ناوابستہ تحریک کا سولھواں سربراہی اجلاس | ||
ناوابستہ تحریک کا سولھواں سربراہی اجلاس اسلامی جمہوریہ ایران کا دارالحکومت تہران گذشتہ دنوں عالم مشرق کا جنیوا بنارہاکیونکہ ناوابستہ تحریک کا سولھواں سربراہی اجلاس تہران میں منعقد ہوا اجلاس جمعرات اکتیس اگست کی صبح کو رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے خطاب سے شروع ہوا تھا۔ دنیا کے صحافتی اور سیاسی حلقوں نے اعتراف کیا ہےکہ تہران میں ناوابستہ تحریک کے سولھویں اجلاس میں اس تنظیم کے سربراہاں مملکت، وزرا اعظم، نائب صدور نیز وزرا خارجہ کی بھر پور شرکت سے ایران کو الگ تھلگ کرنے کی مغربی سامراج اور صیہونیت کی کوششیں ناکام ہوگئ ہیں۔ ناوابستہ تحریک انیس سو اکسٹھ میں جواہر لعل نہرو ، سوکارنو، جمال عبدالناصر اور مارشل ٹیٹو کی کوششوں سے تشکیل پائی۔ بانڈونگ کانفرنس کے اختتامی بیان میں قوموں سے اپیل کی گئی تھی کہ پرامن زندگی گذاریں اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے تحت دوسرے ملکوں کے خلاف جارحانہ عزائم سے گریز کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہوانا میں ناوابستہ تحریک کے چھٹے سربراہی اجلاس میں ایران اس تنظیم کا رکن بنا۔ ایران بغداد فوجی معاہدے میں شامل ہونے کی وجہ سے انیس سو اکسٹھ میں بلغراد میں ہونے والے ناوابستہ تحریک کے پہلے سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کر سکا اور اس کے بعد بھی اس تحریک میں ایران کی شمولیت کا مسئلہ نہیں اٹھا۔ انیس سو اناسی میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، شاہ کی حکومت کے خاتمے، سینٹو معاہدے کے ختم ہونے اور ایران کی خارجہ سیاسی پالیسی کے اعلان کے بعد ناوابستہ تحریک میں ایران کی رکنیت کا مسئلہ سنجیدگی سے اٹھایا گیا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ایک سال بعد کیوبا کے اس وقت کے وزیر خارجہ ایزیڈورومالمیرکا نے اعلان کیا کہ ایران کی نئی پالیسی اسے ناوابستہ تحریک میں شمولیت کی اجازت دیتی ہے۔ ناوابستہ تحریک میں ایران کی موجودگی ہمیشہ بھرپور اور فعال رہی ہے۔ ایران نے اس تحریک کے پلیٹ فارم پر ہمیشہ فلسطین، مذہب مخالف سرگرمیوں اور اقدامات کی روک تھام، شمالی ملکوں کی منڈیوں کے دروازے جنوبی ملکوں کی برآمدات کے لیے کھولنے کے مطالبے جیسے مسائل اٹھائے ہیں۔ اس کے مقابل ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی میں ناوابستہ تحریک نے ایران کے ایٹمی حقوق کی بھرپور حمایت کی ہے۔ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ناوابستہ تحریک کے گروپ نے بورڈ آف گورنرز سے بارہا اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ سیاسی دباؤ سے بالاتر ہو کر تمام رکن ملکوں کے ہتھیاروں کی صورت حال کا دقیق جائزہ لے۔ ایک کلی جائزے میں کہا جا سکتا ہے کہ ناوابستہ تحریک میں ایران کی شمولیت سے اس تحریک کو عالمی تحولات اور معاملات میں ایک مؤثر تنظیم میں تبدیل کرنے کی سوچ کو تقویت ملی ہے۔ خصوصا اس لیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، کیوبا ملیشیا اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ بیداری اور ناوابستگی کے میدان میں دنیا کے چار اہم ممالک میں شامل ہے کہ جس نے اس تنظیم میں شامل ہونے کے وقت سے لے کر ہمیشہ ناوابستہ تحریک کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں بھرپور کوششیں بھی کی ہیں۔ ناوابستہ تحریک کا حالیہ اجلاس اسلامی جمہوری نظام کی طرف سے ایک طرح کا سیاسی طاقت کا مظاہرہ تھا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای نے ناوابستہ تحریک کے تہران سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں عالمی نظام میں جاری تبدیلیوں اور صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے ناوابستہ تحریک میں نئی روح پھونکنے اور تحّرک پیدا کئے جانے کی ضرورت پر تاکید فرمائی ۔ آپ نے دنیا کے پانچ بّر اعظموں کے مختلف ملکوں کے اعلی حکام سے اپنے خطاب میں تاکید کے ساتھہ فرمایا کہ ناوابستہ تحریک کو چاہئے کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل میں اپنا نیا اور بھرپور کردار ادا کرے اور اس تحریک کے رکن ممالک، اپنے وسیع ذرائع اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کو بدامنی۔ جنگ و جارحیت اور تسلط پسندی سے نجات دلانے میں اپنا تاریخی اور یادگار کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ چھے عشرے بیت جانے کے باوجود ناوابستہ تحریک کے حقیقی عزائم، جوں کے توں باقی ہیں فرمایا کہ سامراج کی مخالفت اور سیاسی و اقتصادی نیز ثقافتی آزادی ۔ ماّدی طاقتوں سے عدم وابستگی ۔ یکجہتی کا فروغ اور اسی طرح رکن ملکوں کے درمیان تعاون، ایسی امنگیں ہیں کہ جن پر ناوابستہ تحریک تاکید کرتی رہی ہے ۔ اگر چہ دنیا کے موجودہ حقائق اس وقت ان امنگوں سے دور ہیں تاہم باہمی عزم و ارادے سے ان امنگوں کا حصول بآسانی ممکن ہے جیساکہ اقوام عالم کی انقلابی بیداری کے زیر سایہ عالمی تبدیلیوں کے عمل سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عالمی تبدیلیوں کا مستقبل ایک ایسے کثیر جہتی نظام کی نوید دے رہا ہے کہ جس میں طاقت کے روائتی مراکز اپنا مقام، مختلف سیاسی ۔ سماجی اور ثقافتی گہواروں کے حامل مختلف تہذیب و تمّدن سے آراستہ ملکوں کے ایک مجموعے کے حوالے، کرتے جارہے ہیں ۔ البتہ بلاشبھہ جیساکہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای نے فرمایا ہے بین الاقوای تعلقات کے عمل پر نظر ثانی ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ڈھانچے میں تبدیلی ۔ دنیا سے جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ اور پائدار امن و سلامتی کی برقراری کی ضرورت ایسے مشترکہ اہداف و مقاصد اورامنگیں ہیں جو ناوابستہ تحریک کے رکن ملکوں کو اس بات کا موقع فراہم کررہی ہیں کہ وہ عالمی سطح پر اپنا موثر اور بہتر کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سنبھالیں اور دنیا میں حقیقی شراکت کے ساتھہ منصفانہ نظام کی راہ ہموار کریں ۔ دنیا کے مسائل پر حقیقت پسندانہ نظر ڈالنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بہت سے مسائل و مشکلات، دنیا میں عالمی طاقتوں کی زیادہ روی اور توسیع پسندی سے پیدا ہوئے ہیں جو طاقت ۔ اجارہ داری اور ہتھیاروں کے بل بوتے پر عالمی سرمایوں اور قدرتی ذرائع و ذخائر پر تسلط جمانے کے درپے ہیں اور یہ اجارہ داری انھوں نے پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول جیسے شعبوں پر بھی قائم کررکھی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغرب کی اس دوہری پالیسی کو موجودہ حالات میں بدترین عمل قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول فرمائی ہے کہ امریکی حکومت، جو سب سے زیادہ ایٹمی اور دیگر مہلک ہتھیاروں کی حامل ہے اور اس نے ان ہتیھاروں کو استعمال بھی کیا ہے اس وقت جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار بننے کی کوشش کررہی ہے جبکہ اس امریکی حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں نے ہی غاصب صیہونی حکومت کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کیا اور اس حسّاس علاقے میں اتنا بڑا خطرہ پیدا کیا ہے اور یہی فریب کارممالک اور حکومتیں، آزاد ملکوں کی جانب سے ایٹمی توانائی کا پرامن استعمال برداشت نہیں کرپارہی ہیں یہانتکہ وہ دواؤں اور انسانی استعمال کی دیگر پرامن مصنوعات کی پیداوارکیلئے جوہری ایندھن کی پیداوار کی پوری توانائی سے مخالفت بھی کررہی ہیں اور وہ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار کے اندیشے کو صرف بہانہ بنا رہی ہیں جبکہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں خود بھی جانتی ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں مگر ان کی سیاست کا عمل ان کے جھوٹ کو بھی صحیح سمجھتا ہے ۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای نے تاکید کے ساتھہ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہرگز ایٹمی ہتھیاروں کے درپے نہیں ہے تاہم وہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے سلسلے میں اپنی قوم کے مسلمہ حق سے ہرگز چشم پوشی بھی نہیں کریگا ۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا نعرہ یہ ہے کہ جوہری توانائی سب کیلئے مگر جوہری ہتھیار کسی کیلئے نہیں اور ہم اپنے اس اصول پر قائم ہیں اور اس بات کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں کہ این پی ٹی معاہدے کے تناظر میں جوہری توانائی کی پیداوار کے حوالے سے چند ملکوں پر دارومدار کا بھرم توڑنا ناوابستہ تحریک کے رکن ملکوں سمیت پوری دنیا کے تمام آزاد ملکوں کے مفاد میں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں نے جن میں سرفہرست امریکہ ہے جمہوریت و آزادی ۔ انسانی حقوق کے دفاع ۔ دہشتگردی کے خلاف مہم اور جوہری خطرات پر نگرانی کے دعووں کو اپنی تسلط پسندی کے جواز کیلئے صرف بہانہ بنا رکھا ہے جبکہ انہی ممالک میں انسانی اور عوام کے شہری حقوق کا گلا گھونٹا جاتا اور انھیں پائمال کیا جاتا ہے ۔ انسانی حقوق کے دعویدار یورپ و امریکہ، جب فلسطینی قوم کے حقوق کی خلاف ورزی ۔ غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم اور عراق و افغانستان میں عوام کے بہیمانہ قتل عام کی بات آتی ہے تو دہشتگردی کی اچھی اور بری، دو قسمیں بتانے لگتے ہیں حالانکہ خود دہشتگرد گروہوں کے ساتھہ روابط رکھتے ہیں اور سرکاری دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں ۔ ان ہی حقائق کے پیش نظر ہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں عالمی سطح پر ناوابستہ تحریک کی اہمیت و کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے تاکید کے ساتھہ فرمایا کہ اس وقت دنیا، بڑی تبدیلیوں کی راہ پر چل رہی ہے کہ جن کا سرچشمہ ناوابستہ تحریک کی وہی امنگیں ہیں کہ جن کی بناء پر یہ تحریک قائم ہوئی ہے بالفاظ دیگر آج بھی دنیا کی قومیں، امن و انصاف کی خواہاں اور تسلط پسندی کے خلاف ہیں اس رو سے ناوابستہ تحریک کے رکن ملکوں اور اقوام عالم کی امنگوں کے درمیان ایک بندھن پایا جاتا ہے جسکی بنیاد، جغرافیائی یا دینی و قومی و نسلی اتحاد سے ہٹ کر ایسی مشترکہ انسانی فطرت کے اصول پر استوار ہے جو دنیا میں معنویت اور حق و انصاف کی متقاضی ہے ۔ | ||
Statistics View: 2,141 |
||