کیا ہے- وه اپنی مثنوی "رموز بیخودی" میں امام حسین (ع) کے بارے میں فرماتے ہیں ہیں: مدعایش سلطنت بودی اگر خود نکردی با چنین سامان سفر دشمنان چون ریگِ صحرا لا تعد دوستان او بہ یزدان ہم عدد سرّ ابراہیم و اسماعیل بود یعنی آن اجمال را تفصیل بود تیغ بہر عزت دین است و بس مقصد او حفظ ِ آئین است و بس مہاتما گاندھی "بھارت کی آزادی کے رہنما": میں نے اسلام کے اعلی قدر شہید امام حسین "ع" کی زندگی کا مکمل طور پر مطالعہ کیا ہے اور کربلا کے بارے میں کافی بہت غور کیا ہے، میرے لیے بالکل واضح ہے کہ اگر ہندوستان کو ایک فتح مند ملک بننا ہے تو اس کو ضرور امام حسین (ع) کی تحریک سے سبق لینا چاہیے- محمد علی جناح " پاکستان کے قائد اعظم": ساری دنیا میں ہمت اور بہادری کی کوئی دوسری مثال امام حسین (ع) کے بغیر نہیں ملے گی- میرے خیال میں سب مسلمانوں کو ایسے عظیم ایثار کرنے والے شہید کے سبق کی پیروی کرنی چاہیے- لیاقت علی خان "پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم": محرم الحرام کا یہ دن "عاشورا" دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم معنی رکھتا ہے- اس دن میں وه واقعہ رونما ہوا جو سب حادثاتی واقعات سے المناک تھا- امام حسین (ع) کی شہادت، المناک ہونے کے ساتھ ساتھ، اسلام کی حقیقی روح کی فتح کا نشان تھی - اس حادثے کا سبق یہ ہے کہ جتنی مشکلات ہوں تو پھر بھی حق اور انصاف سے لاپرواہی اور انکار نہیں کرنا چاہیے- پروفیسر ایڈورڈ براؤں مشہور انگریزی خاور شناس : کیا کوئی ایسا دل ہے جو کربلا کے بارے میں سننے سے حزن اور درد سے بھرپور نہ ہو جائے- حتی غیر مسلم لوگ بھی اس روح کی پاکی سے انکار نہیں کر سکتے جس کے جھنڈے کے نیچے یہ اسلامی جنگ برپا ہوئی ہے- | ||
Statistics View: 3,410 |
||