شام استقامت کی فرنٹ لائن اور اسرائیلی مہرے | ||
شام استقامت کی فرنٹ لائن اور اسرائیلی مہرے
شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندے کوفی عنان نے جمعرات دو اگست کے دن یہ کہتے ہوئے اپنے استعفی کا اعلان کیا کہ سلامتی کونسل کے بعض ارکان نے ان کی حمایت نہیں کی لہذا استعفی دے رہے ہیں جبکہ ان کا کہنا تھاکہ چھ نکات پرمبنی ان کا منصوبہ شام کے بحران کے حل کے لئے واحد راستہ ہے اور اس پر پورے طور سے عمل ہونا چاہئیے ۔ بان کی مون نے بھی جمعرات کے دن شام کے امور کے بارے میں اگست کے آخر میں کوفی عنان کی ماموریت کے ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے بحران کے حل کے لئے کوفی عنان کا چھ نکاتی منصوبہ بہترین راہ حل ہے ادھرتین اگست کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مغرب اور عرب حکومتوں کے سنگین دباؤ کےنتیجےمیں آخرکارشام مخالف قراردادمنظورہی کرلی ۔ دنیاکےتینتالیس ملکوں نے اس قرارداد کےخلاف ووٹ دیا یا ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔اس قرارداد کامسودہ سعودی عرب کی جانب سےپیش کیاگیاجس کی مغربی ممالک اورشام مخالف بعض عرب ممالک نے حمایت کی۔اس قرارداد میں شام میں دہشتگردوں کےاقدامات کی جانب کوئی اشارہ کئےبغیر اس ملک کےصدربشاراسد پردباؤ بڑھائےجانےپرتاکیدکی گئی ہے ۔ اس مسئلےسےپتہ چلتاہےکہ مغربی اورعرب ممالک کاایک گروہ بالخصوص سعودی عرب شام کےبحران کےسلسلےمیں جانبدارانہ موقف اختیارکئےہوئےہے۔ مغربی ممالک اورامریکہ کی ہاں میں ہاں ملانےوالےعرب ممالک شام میں سترہ مہینےپہلےشروع ہونےوالےکچہ مظاہرین کےساتھ مل کربشاراسد کی حکومت کونقصان پہنچانےکےلئےمتحد ہوگئےہیں۔ سلامتی کونسل اور دوسرےعالمی اداروں کوآلہ کاربنانا شام کےسیاسی نظام کونقصان پہنچانےکےلئےشام مخالف مغربی اورعربی محاذکےاقدامات کاایک حصہ ہے۔سلامتی کونسل کےذریعے شام میں فوجی مداخلت کی زمین ہموارکرنے کی مغربی عربی محاذ کی مشترکہ کوششیں ناکام ہونےکےبعد امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانےوالے مغربی اورعرب ممالک کےمحاذ نےشامی دہشتگردوں کومسلح کرنےکی کوششیں تیز کردیں تاکہ شام کوایک خونریزداخلی جنگ میں دھکیل دیں ۔ ایسےعالم میں جب امریکہ اورعرب ممالک شام کےبحران کےحل کےلئےفوجی مداخلت کےخواہاں ہیں روس اورچین سفارتی راستوں بالخصوص کوفی عنان کےمنصوبےکی مطابق بحران شام کےحل پرتاکیدکرتےہیں۔ بعض سیاسی ماہرین کاخیال ہےکہ مغربی ممالک نےشام میں بشاراسد کی حکومت تبدیل کرنےکےلئےروس اورچین پردباؤ ڈالنےاور فوجی مداخلت کےمطالبےکوعملی جامہ ہنانےکےلئےایسےحالات پیداکردیئےکہ کوفی عنان استعفی پر مجبور ہو جائیں ۔کوفی عنان کو ایک منطقی اور مقبول شخصیت کے عنوان سے اور اقوام متحدہ میں دس برس سکریٹری جنرل کی حیثیت سے کا م کرنے کی وجہ سے شام میں بڑھتی ہوئی بد امنی اور بحران کے پیش نظراقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی نمایندہ منتخب کیا گیا تھا ۔ کوفی عنان نے شام کے بحران کے حل کے سلسلے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ کام شروع کیا اور پہلی فرصت میں وہ دمشق گئے اور انھوں نے شام کے بحران کے حل کے بارے میں شام کے حکام حاض طور سے شام کے صدر بشار اسد سے ملاقات کی۔ کوفی عنان نے شام کے بارے میں اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لئے چھ نکاتی منصوبہ پیش کیا او اس سلسلے میں دوبار تہران کا سفر کیا اور ہر بار ایران کے حکام نے کوفی عنان کے منصوبے کی حمایت کی اور اسے شام کے بحران کے حل کے لئے بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر بہترین راہ جل قرار دیا ۔ایران اور روس نے ابتدا ہی سے کوفی عنان کے چھ نکاتی منصوبہ کی حمایت کے ساتھ ساتھ شام میں سیاسی اصلاحات پر بھی تاکید کی ہے ۔ حکومت اور مخالفین کے درمیان جنگی بندی اور سیاسی مسائل کی وجہ سے جیل میں بند افراد کی رہائی منجملہ کوفی عنان کی چھ نکاتی تجاویز تھیں ، حکومت شام نےایک بار پھر کوفی عنان کے استعفی کے اعلان کے بعد بھی ان کے منصوبے پر عمل درآمد کے پابند ہونے کا اعلان کیا ہے ،لیکن دہشت گرد جنھں بعض مغربی اور عربی ممالک کی حمایت حاصل ہے بارہا اس منصوبے کی خلاف ورزی کی ہے اور شام میں مسلسل بدامنی پھیلانے میں مشغول ہیں ۔دہشت گردوں کو اس وقت امریکہ ، صیہونی حکوت ، سعودی عرب ، قطر ،اور ترکی کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے انھوں نےشام میں لوگوں کا قتل عام اور ملک کو بد امن کرکے کوفی عنان کے منصوبے کو عملی طور پر ناکام بنادیا ہے ۔شام میں دہشت گردوں کی حمایت کے آشکار ہونے کے بعد ترکی نے امریکا ، سعودی اور قطر کے تعاون سے دہشت گردوں کی فوجی اور مواصلاتی مدد کےلئے شام کی سرحد کے قریب ایک خفیہ اڈا قائم کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے ملک کے اندر بھی فوجی اڈے قائم کئے ہیں جہاں امریکہ ، اسرائیل ،قطراور سعودی عرب کے خفیہ ادارے دہشت گردوں کو شام کے خلاف معلومات فراہم کر رہے ہیں ۔ ان ہی مسائل کے پیش نظر امریکی صدر باراک اوباما نے ایک حکم پر دستخط کرکے سی آئی اے سمیت امریکہ کے دوسرے خفیہ اداروں کو اجازت دی ہے کہ شام میں حکوت کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کریں ۔شام کے مخالفین سیاسی راہ حل کو نظر انداز کرتے ہوئے دہشت گردوں کو ہتھیاروں سے لیس کرکے شام میں اپنے اہداف او مقاصد کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں ۔ چین کے انٹیلی جنس کےادارے نے انکشاف کیا ہے کہ شام کے خلاف نفسیاتی جنگ، امریکہ کے اشارے پراگست میں مزید تیز ہو جائےگی۔اس رپورٹ کے مطابق شام کے خلاف نفسیاتی جنگ کا نیا سلسلہ امریکی ایما پر الجزیرہ، العربیہ اور بی بی سی ٹی وی چینلوں کے ذریعےشروع کیا جائے گا۔ عرب سیٹ اور نائل سیٹ سیٹلائٹ سے شام کے ٹی وی چینلوں پر پابندی اسی نفسیاتی جنگ کاایک حصہ ہے جس کا مقصد شام کے داخلی حالات کے سلسلےمیں صحیح خبروں کو روکنا ہے۔ شام کے خلاف اس نفسیاتی جنگ کے اخراجات بعض عرب ممالک ادا کر رہے ہیں جن میں سب سے آگے قطر ہے۔ البتہ حالات پر قریب سے نگاہ رکھنے والے مبصرین اور باخبر حلقوں کا ماننا ہے کہ شام کے حالات میں بہتری آرہی ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ علی اکبر صالحی نےصحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ ملت شام کے دشمن، دمشق میں دھماکے کرکے یہ سمجہ رہے تھے کہ اس ملک کا نظام متزلزل واقع ہوگیا ہے لیکن ان کی توقع کے برخلاف شام کی فوج مخالفین پر قابو پاتی جا رہی ہے۔علی اکبر صالحی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران شامی حکومت اور مخالفین کے درمیان صلح کی غرض سے ثالثی کے لئے تیار ہے، کہا کہ ہم ایک سال سے مخالفین سے رابطےمیں ہیں البتہ مخالفین کاگروہ کافی بڑا ہے اور ان کے مختلف اہداف ہیں۔ دوسری جانب ایران کے وزیردفاع نے کہا ہے کہ شام کی فوج اور حکومت دہشت گردوں کامقابلہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور اب تک اس سلسلے میں کامیاب رہی ہے۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بریگیڈیرجنرل احمد وحیدی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ تسلط پسند نظام، دنیا کے مختلف علاقوں سےدہشت گردوں کوشام میں بھیج رہا ہے اوراس پر پردہ ڈالنے کے لئے ایران پر شام میں فوجی موجودگی کا الزام لگا رہا ہے۔ شام کے تعلق سے ایران پر مداخلت کا الزام بھی نہایت بھونڈا اور مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ اس سے قبل عراق اور افغانستان میں اپنے اہداف میں ناکامی کی صورت میں بھی امریکہ اسی طرح کے الزامات ایران پر لگاتا رہا ہے۔ بلا شبہ اقوام عالم کی تیز بین نگاہیں اس وقت دیکھ رہی ہیں کہ امریکہ دنیا کے اس کونے سے آتا ہے اور اس خطے میں اپنی من مانی کرتا ہے تو یہ مداخلت نہیں لیکن اگر ایران جیسا اس خطے کا بااثر ملک مسلمان ممالک کے عوام کے حقوق کی بات کرے تو یہ مداخلت ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ ترکی، قطر اور سعودی عرب امریکہ کا ساتھ دے کر اپنے عوام کے غیض و غضب سے محفوظ رہ پائیں گے یا اس سرنوشت کا انتظار کریں گے جو تمام جابر حکمرانوں کا مقتدر ہے۔ بہرحال ان ہی مسائل کودیکھتے ہوئے کوفی عنان نے اعلان کیا کہ وہ شام میں اپنے مشن کے بارے میں کام نہیں کرنا چاہتے ہیں ۔ کوفی عنان نے اس کے باوجود یہ اعلان کیا ہے شام کے بحران کے حل کے لئے چھ نکاتی منصوبےسے بہتر کوئی راہ حل نہیں ہے ۔ اس موضوع سے پتہ چلتا ہے کہ شام کی مشکلات سیاسی روش کے ذریعہ حل ہوسکتی ہیں ۔لیکن سعودی عرب ،قطر ، ترکی امریکہ اور اسرائل اپنے استعماری مفادات کے تحت شام کو استقامت کے فرنٹ لائن سے ہٹاکر اسرائیل کے لئے تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں ۔بشار اسد کا سب سے بڑاجرم یہی ہے کہ وہ اسرائیل کا مخالف اور فلسطینی کاز کے لئے سرگرم حزب اللہ لبنان سمیت فلسطین کی مختلف مقاومتی تنظیموں کا حامی ہے. | ||
Statistics View: 2,010 |
||