غدیر دنیا کےشعرا کی نظر میں | ||
غدیر دنیا کےشعرا کی نظر میں سیده معصومہ بتول 10ہجری کے آخری ماہ (ذی الحجہ) میں حجۃ الوداع کے مراسم تمام ہوئے اور مسلمانوں نے رسول اکرم سے حج کے اعمال سیکھے۔ حج کے بعد رسول اکرم نے مدینہ جانے کی غرض سے مکہ کوچھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ،قافلہ کوکوچ کا حکم دیا ۔جب یہ قافلہ جحفہ سے تین میل کے فاصلے پر جو کہ احرام کے میقات کی جگہ ہے اور ماضی میں یہاں سے عراق،مصر اور مدینہ کے راستے جدا ہو جاتے تھے۔ رابغ نامی سرزمین جو کہ اب بھی مکہ اور مدینہ کے بیچ میں واقع ہے پر پہنچا تو غدیر خم کے نقطہ پر جبرئیل امین وحی لے کر نازل ہوئے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آیت کے ذریعہ خطاب کیا "یا ایہا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس"(سورہ مائدہ آیہ/ ۶۷ )اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجیے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہو چکا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا توگویا رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا؛ اللہ آپ کو لوگوں کے شرسے محفوظ رکھے گا۔ آیت کے اندازسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے کوئی ایسا عظیم کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سپرد کیا ہے ،جو پوری رسالت کے ابلاغ کے برابر ہے اور دشمنوں کی مایوسی کا سبب بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر عظیم کام اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کو خلافت و وصیات و جانشینی کے منصب پر معین کریں؟ لہٰذا قافلہ کو رکنے کا حکم دیا گیا ،جولوگ آگے نکل گئے تھے وہ پیچھے کی طرف پلٹے اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ آکر قافلہ سے مل گئے ۔ ظہر کا وقت تھا اورگرمی اپنے شباب پرتھی؛ حالت یہ تھی کہ کچھ لوگ اپنی عبا کا ایک حصہ سر پر اور دوسرا حصہ پیروں کے نیچے دبائے ہوئے تھے۔ پیغمبر کے لئے ایک درخت پر چادر ڈال کر سائبان تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے اونٹوں کے کجاوں سے بنے ہوئے منبر کی بلندی پر کھڑے ہو کر، بلند و رسا آواز میں ایک خطبہ غدیر خم ارشاد فرمایا کہ جس جس کا میں مولیٰ ہوں اس اس کے یہ علی مولا ہیں ، اے اللہ اسکو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اوراس کودشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے ،اس سے محبت کر جو علی سے محبت کرے اور اس پر غضبناک ہو جو علی پر غضبناک ہو ،اس کی مدد کرجو علی کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو علی کو رسوا کر ے اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر جدھرعلی مڑیں -خطبہ کو اگر انصاف کے ساتھ دیکھا جائے تو اس میں جگہ جگہ پر حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے دلائل موجو د ہیں۔ اپنے وقت کے بڑے بڑے عرب شعرا ء جیسے ابن رو می ، وا مق نصرانی ، حما نی، تنو خی ، ابو فراس حمدانی، بشنوی کردی ، کشا جم ، نا شی صغیر ،صا حب بن عباد ، مھیار دیلمی ، ابو العلا معر ی ، اقساسی ، ابن عرندس ، ابن عو دی، ابن داغر حلی ، بولس سلامہ مسیحی نے غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہے ہیں ۔ شعرائے عرب کے علاوہ فارسی ،اردو اور ترکی زبان کے شعراء نے بھی غدیر کے مطالب کو شعر میں ڈھال کر غدیر کے پیغام کی حفاظت اور اس کو نشر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ بعض شعراء نے داستان غدیر کو بطور مفصل یا مختصر طور پر اشعار میں نظم کیا ہے ان میں سب سے پہلے شاعر حسان بن ثابت ہیں ۔دوسرے بعض شعراء نے غدیر کے فقط حساس مطلب ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَھٰذَا عَلِیٌ مَوْ لَاہُ “کو شعر میں نظم کر کے غدیر کے پیغام کی حفا ظت کی ہےایک گروہ نے غدیر کے ادبی اور اعتقادی پہلو کو شعر میں نظم کیا ہےاور جہا ں تک ان سے ممکن ہوا انہوں نے غدیر کے معنوی پہلو کو اشعار میں ڈھال کر ایک شیعہ شخص کی زندگی کو نشاط بخشی ہےکہ جب بھی وہ اشعار پڑھےجا تے ہیں تو ان سے ان کے جسم و روح میں ولایت کی خنکی کا احساس ہو تا ہے۔ غدیر کے اشعارسے متعلق کتا بوں کی تد وین بعض موٴ لفین نے غدیر سے متعلق اشعار کو کتابوں میں جمع کیا ہےاور غدیر کی اس ادبی اسناد کو منظم اور مرتب مجمو عوں کی شکل میں پیش کیا ہے۔ شعر میں ایک دو سری بات یہ پا ئی جا تی ہےکہ اس نے غدیر کو کتا بوں اور محفلوں میں اس طرح پیش کیا جو دو سرے طریقوں سے ممکن نہیں ہےیا کم از کم آسان نہیں ہےبہت سی ادبی کتا بو ں میں یہاں تک کہ اہل بیت علیہم السلام کے مخالفوں نے اپنی کتابوں میں غدیر کے سلسلہ میں ایک بڑے شاعر کے شعرکو ادبی شہ پارے کے طورپر نقل کیا ہےاسی طرح وہ بہت سے افراد جن کے پاس مطالعہ اور علمی متون کو سننے کا وقت نہیں ہیں وہ بھی ا شعارکے ایک قطعہ سے ہی معارف غدیر سے سر شار ہو جا تے ہیں ۔ چو دہ صدیوں کے عر صہ میں مسئلہ ٴ غدیر عربی ،فارسی ،اردو،تر کی اور دو سری زبانوں میں اشعار میں نظم ہو تا رہا ہے۔اس سلسلہ میں سب سے پھلا زبردست شاعرقدم حسان بن ثابت نے اٹھایا اور نبی اکرم حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقاعدہ اجا زت سے غدیر خُم ہی میں واقعہٴ غدیر کے متعلق کہےهو ئے اشعار پڑھے۔ خود حضرت امیر المو منین علیہ السلام نے غدیر خم کے متعلق اشعار کہےہیں چند اصحاب پیغمبر نیز ائمہ علیہم السلام کے بعض اصحاب نے بھی غدیر کے سلسلہ میں اشعار کہےہیں منجملہ قیس بن سعد بن عبادہ ،سید حمیری ،کمیت اسدی ،دعبل خزا عی اور ابو تمام وغیرہ ہیں ۔ غدیر اور عربی شاعری سید حمیری : وکم قد سمعنا من المصطفی وصایا مخصَّصة فی علیّ وفی یوم خم رقی منبراً یبلغ الرکب و الرکب لم یرحل فبَخبَخَ شیخک لمّا رآی عری عقد حیدر لم تحلل ترجمہ: ہم نے مولا ئے کا ئنات کے سلسلہ میں رسول گرامی سے کتنی زیادہ خصوصی سفارشیں سُنی ہیں اور غدیر خم کے میدان میں آپ منبر پر تشریف لے گئے اور وہاں جاکر موجود افراد تک حکم الٰہی پہنچا یا ۔ اس وقت جب تمہارے بزرگ نے دیکھا کہ مولا ئے کائنات کے عقدوں کو کھلتے ہو ئے نہیں دیکھا تو مبارک بادپیش کی ۔ ابن رومی: قال النبی لہ مقالاًلم یکن یوم الغدیر لسامعیہ مُجمجماً من کنت مولاہ فھذا مولی لہ مثلی واٴصبح بالفخار متوّجاً ترجمہ : نبی(ص) نے غدیر کے میدان م میں علی (ع) کے متعلق ایک ایسی بات کہی جو سامعین کےلئے مبہم نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا جس جس کا میں مولاہو ں اس کے علی بھی مولا ہیں چنانچہ آپ کے سرپر فخر کا تاج پہنا دیا گیا ۔ شریف رضی : غدر السرور بنا وکان وفاوٴہ یوم الغدیر یوم اٴطاف بہ الوصی وقد تلقّب بالاٴمیر فتسلّ فیہ وردَّعا ریة الغرام الی المعیر ترجمہ : خوشی نے ہم سے بے رخی کی اور وفاداری غدیر کے دن کی ۔ جس دن میدان غدیر میں رسول(ص) کے وصی علی (ع) پہنچے لہٰذا غدیر کے دن اپنا غم دور کرو اور آسودہ خاطر ہوکر رہو ۔ غدیر اور ادب تر کی: یو سف شھاب :
