ایران میں خواتین کے کھیل | ||
ایران میں خواتین کے کھیل منیرہ نژاد شیخ پرانے زمانے میں مشرقی ممالک کے درمیان ایران تنہا ملک تھا جو ذہن اور دماغ کی تعلیم کے ساتھ جسم کی پرورش پر بھی دھیان دیتاتھا۔ ایرانیوں کو پتا تھا کہ طاقتور فوجی بنانے کے لئے صحت مند اور قابل جسم کی ضرورت ہے جس کے ذریعےملک کی سرحدوں کو محفوظ رکھا جا سکتاتھا۔ ہرودوت،مشہور یونانی مورخ، نے لکھاہے: ایرانی لڑکے پانچ سال کی عمر سے بیس سال کی عمر تک تین باتوں کو سکھ جاتےتھے 1-گھوڑاسواری 2-تیراندازی با کمان 3- سچ بولنا ایرانیوں کا خیال تھا کہ جسم کی تربیت کے ذریعے سے نہ صرف اپنے آپ کو مضبوط بنا سکتے تھے بلکہ کمزوروں کی مدد بھی کر سکتے ہیں اس لئے طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ پہلوان بننا اخلاقی قدروں میں شامل تھا اور سماج میں پہلوانوں کا اعلی مرتبہ تھا۔ خواتین اور کھیل انسانی معاشرے کے آدھے حصے خواتین پر مشتمل ہے اور مختلف جہات سے ان کی اہمیت زیادہ ہے۔ کھیل خواتین کے امور میں بہت اہم ہے۔عالمی سطح پر بہت سی خواتین پیشہ ورانہ اور غیر پیشہ ورانہ شکلوں میں مختلف کھیلوں میں مصروف ہوتی ہیں۔ خواتین کا ایک گروپ ایٹھلٹیکس ہونے کےلئے کوشش کرتا ہے اور ان کا ایک گروپ اپنی صحت کو برقرار رکھنے کےلئے کوشان ہیں اور تیسرا گروپ کھیل سے بالکل دور رہتاہے۔ کھیل کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتاہے پرانی تہذیبیں تشکیل ہوجانے کے ساتھ ساتھ کھیل کے مختلف روپ وجود میں آتےرہےہیں مگر اس بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ شروع سے ہی صرف مرد کھیل سکتےتھے۔ پرانے معاشروں میں خواتین کو کھیلنے سے منع کیا جاتاتھا۔ یہ پابندیاں کھیل تک محدود نہیں تھیں بلکہ سماجی اور مذہبی رسومات میں بھی خواتیں کو دیکھنے کا حق بھی نہیں تھا۔اس قانون پر اتنا زور دیا جاتاتھا کہ اس قانون کے توڑنے والوں کو مارا جاتا تھا۔ایسی قوانین اور پابندیوں کی بناپر کھیل پسند خواتین نے اپنے لئے ایک پوشیدہ گروپ بنایا جس میں خواتیں کھلاڑی کے لئے خاص خاص مقابلے منعقد کیے جاتے تھے۔ ہیپوہریا پہلی خاتون کھلاڑی تھی جو اپنی ان تھک (پرزور)کوششوں کی بدولت ایسی قوانین کو توڑ کر یونان کے کھیلوں میں آگے آنے والی خواتین کے لئے راستہ ہموار کیا۔ دیکھتے دیکھتے عالمی مقابلہ میں خواتین کھلاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ بیسویں صدی میں کھیل میں خواتین کی شمولیت زیادہ ہوگئی ہے اور اسی صدی کے آخر میں اس کی رفتار تیز ہونے لگی۔ اسی صدی میں ثقافتی تبدیلیوں کے تحت جنسی مساوات پر زور دینے کی بنا پر خواتین کو سب کھیلوں میں کوئی سماجی پابندی اور رکاوٹ باقی نہ رہی, مگر ابھی بھی بعض ملکوں میں خاص طور پر اسلامی ممالک میں کچھ کھیلوں میں خواتین کے لئے کچھ پابندیاں ہوتی رہتی ہیں یا ان کا شوق بعض کھیلوں میں تھوڑا کم ہے۔ عالمی مقابلوں میں حصہ لینا ہر پیشہ ورانہ کھلاڑی کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں بہت مدد کرتاہے, مگر کھیل کے ایسے میدان کبھی کبھی اسلامی اعتقادات کے خلاف نظر آتے ہیں اس لئے مسلم خواتین کھلاڑی کا شمار بین الاقوامی مقابلوں میں کم ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے ہماری کھلاڑیوں پر ایسی پابندیاں نہیں تھیں مگر ان سالوں میں کھیل صرف معاشرے کے خاص طبقے کے ہاتھ میں تھا اور اکثر دولتمند گھرانوں کی لڑکیوں کو کھیلنے کا موقع مل جاتاتھا۔ اس دور میں خاص خاص کھیلوں کا رواج تھا جیسے گھوڑاسواری، سکی اور شمشیرزنی۔یہ کھلاڑی اپنے فارغ اوقات میں کھیل میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ اس دور میں جنرل اور عالمی کھیلوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔خواتین کے کھیل کے امور مردوں کے ہاتھوں میں تھے۔1306شمسی میں ایران کے اندر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تمام اسکولوں میں کھیل لازمی قرار دیا گیا۔ مگر کھیل کے لئے نہ کوئی استاداور نہ کوئی سہولیات فراہم کی گئیں تو ان سالوں میں اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ 1964ء کے اولمپک میں ایران کی چار کھلاڑیوں نے حصہ لیاتھا اور 1966ء کے ایشیائی کھیلوں میں جو تہران میں منعقد ہوئے ہماری خواتین کھلاڑیوں نے والی بال، جمناسٹکس، ٹیبل ٹینس، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، ٹینس اور دوسرے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا اور والی بال میں کانسی کا تمغہ جیتا۔1974ء کو تہران کے ایشیائی کھیلوں (جس کی میزبانی تہران نے کی)میں ہماری شمشیرباز کھلاڑیوں نے ایک گولڈ میڈل جیتا اور باسکٹ بال میں چوتھا نمبر، والی بال میں اور ٹینس میں پانچویں نمبر پر رہے۔ مگر اسلامی انقلاب کے بعد خواتین کھلاڑیوں پر کپڑوں کی پابندیاں لگنے لگیں۔ اسلامی انقلاب کے پہلے سالوں میں ہماری خواتین کھلاڑیوں کو شطرنج اور شوٹنگ (shooting)کے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینا میسر تھا۔ سنہ1361 شمسی میں ان کا کھیل باسکٹ بال، تیرنا، ٹیبل ٹینس، والی بال، جمناسٹکس، بیڈمنٹن اورجنگی combat) )کھیلوں میں پھرسے چلنے لگے۔ اسی سال عورتوں کو بھی کوچ اور ریفری کی تعلیم دینے کا کام شروع کیا گیا۔ ایران کی کوششوں کی بدولت اسلامی کھیل کا فیڈریشن سنہ 1370 کو قائم کیا گیا۔اسلامی کھیل ہر چار سال کے بعد ایران میں منایا جاتاہے اور اسلامی ممالک کی تمام خواتین کھلاڑی اس میں شمولیت حاصل کرتی ہیں۔ اس کھیل کا پہلا دور سنہ 1371 کو تہران میں منایا گیاجس میں 46 ٹیمیں مختلف اسلامی ممالک سےآکر شامل ہوگئیں۔اس فیڈریشن کا نصب العین حسب ذیل تھا: 1-صلح کروانا اور دوستی کو مضبوط قائم کرنا 2-لڑکیوں کے کھیل کی تہذیب مختلف اسلامی ملکوں میں پھیلانا 3-خواتین کے درمیان صحت اور نشاط پیدا کرنا 4-جنرل اورپیشہ ورانہ( پروفشینل) کھیلوں کو معاشرے میں عام کرنا مسلم کھلاڑیوں کےیونیفورم اکثر اسلامی ممالک میں خواتین کھلاڑیوں کا سب سے اہم مسئلہ رہاہے۔ اگرچہ اسلام میں کھیلنے پر بہت زور دیا گیاہے مگر ان کو کپڑوں میں تھوڑی سی پابندی ہوتی ہے۔ مذہبی اعتقادات کے مطابق مسلم خواتین کو خاص کپڑے پہننے کی ضرورت پڑتی ہے مگر اکثر بین الاقوامی مقابلوں میں ان کو اس کپڑوں سے روکا جاتاہے۔ اس لئے انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں خواتین کھلاڑیوں کے لئے اسلامی اقدارکے مطابق خاص یونیفورم ڈیزائن کیا گیا۔ اگرچہ اس وقت میں اس کام کے بارے میں سوچنا ناممکن تھا مگر آجکل اس موضوع پر زیادہ توجہ دی گئی تاکہ خواتین کے لئے بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع مل جائے۔ فٹ بال ایرانی خواتین کی فٹ بال ٹیم 1970ء کو تشکیل دی گئی ۔اس سے پہلے لڑکیاں گول کیپر اور کبھی کھلاڑی کے عنوان سے لڑکوں کی مقامی ٹیموں میں کھیلتی تھیں۔ جب ان کا شوق فٹ بال کھیلنے کے لئے بڑھنے لگا تو ایران کا فٹ بال فیڈرشین نے باصلاحیت لڑکیوں کو چن کر FIFA کے ٹریننگ کورس کے لئے بھیجاگیا۔ان کی تربیت ختم ہونے کے بعدیہ لڑکیاں ایران واپس آکر خواتین کی فٹ بال ٹیم کی ٹریننگ شروع کرنے لگیں۔استقلال کلب(club)میں ایران کی پہلی خواتین فٹ بال ٹیم بنائی گئی۔ انقلاب کے 13 سال تک ان ٹیموں کا کام روک دیا گیا، مگران لڑکیوں کا شوق بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اس لئے 1371ش کو الزہرا یونیورسٹی میں لڑکیوں کے لئے فٹبال کا پہلا دور شروع ہوگیا۔چند سال بعد بھی خواتین کی فٹ بال ٹیم بن کے بیرونی ملکی مقابلوں کے لئے تیار ہوگئی۔یہ ٹیم اپنی پہلی بیرونی ملکی مقابلہ کے لئے مغربی ایشیایی چیمپئن شپ میں حصہ لے کے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ٹیم یہاں تک نہیں روک گئی بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ ڈھونڈ لیا اور2007ء کو ایشیا کپ(Asian cup) کے ابتدائی دور میں بھارت سے جیت لےکر دوسرے دور تک پہنچ گیا۔ 1384ش میں یہی ٹیم دھوم دھام کے بغیر اردن کے ایشیا کپ میں حصہ لے کے توقع سے زیادہ دوسری پوزیشن حاصل کی ۔وہ اپنے خاص کپڑوں کی بنا پر سب ٹیموں سے الگ دکھائی دیتی تھی۔ اور اس کی تصویریں شائع ہوتی تھیں ۔ آخری عالمی رینکنگ کے مطابق یہ ٹیم دنیا کے 55 کی درجہ بندی میں شامل ہوگئی۔ تکواندو خواتین کی تکواندو ٹیم انقلاب کے بعد ایران کی سب سے بہتر ٹیم ہوتی ہے۔ 1381شمسی کو جنوبی کوریا کے مقابلوں میں اس ٹیم کا پہلا بیرونی ملکی کھیلوں کا تجربہ مل گیا اور وہی مقابلوں میں پروانہ محمدتقی پور کے ذریعہ ایران کا پہلا کانسی تمغہ ملا۔ اس میڈل سے کانسی کا تمغہ ملنے کا سلسلہ جاری رہا دوحہ کے ایشیایی کھیلوں میں مہروز ساعی اور افسانہ شیخی کے ذریعے ہماری ٹیم کو دو کانسی کے تمغے ملے۔ نوجوان عمر کے گروپ میں ایشیا پیسفک چیمپئن شپ میں آیتک معمارزادہ کو چاندی کا تمغہ ملا۔ سارا خوش جمال کو بھی اولمپک میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ بیڈمنٹن ایران میں خواتین کی قومی ٹیم 1360شمسی کو تشکیل پائی اور اپنے پہلے بیرونی ملکی کھیل میں آذربائیجان کو ہرایا ۔ 1368شمسی میں جب لڑکیوں کے اسکولوں میں بیڈمنٹن رسمی کھیل کا اعلان ہوا تو لڑکیوں کا شوق اس کی طرف بڑھنے لگا اور بہت سی لڑکیاں بیڈمنٹن کھیلنے لگیں۔ اب ہرسال بیڈمنٹن کا مقابلہ قومی چیمپئن شپ کے نام پر لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیلاجاتاہے۔ 1371شمسی کو یہ ٹیم اسلامی خواتین کے کھیل کے پہلے دور میں شامل ہوکر 5 ٹیموں کے بیچ سوم آگیا۔1376شمسی سے بیڈمنٹن میں ایران کا بین الاقوامی مقابلہ کھیل کے عالمی کیلنڈر میں بھی لکھایا گیا۔1385شمسی کو 16سالہ کے نیچے کے گروپ میں ہماری ٹیم بحرین کے چیمپئن شب کھیلوں میں جیت گئی ۔ دوسرے کھیل ٹیبل ٹینس کی ٹیم نے پہلی بار 1381ش کو کرغزستان کے مڈل ایسٹ چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور 17 عمر سے نیچے کے گروپ میں ٹیمی طور پر تیسرے مقام پر پہنچ گئی اور انفرادی طور پر ہماری ایک کھلاڑی نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔واٹرپولو، روونگ(rowing) اور ڈوبکی(dive) پانی کے کھیلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ ان کی خاص ضوابط کی بناپر ہماری کھلاڑیاں بین الاقوامی سطح پر حصہ نہیں لے سکتی ہیں مگر روونگ کی بات الگ ہے اور ہماری کھلاڑی پہلی بار 1384ش کو چین کے ایشیایی کھیلوں میں حصہ لے سکیں۔ اس سال کے بعد اس ٹیم کو باربار ایشیائی اور بین الاقوامی کیھلوں میں شامل ہونے کا موقع مل گیاہے ایک بار فینال گیم تک پہنچی ۔ہماری خواتین رنرز(runners) کا پہلابیرونی ملکی مقابلہ بوسان کے 2002ء کے ایشیایی گیمز سے شروع ہوا, اور پریسا بہزادی پتلون، لمبا کپڑا اور دوپٹہ پہنتے ہوئے اس میں شامل ہوئیں۔امان کے ایشیایی کھیلوں میں ہماری خواتین رنرز کے لئے کامیابی کا میدان تھا اور ایران کا پہلا کانسی میڈل حاصل کیا گیا۔ تیرنا، کودنا اورجمناسٹکس بنیادی کھیلوں میں شامل ہوتے ہیں۔ان کھیلوں میں ہماری خواتین کھلاڑی اسلامی کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں جو ہر 4 سال ایک بار ایران میں کھیلا جاتاہے۔ آج کل ہماری خواتیں کھلاڑی ایران میں اکثر کھیلوں میں کھیلتی ہیں اور امید ہے ان کے کپڑوں کا مسئلہ جلد ہی حل ہوجائے اور ان کو بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے اور آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ | ||
Statistics View: 2,536 |
||