ترجمہ : امام کو خداوند عالم معین کرتا ہےیہ امر ربانی ہر شخص کے حوالےنہیں کیا جاسکتاہےعلی آیہ ٴ قرآن کے منادی اور خدا کے ولی ہیں،جس شخص نے علی کا انکار کیا اس نے خدا کا انکار کردیاہےیہ علی میرے وصی اور تم میں سب سے اولیٰ ہیں ہر گز ان سفارشات کو ترک نہ کرنا یہ امر ،امر الٰہی ہےمیری اور تمہاری رائے نھیں ہےامین وحی نے یہ فرمان نازل کیا ہےحبیب خدا نے اپنی صورت آسمان کی طرف کرکے کہاے خداوند رؤوف و رحیم و رحمان جو شخص میرے چچازاد بھائی کا دشمن ہےتو اس کو دشمن رکھ جو اس کو دوست رکھےتو ہمیشہ اس کی مدد کر تمام دوست اور دشمنوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو دنیا میں خو شی کر لہر دوڑ گئی دوست خوشحال ہوگئے اور دشمن رنجیدہ ہوگئے غصہ کافور ہوگیا اور خو شی و شادمانی کے حالات پیدا ہوگئے –
فارسی ادبیات میں نثر لکھنے والوں نے غدیر کے سلسلہ میں زبر دست قطعے لکھےہیں جس کے ہم دو نمونہ ذیل میں پیش کررہےہیں :
”اے وجود کامل اے عشق تیری جان کی قسم کہ ہماری ہستی تیرے غدیر کے خم سے مست ہے۔
چہ گوئی بہ محشر اگر پرسدت از آن عھد محکم شبر یا شبیر
ترجمہ:
گلِ ھمیشہ بھار غدیر آمدہ است شراب کھنہٴ ما در خم جھان باقی است خدا گفت کہ (اکملت دینکم) آنک نوای گرم نبی در رگ زمان باقی است قسم بہ خون گل سرخ در بھارو خزان ولایت علی وآل جاودان باقی است گل ھمیشہ بھارم بیا کہ آیہٴ عشق بہ نام پاک تو در ذھن مردمان باقی است
غدیر اور اردو اشعار:
اسلام کی تاریخ میں رسول کونین کی آخری حج اور غدیر خم کا خطبہ اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ کربلا۔ وہ یوں کہ اگر لوگوں نے غدیر کو نہ بھلایا ہوتا تو کربلا رو نما نہ ہوتی۔
آج کی شب چارسو گونجی صداۓ یا علی دے رہا ہے ہر گل ہستی نواۓ یا علی طائر باغ مودت گنگناۓ یا علی رند میخانہ کے لب پر کیوں نہ آۓ یا علی محفل توحید میں امشب اجالا ہو گیا آج کی شب دین حق کا بول بالا ہوگیا جز خدا و جز نبی سب خلق سےاولی علی کیوں نہ میں کہہ دوں غدیری سب کا مولا ہے علی کیا جو خالق ہستی نے اہتمام غدیر سنایا احمد مختار نے پیام غدیر پڑھا تھا جس کو نبی نے بحکم رب جلیل سناؤ تم بھی غدیری وہی کلام غدیر
غدیر منزل انعام جا ودانی ہے غدیر مذ ہب اسلام کی جوانی ہے غدیر فتح ہےاسلام کے اصولوں کی متاع کون و مکاں کو غدیر کہتے ہیں چراغ خا نہٴ جاں کو غدیر کہتے ہیں نبی کی صبح تمنا ہےدو پھر نہ کہو کوہ فاراں سے چلا وہ کا روان انقلاب آگے آگے مصطفےٰ ہیں پیچھےپیچھے بو تراب جیسے دریا کی روانی جیسے سورج کی کرن خُلق پیغمبر بھی تیغ فا تح خیبر بھی ہے یعنی مر ہم بھی پئے انسانیت نشتر بھی ہے خون کے پیا سے بھی آپس میں گلے ملنے لگے بزم ہستی میں جلا ل کبریا ئی ہےغدیر بھر امت امر حق کی رو نما ئی ہےغدیر | ||
Statistics View: 16,116 |
||